• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہوں سے کون واقف نہیں. یہ کھیتوں کھلیانوں اور گھروں میں پائے جاتے تھے مگر اب سرکاری دفاتر میں بھی ان کی رسائی اسقدرعام ہوگئی ہے کہ وہاں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں،عالمی سطح پر ان کا پھیلاؤ چند صدیوں قبل سمندری جہازوں کے ذریعے بین البر اعظمی تجارت میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے ہوا،آج شاید ہی دنیا کا کوئی خطۂ زمین ہوگا جہاں ان کی نسل موجود نہ ہو،سائنسی میگزین ڈسکوور کے مطابق چوہوں میں بے پناہ تولیدی صلاحیتیں ہوتی ہیں،اوسطا ایک چوہے کی عمر تین سے چار سال تک ہوتی ہے۔
چوہوں کا ذکر عموماً منفی تاثر پیداکرتا ہے، لوگ انہیں خطرناک بھی سمجھتے ہیں اور باعث حقارت بھی، شاید اسی لئے سیاسی اصطلاح میں اپنے مخالفین کو چوہوں سے تشبیہ دی جاتی ہے، نازی جرمنی میں یہودیوں کے خلاف پروپیگنڈے میں انہیں چوہوں سے مشاہبت دی گئی تاکہ لوگوں کو نہ صرف ان سےبدظن اور خوفزدہ کیا جاسکے بلکہ اس طرح انہیں ذلیل بھی کیا جاسکے، جب 2011ء میں امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کے ایما پر لیبیا میں عوامی بغاوت شروع کرائی گئی تو کرنل معمر قذافی نے سرکاری ٹیلی ویژن پر خطاب میں اپنے مخالفین کو چوہوں سے تشبیہ دیتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ وہ انہیں ان کے بلوں سے نکال باہر کردیں گے،حالانکہ ایسا ممکن نہ ہوسکا اور چند ہی دنوں کے بعد وہ خود چوہوں کی طرح چھپ گئے، بالاخر سی آئی اے نے ان کو جلد ہی ڈھونڈ نکالا اور پھر انہیں کھلے عام کافی تذلیل کے بعد اذیت ناک موت سے دو چار کیا گیا،‬تاریخی طور پر چوہوں کو ’کالی موت‘ یا طاعون کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اسلئے ان کا پی آر ہمیشہ سے خراب رہا ہے،چند صدیاں پہلے طاعون سے دنیابھر میں کروڑوں افراد تواتر کے ساتھ موت کا نشانہ بن گئےتھے مثلا چودھویں صدی میں یورپ میں طاعون کی وجہ سے ڈھائی کروڑ افراد کی موت واقع ہوئی یہ تعداد اس وقت کی کل آبادی کا ایک چوتھائی تھی اسی طرح سترہویں صدی میں لندن کے طاعون عظیم میں ایک لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے جو کہ شہر کی آبادی کا چوتھا حصّہ تھے۔ بر صغیر میں آخری بڑا طاعون1994ء میں بھارت کے شہر سورت میں نمودار ہوا جس نے آناًفاناً ملک کے جنوب وسطیٰ اور جنوب مغربی علاقوں بشمول دارالحکومت نئی دہلی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اگرچہ حکومت کی بروقت کارروائی سے مرنے والوں کی تعداد سو سے کم رہی اور متاثرین بھی لگ بھگ ایک ہزار تک ہی محدود رہے مگر وسیع پیمانے پر خوف و ہراس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں نے نقل مکانی کی اور سیاحت کو بھی بڑا دھچکہ لگا جس سے معیشت کو کافی نقصان پہنچا۔اس خوف و ہراس سے قطع نظر بھارتی سیاستدانوں نے اس مسئلے میں بھی پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا۔اس وقت بی جے پی کے مرکزی لیڈر لال کرشن اڈوانی نے آئی ایس آئی پر الزام لگایا کہ اس نے ہی جان بوجھ کر چوہے لاکر بیماری کو پھیلایاہے بعد میں حکومت ہند نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جس نے طاعون کی تصدیق تو کی مگر اسکی وجوہات اور مآخذ کے بارے میں کوئی رائے زنی کرنے سے احتراز کیا۔
