• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی نیا کاروبار شروع کرو تو اس کے مثبت پہلوئوں کی بجائے سب سے پہلے منفی پہلوئوں پر غور ضرور کر لینا چاہئے۔ ہرا ہرا سب کو نظر آتا ہے مگر پیلا رخ دیکھنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ آج سیاست بھی دنیا میں ایک بیوپار ہے۔ اچھا بیوپاری ہمیشہ اپنی دانش، حکمت، منصوبہ بندی سے نفع بخش سودوں کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ آج دنیا میں تمام روایتی نظریئے ناکام ہوتے جارہے ہیں، ٹرمپ کی آمد کے بعد سے دنیا کی تاریخ نیا رخ اختیار کر رہی ہے۔ یہ مستقبل کا مورخ ہی طے کرنے کی پوزیشن میں ہوگا کہ آیا ٹرمپ نے دنیا کو برباد کیا یا اقوام عالم میں محبت ، رواداری، استحکام کو فروغ دیا۔ جہاں تک ٹرمپ کی ذہنی حالت کا تعلق ہے تو اس سے کچھ بھی بعید نہیں کہ ’’کھبی دکھا کر سجی مار دے‘‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ مختلف ممالک کے بیانیے تیزی سے بدل رہے ہیں۔ نئی صف بندیوں میں صدیوں پرانی روایات ٹوٹ رہی ہیں۔ دین ، دنیا الگ الگ نظر سے دیکھے جانے لگے ہیں۔ ہر طرف ذاتی مفادات کا کاروبار فروغ پا رہا ہے۔ شمالی و جنوبی کوریا گلے مل رہے ہیں افغان مسئلے کو جنگ کے بجائے سیاسی مذاکرات سے حل کرنے کو ترجیح دی جارہی ہے خصوصاً عرب ممالک کے امریکہ ، یورپ اور اسرائیل سے کاروباری تعلقات میںبالکل نیا رجحان فروغ پا رہا ہے ایسے حالات میں جہاں دنیا کا کاروبار بدل رہا ہے پاکستان کی سیاسی اسٹاک مارکیٹ بُری طرح ہیجان کا شکار ہے۔ سیاسی اسٹاک مارکیٹ میں سینیٹ انتخابات کے شیئرز میں اچانک تیزی کے بعد قدرے مندی کا رجحان دیکھا جارہا تھاجو ایک بار پھر تیزی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ مختلف سیاسی و غیر سیاسی کمپنیاں عام انتخابات سے قبل شیئرز کا جو لین دین کررہی ہیں اس میں کوئی خسارے میں جارہا ہے تو کوئی اپنی جھولی میں نفع سمیٹنے کی کوشش میں ہے۔ سیاسی اسٹاک مارکیٹ کا یہ کاروبار بڑا اعصاب شکن ہے۔ اس میں فائدہ اسی کا ہوتا ہے جو مہارت سے لین دین کرے بصورت دیگر نامراد ہی لوٹنا پڑتا ہے اور ہاتھ کچھ نہیںآتا۔ اتار چڑھائو کے اس کاروبار میں پاکستان پیپلزپارٹی قدرے پر سکون دکھائی دیتی ہے۔ راوی اس کی مختلف وجوہات بیان کرتا ہے مگر اصل وجہ وہ تھپکی قرار دی جارہی ہے جس کے اثرات سینیٹ انتخابات میں بلوچستان سے دیکھے گئے۔ نواز شریف کی نااہلی کا معرکہ سر کرنے کے باوجودپاکستان تحریک انصاف میں جو اضطراب ہے وہ معنی خیز ہے۔ عمران خان کے حصے میں جو اسکرپٹ آیا ہے اس پر واضح حروف میں کبھی خوشی کبھی غم لکھ دیا گیا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ کہیں تھپکی کے بجائے تھپک تھپک کر سُلا نہ دیا جائے۔ اس لئے وہ محض تھپکی پر اکتفاء نہیں کررہے ہیں لہٰذا بے چینی کا عنصر نمایاں ہونا فطری ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) سیاسی شیئرز کا جو کاروبارکررہی ہے وہ تاحال گھاٹے کا سودا ہی نظرآرہا ہے۔ فریادی ناکام لوٹ آیا ’’ترلے کام نہ آئے‘‘۔ نگران سیٹ اپ کے متعلق جن شکوک وشبہات نے جنم لیا ہے وہ پختہ ہوتے جارہے ہیں، اگر یہ سیٹ اپ طویل المیعاد ہوا تو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں کو اس میں مناسب حصہ دیئے جانے کا امکان ہے اور اس مقصد کے لئے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے،مسلم لیگ (ن) ان محرکات کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔ وہ بظاہر جارحانہ موڈ میں ہے مگر اپنی پسپائی کو بڑے قریب سے دیکھ رہی ہے۔ (ن) لیگ کو یقین ہو چلا ہے کہ آئندہ عام انتخابات لوہے کے چنے ثابت ہوں گے۔ ’’صادق‘‘ کو چیئرمین سینیٹ کی نشست پر براجمان کرانے کے بعد آئندہ وزارت عظمیٰ کے لئے ’’امین ‘‘ کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ سیاسی بازار حصص کی ایک سازشی تھیوری کے مطابق مارکیٹ کے بڑے سیٹھ ’’امین‘‘ کا فیصلہ بھی کرچکے ہیں مگر ’’ زرداری ، عمران اینڈ کو‘‘ مخمصے کا شکار ہیں ، ادھر چودھریوں نے بھی سینیٹ انتخابات کے بعد ’’سائیکل‘‘ کو ’’ٹاکی‘‘ مارنا شروع کر دی ہے۔ سندھ خصوصاًکراچی حیدرآباد کی سیاسی مارکیٹ میں ایک بار پھر پتنگ اڑنے کو تیار ہے۔ مار دھاڑ، جذباتی مناظر، ڈائیلاگ سے بھرپور ایم کیو ایم کی نئی فلم ہٹ ہونے کے قریب ہے۔ خصوصاً ڈاکٹر فاروق ستار کی بہادر آباد آمد کے بعد توقع رکھی جارہی ہے کہ یہ فلم عام انتخابات کے قریب باقاعدہ ریلیز کر دی جائے گی اور فلم کے تمام کردار پرانی قیمت پر ہی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ایم ایم اے کی بحالی کے بعد خیبرپختونخوا کی مارکیٹ میں بھی پیداہو چکی ہے۔ خیبر پختوانخوا کا پاکستان اقتدار اسٹاک مارکیٹ میں شیئر کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور تمام شیئر ہولڈرز کو ان کی بساط کے مطابق منافع دینے کی یہی تدبیر ہے کہ ایم ایم اے کے شیئر کو مارکیٹ میں مزید فروغ دیا جائے ۔
امید ہے ’’صادق و امین‘‘ کا منصب سنبھالنے کے لئے گھوڑوں کو خوب بھگایا جائے گا تاکہ وہ چست رہیں اور اپنا کام طے شدہ دیانت داری سے کرتے رہیں۔ اسی لئے ’’امین‘‘ کا فیصلہ جان بوجھ کر خفیہ رکھا گیا ہے تاکہ ’’صادق ‘‘ کاہر خیر خواہ خود کو ’’امین‘‘ سمجھے۔ سیاسی کشمکش کے اس دور میں باجوہ ڈاکٹرائن کے جو مفاہم و مطالب نکالے جارہے تھے ان کا تاثر زائل کرنے کے لئے واضح کر دیا گیا ہے کہ پاک فوج کا سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور این آر او سے کوئی تعلق نہیں مگر ملکی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے اہل سیاست و صحافت یہ موقف ہنسی خوشی ہضم کرنے کو تیار نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ملک چلانے کے لئے آپسی روابط ہوتے رہتے ہیں مگر مخصوص وقت میں روابط مخصوص مقاصد کے لئے کئے جاتے ہیں البتہ ایک دوسرے کی بات سے اتفاق نہ کرنا فریقین میں سے کسی ایک کی مجبوری بھی ہوسکتی ہے اور حالات کا تقاضا بھی۔ ملک کو درپیش بیرونی چیلنجز اپنی جگہ مگر اندرونی چیلنجز کے بت تو ہم خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے چلے آئے ہیں، اس سلسلے میں ہماری اب بھی وہی بے ڈھنگی چال ہے۔ اگر ادارے اپنااپنا کام نہیں کریں گے تو نرگس صدا روتی ہی رہے گی اور ’’اُجڑے باغاں دے راکھے گالڑ‘‘ چمن کی معیشت کو ٹیکہ لگاتے رہیں گے۔ ایسے میں سیاسی اسٹاک مارکیٹ تو تیز رہے گی مگر حقیقی اقتصادی اسٹاک مارکیٹ تیزی سے مندی کا شکار ہو جائے گی۔ پاکستان سیاسی اسٹاک مارکیٹ میں ایک تھیوری یہ بھی دیکھی جارہی ہے کہ عام انتخابات کو کچھ عرصہ کے لئے بھول جائیں۔ عدلیہ کے پس منظر میں کچھ بڑے فیصلوں کی امید پر کہ پہلے ’’سیاسی گندے نالوں‘‘ کی صفائی ہو جائے، سیاسی ومعاشی سیوریج کا نظام بحال کر دیا جائے، پنجاب میں ’’بھل صفائی مہم‘‘ منطقی انجام کو پہنچ جائے تو پھر عام انتخابات بارے سوچا جائے۔ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نقشہ نویس نے اُجڑے گلستان کو چمن بنانے کی سوچ اپنا رکھی ہے اور ایسی سیاسی عمارت کا نقشہ تیار کیا جارہا ہے جس کی بنیاداحتساب، انصاف ، انقلاب اور پھر انتخاب کے نام پر رکھی جاسکتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین