• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بچہ مجھے مانگنے والے اور اس کی طرح گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے والوں سے مختلف نظرآیا۔میںنے چوک کا سگنل کراس کرکے گاڑی سائیڈ پرروک لی اوراس بچے کو بھی وہاں بلالیا۔اسکا نام سکندر تھا باپ فوت ہوچکا تھا کبھی کبھی اسکول چلاجاتا تھا لیکن زیادہ ترگھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے شاہرائوں پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرلیتا ہے۔مانگ بھی لیتا ہے یا کہیں کام ملے تو وہ بھی کرلیتا ہے۔میں نے بچے کی تھوڑی بہت مدد کی اس سے کچھ دیر بات کی کیونکہ میں ابھی ایک اسکول سے آرہا تھا اور بچوں کے سحر میں ہی مبتلا تھا۔اسکول میں سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان تھا اور ان بچوں کو انعامات دینے کے لئے اسکول نے ہر سال کی طرح اس بار بھی مجھے مدعو کیا تھا۔تاکہ وہ ہونہار بچوں کو میرے ہاتھ سے انعامات دلوائیں ۔اسکول کی انتظامیہ مجھے مہمان خصوصی کادرجہ دیتے ہوئے بہت عزت دیتی ہے اور میرا تعارف کرواتے ہو ئے بہت ساری تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں جو کہ یقیناً ہر انسان کی کمزوری ہوتی ہے لیکن میںا سکول کی انتظامیہ سے درخواست کرتا ہوں میں جب بھی ان بچوں کو انعامات اورسرٹیفکیٹس دے رہا ہوں تو مجھے ایسا معلوم ہورہا ہوتا ہے کہ ان بچوں کے ہاتھوں سے مجھے کپ دیاجارہا ہے ،میرے ہاتھوں میں وہ سرٹیفکیٹ دیاجارہا ہوتا ہے ،وہ میڈل میرے گلے میں پہنایاجارہا ہوتا ہے۔اور میرے لیے یہی بہت بڑا اعزاز اورخوشی ہوتی ہے۔دوسری بات یہ کہ یہ بچے مختلف والدین ہی کے محض بچے نہیں ہوتے بلکہ یہ میرا پاکستان ہے جن میں نہ جانے کون کون سے ہیر ے پنہاں ہوتے ہیں۔بچوں کے چہروں پر خوشی مجھے بہت اطمینان دیتی ہے اور پھران بچوں کے والدین کی خوشی ،یہ سب میرے لئے بڑےدلکش مناظر ہوتے ہیں اورمیں جتنی دیرا سکول میں موجود ہوتا ہوں مجھے ذرا سی بھی بوریت یا اکتاہٹ نہیں ہوتی۔بچوں کی معصوم حرکات میں مجھے اپنا بچپن اورا سکول لائف نظرآتی ہے کیو نکہ ہر شخص کے لیے جس نے اسکول میں وقت گزارا ہوتا ہے اس کے لیے اسکول لائف یادوں کا ایک خزانہ لئے ہوتی ہے۔اس لیے میرے لیے تعریف سے زیادہ یہی بہت کچھ ہو تا ہے۔سالانہ امتحانات کی تقریب ختم ہوئی تو میں کافی دیر تک پرنسپل صاحب کے کمرے کی کھڑکی کی بلائنڈز ہٹا کر باہر بچوں کو شرارتیں کرتے اور ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے دیکھتا رہا۔اور جب اسکول سے نکلنے لگا توبھی میں نے بہت سارے بچوں کو دیکھا کہ وہ ہاتھ کو جہاز کی شکل دے کردائیں بائیں موڑتے نظرآئے جیسے وہ فلائنگ کررہے ہو ں،میں نے بھاگتے ہوئے دوبچوں کو روکا اور پوچھا کہ وہ ہا تھو ں کو اس طرح دائیں بائیں موو کرتے اوراوپر کی طرف لے جاتے ہوئے ،کیا کررہے ہیں ۔جس بچے سے میں نے سوال کیا وہ شرما سا گیا لیکن دوسرے بچے نے اعتماد سے جواب دیتے ہوئے کہاسر ہم جہاز اڑا رہے ہیں۔میں نے پوچھا تمہیں کیسے معلوم کہ جہاز اس طرح اڑتا ہے اورپھر میں نے بھی ہاتھ سے ان کی طرح جہازکواڑاتے ہوئے دکھایاتو بچے نے جھٹ جواب دیا سر آپ نے 23 مارچ کو جہازوں کو اڑتے نہیں دیکھا کہ وہ جس طرح سلامی دے کر اوپر فضائوں میں گم ہوجاتے تھے۔اورپھر چکرکاٹتے ہوئے نظرآتے اور پھر نظروںسے اوجھل ہوجاتے۔میرا اگلا سوال تھا آپ بڑے ہو کر کیا بنوگے تو اب اس بچے نے بھی جو تھوڑا شرما رہا تھا یک زبان ہو کر جواب دیا۔ایئر فورس جا کر پائلٹ بنیںگے۔میرے دل سے بے اختیار ان دونوں بچوں کے لیے دعا بھی نکلی اور خوشی بھی ہوئی۔اورمجھے گزشتہ کالم میں اپنی ہی لکھی ہوئی یہ بات بھی یاد آئی کہ ہماری نئی نسل کے بچوں کے لئے 23 مارچ کی پریڈ میں ضرور زیادہ سے زیادہ گنجائش ہوناچاہیے تاکہ ہمارے بچوں کو معلوم ہوکہ ہم کس اثاثے کی امین ہیں۔ لیکن سگنل پر سکندر نے مجھے اسکول کے بھاگتے دوڑتے

بچوں کے سحر سے نکال لیا تھا۔ میںنے جب سکندر سے پوچھا ،تو اسے '23 مارچ کے با رے میں کچھ معلوم نہ تھا ،نہ کسی کرکٹ میچ کے بارے میں جانتا تھا۔اسے تو صرف یہ معلوم تھا کہ اس کی ساری خوشی، اس کا سارا مستقبل ،اس کی ساری محنت، صر ف اس لیے تھی کہ جب شام کو گھر جائے تو اس کے پا س اپنی ماں، چھوٹے بہن بھائیوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اتنے پیسے ہوں کہ ماں خوش ہوجائے کیونکہ ماں نے بچوں کو کھانا بھی دینا ہے۔گھر کا کرایہ بھی جمع کرنا ہے اور دیگراخراجات بھی پورے کرنے ہیں۔تھوڑی دیر پہلے میں جن بچوں کی خوشی اور سحر میں مبتلا تھا اب ان سے نکل کر ،میں سکندر کی باتوں میں کھو چکا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا ایسے بچوں کے لیے ہماری حکومتیں کچھ سوچیںگی ؟یا اس سکندر ،کا مقدر لوگوں کے شیشے صاف کرکے صرف ایک دن کی روٹی اکٹھی کرنا ہے۔کیونکہ جس ملک میں آنے والے کل تک بھی کوئی اپنا مقدر تبدیل نہ کرسکے وہ ملک عوام کے لئے نہیں ہوتا ۔ہمیں گدا گر سکندر نہیں، بلکہ مقدر کے سکندر بنانے ہیں۔

twitter:@am_nawazish

SMS رائے: #AMN (SPACE)پیغام لکھ کر 8001پر بھیجیں

تازہ ترین