• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ووٹ کو عزت دو‘‘

ادھورا پن کہیں بھی ہو بہت ناگوار گزرتاہے۔ خصوصاً ادھورا نعرہ تو بے حد گراں بلکہ ناقابل برداشت محسوس ہوتا ہے۔ آج کل ن لیگ بہت بری طرح ’’ادھورگی‘‘ کا شکار ہے۔ یہاں تک کہ ان کے نعرے ہی نہیں،غورسے دیکھیں تو ان کے چہرے بھی ادھورے ادھورے لگتے ہیں۔آنکھیں نہیں اپنی کبھی چہرہ نہیں اپناوہ ’’بھوک‘‘ ہے اعضا کہیں اعضا کو نہ کھالیںاور ظاہر ہے یہ ’’بھوک‘‘مال و دولت کی نہیں کہ اس کے تو انبار لگے ہیں۔ بھوک ہےاقتدار کی جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہاتھوں بلکہ پنجوں سے نکلتا، پھسلتا دکھائی دے رہا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے بندہ دُہائی بھی نہ دے لیکن ان کی دُہائیاں بھی ادھوری ادھوری سی ہیں۔ نہ کھل کے ہنس رہے ہیں نہ کھل کے رو پا رہے ہیں۔نہ پوری طرح منت کر رہے ہیں نہ دھمکا رہے ہیں۔ حالت اس ضرورت مند جیسی ہے جس نے کشکول لاٹھی کے ساتھ باندھ رکھا ہو کہ خیر نہ ملی تو لاٹھی چلائوں گا حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ان کی لاٹھی کو نظر بھی لگ چکی اور دیمک بھی۔چہروں کے ادھوے پن پر پھر کبھی سہی..... آج صرف ان کے نعروں، باتوں کی ادھورگی پر ہی فوکس کروں گا۔ آج کل ’’نواز شریف اینڈ سنز‘‘ نہیں’’نواز شریف اینڈ ڈاٹر‘‘ نامی کمپنی یہ ادھورا نعرہ مارکیٹ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔’’ووٹ کو عزت دو‘‘نعرہ بہت اچھا لیکن اتنا ہی ادھورا بھی ہے۔ آئیں ان کی تقریباً تیس سالہ سیاسی تاریخ کی روشنی میں اس ادھورے نعرے کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔’’ووٹ کوعزت دو ، ووٹر کو ذلت دو‘‘’’ووٹ کو عزت دو، ووٹر سے سب کچھ چھین لو‘‘’’ووٹ کو عزت دو۔ ووٹر کو جہالت دو‘‘’’ووٹ کو عزت دو۔ ووٹر کو فریب دو‘‘’’ووٹ کو عزت دو۔ ووٹر کو مہنگائی دو‘‘’’ووٹ کو عزت دو۔ ووٹر کے رستے بند کرو‘‘’’ووٹ کو عزت دو۔ دنیابھر میں پراپرٹی لو‘‘’’ووٹ کو عزت دو۔ باہر کا باہرکمیشن لو‘‘’’ووٹ کو عزت دو۔ پینے کا پانی صاف نہ ہو‘‘’’ووٹ کو عزت دو۔ خود جدہ کارستہ لو‘‘’’ووٹ کو عزت دو۔ مودی بھائی کو دعوت دو‘‘’’ووٹ کو عزت دو۔ سمدھی کو خزانہ دو‘‘’’ووٹ کو عزت دو۔ خود چھانگا مانگا سیرکرو‘‘’’ووٹ کو عزت دو۔ پھر قرضوں کے عوض بیچ دو‘‘’’ووٹ کو عزت دو۔ چمچوں کو نوکریاں دو‘‘سلسلہ شیطان کی آنت سے بھی لمبا ہوسکتاہے۔ ذہین قارئین سے گزارش ہے باقی کا کام خود سنبھال لیں۔دوسری ادھوری بات تھوڑی سی مضحکہ خیز بھی ہے مثلاً میاں صاحب نے صدر پرویز مشرف کے منہ بولے بھائی امیرمقام کے پہلو میں کھڑے ہو کر فرمایا۔’’جہاں سے جو ہدایات دوں، ان پر عمل کرنا۔‘‘یعنی عوام روبوٹ ہیں جنہیں گوالمنڈی کے مہابلی ریمورٹ سے ہینڈل کریں گے جیسے میاں صاحب نہ ہوئے امام خمینی ہوگئے جن کی خواہش ایرانی عوام کے لئے حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ بہت کنفیوژڈ ہیں کہ کبھی قائداعظم ثانی کبھی شیرشاہ سوری ثانی اور اب امام خمینی ثانی بننے کی خوابیدہ خواہش لیکن یہ طے کہ رہیں گے ہمیشہ ثانی..... ’’بانی‘‘ہوں گے تو صرف ایون فیلڈ یا پاناما کے کہ اب وجہ ٔ شہرت یہی رہ گئی ہے۔ اس بیان کااصل ادھورا پن یہ کہ اس ’’مقام‘‘ کا ذکر نہیں کیا جہاں سے ہدایات جاری فرمایاکریں گے۔ کیا چاند یا مریخ پر کوئی نیا جاتی عمرا بسانے اوروہاں سے حکم چلانے کا ارادہ ہے؟ یا جیل کا ذکرکرتے ہوئے شرما یا کترارہے ہیں؟’’ترقی دیکھنی ہے تو پنجاب آئو‘‘ والی بات بھی ادھوری ہے کیونکہ پنجاب آئیں تو کہاں جائیں؟ چلو لاہور آ جاتے ہیں تو لاہور آکر کہاں جائیں؟بیگم صاحبہ کے حلقہ میں یا برادر خورد کے حلقہ میں جہاں خاک اُڑ رہی ہے، کیچڑ بہہ رہاہے اور لوگ گدلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جس کا جی چاہے پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر اصلی لاہور کی ترقی کاحقیقی چہرہ دیکھ لے..... اک اور صورت بھی ہوسکتی ہے کہ پنجاب کی ترقی دیکھنے بلکہ ’’سمجھنے‘‘کے لئے لاہور’’نیب‘‘کے آفس جاکر معلوم کریں کہ احد چیمہ کیسے چہچہا رہا ہے اور وعدہ معاف گواہوں نے کیسے کیسے گل کھلا دیئے ہیں۔’’ووٹ کو عزت دوجھوٹ ذرا کم کم بولو‘‘ووٹ کو صحیح معنوں میں عزت دی ہوتی تو آج آپ کو ایسی عزت افزائی کا سامنا نہ ہوتا۔

تازہ ترین