‎پچھلے چند ہفتوں سے بھارت اور پاکستان دونوں ہمسایہ ممالک میں چوہے کافی خبروں میں رہے اور حیرت انگیز طور پر خبریں ان چوہوں کی ایوان اقتدار سے بڑھتی ہوئی قربتوں کی وجہ سے سامنے آئیں۔یہ حیرتناک بات بھی سامنے آئی کہ کس طرح دونوں ممالک کے چوہوں کی سوچ میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے اور وہ نہ صرف یہ کہ اقتدار کی غلام گردشوں سے قربت کی اہمیت کو سمجھ چکے ہیں بلکہ انہیں وہاں پر وسائل کی بے حساب فراوانی سے بھی لطف اندوز ہونے کا سلیقہ آ گیا ہے،مارچ کے وسط میں بھارتی صوبے مہاراشٹر سے خبر آئی کہ وہاں کے سرکاری سیکرٹیریٹ میں ایک نجی فرم کے سروے کے مطابق عمارت میں تین لاکھ انیس ہزار چار سو چوہے تھے۔ سروے کے فورا بعد مذکورہ کمپنی کو چوہے مارنے کا ٹھیکہ دیا گیا جس نے دعوے کے مطابق ان کو ایک ہفتے کے قلیل عرصے میں مارکر شاید عالمی ریکارڈ قائم کیا،اخباری رپورٹس کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں چوہے مارنے کے دعوؤں کے باوجود کسی سرکاری ملازم نے انہیں کسی بھی وقت عمارت کے اندر نہیں دیکھا. اپوزیشن لیڈروں نے اس پر کافی سوالات اٹھائے اور بتایا کہ ممبئی کی میونسپل کارپوریشن اپنے بےپناہ وسائل اور افرادی طاقت کے باوجود پچھلے دو سالوں میں پورے شہر میں صرف چھ لاکھ چوہے مار سکی ہے، اس تناظر میں صرف ایک ہفتے میں تین لاکھ سے زیادہ چوہے مارنے کا دعوی صرف دیومالائی طاقت کے حامل افراد یا کمپنیاں ہی کرسکتی ہیں۔‎اس واقعے سے قبل فروری کے اواخر میں جیو نیوز نے انکشاف کیا کہ اسلام آباد میں واقع پارلیمنٹ ہاؤس پر چوہوں نے قبضہ کر لیا ہے،پہلے مجھے لگا کہ شاید یہ دعویٰ استعاراتی معنوں میں کیا گیا ہوکیونکہ حالیہ سینیٹ الیکشن میں مختلف ممبران کی وفاداریاں بدلنے کی اچھل کود چوہوں کی خصوصیات سے کافی حد تک ملتی جلتی نظر آئیں،تھوڑی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ واقعی عمارت پر چوہوں کا راج قائم ہو گیا ہے جنکی تعداد پچاس ہزار سے زائد بتائی گئی،ایک اور اخباری رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ’’چوہے بادشاہوں کی طرح پارلیمنٹ لاجز، کیفے ٹیریا، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدارت میں گھومتے پھرتے ہیں‘‘۔چوہوں کا اسطرح کا گستاخانہ طرز عمل شاید ملک میں سیاست کے گھٹتے ہوئے اثر و نفوذ اور معیار کی طرف ایک واضح اشارہ ہے جس میں عقلمندوں کیلئے آنے والے وقتوں کے بارے میں واضح نشانیاں موجود ہیں، بڑھتی ہوئی تعداد شاید اس بات کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ اب سیاست اور اس کے ایوانوں میں اتنا زیادہ گند بھر گیا ہے کہ اب یہ ماحول صرف چوہوں کیلئے سازگار رہ گیا ہے.یہ بات شاید ہر ملک اور تہذیب میں مشترک ہے کہ اگر عمارتوں پر چوہوں کا قبضہ ہوجائے تو یہ انکے وصف اور مول کو گھٹا دیتا ہے۔
‎سال 2018 ء سیاسی گرما گرمی اور اکھاڑ پچھاڑ کا سال ہے۔ اس کی ابتداء سینیٹ الیکشن سے شروع ہوکر ابھی بلوچستان میں نئی پارٹی کے ظہور کی شکل میں دوبارہ سامنے آئی ہے، اس سے پہلے کراچی میں کئی دہائیوں تک دہشت گردی کو سیاست کا جامہ پہنانے والی جماعت توڑ پھوڑ کا شکار ہوگئی،آثار و قرائن سے یہی لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کی صوبائی اور قومی سطح کی سیاست مزید توڑ پھوڑ اور تغیر و تبدل کا شکار ہوجائے گی،اس موقع سے چوہے ضرور فائدہ بھی اٹھایں گے اور مزید طاقت بھی حاصل کر لیں گے۔ایسی صورتحال میں کوئی عجب نہیں کہ اگلی سرکار چوہوں کی ہی نہ ہو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین