• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ نے نادیہ ساوچنکو کا نام نہیں سنا تو کوئی بات نہیں ۔ یوکرائن یہاں سے 2,356 میل فضائی مسافت کی دوری پر ہے ۔ اُس خطے کے بہت سے جغرافیائی خدوخال ہمارے لئے اجنبی ہیں۔ مزید برآں، وہ علاقہ عالمی اور علاقائی رقابتوں کے زخموں سے چور ہے ۔ ہمارے اپنے مسائل کیا کم ہیں جو ہم بحر ِ اسود کے ساحل پر واقع مشرقی یورپ کو چھونے والی اس ریاست کے حالات و واقعات سے پریشان ہوتے رہیں۔ لیکن نادیہ کی زندگی کی حالیہ پریشانی ہمار ی پاک سرزمین پر پیش آنے والے کچھ واقعا ت کا استعارہ ہے ۔ بطور یوکرائن کی ہیلی پائلٹ، نادیہ 2014ء میں روس کی حمایت یافتہ فورسز کی قید میں آگئیں۔ اُنہیں بائیس سال قید کی سزا سنائی گئی ۔ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے نتیجے میں وہ واپس اپنے وطن آگئیں۔ اُنہیں ایک ہیروئین ، ایک تاریخ ساز جنگجو اور یوکرائن کیلئے سرمایہ ٔ افتخار قرار دیا گیا۔ وہ اتنی مقبول ہوچکی تھیں کہ غیر موجودگی میں بھی پارلیمنٹ کی ممبر منتخب ہوگئیں۔ وہ قومی وقار، قوم پرستی اور بڑھتے ہوئے روسی اثر کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئیں۔
نادیہ جیسے کسی شخص کے لئے مستقبل کی سیاسی راہیں بہت آسان ہونی چاہئیں ۔ لیکن ایسا نہیں ہے ۔ اس وقت وہ جیل میں ہیں۔ لیکن یہ روسی جیل نہیں ہے ، اور نہ ہی وہ ملک کے اُن حصوں میں قید ہیں جو ہنوز باغیوں کے قبضے میں ہیں۔ نہیں، وہ اُسی ملک کی جیل میں ہیں جس نے اُنہیں آنکھوں پر بٹھایا اور مقبولیت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ اور اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں ، صرف چند ماہ لگے ہیں۔ نادیہ کا جرم کیا ہے ؟ اُن پر الزام یہ تھا کہ وہ شب خون مارنے کی منصوبہ بندی کررہی تھیں۔ اُنھوںنے مغرب نواز صدر، پیٹرو پروشنکو کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
نادیہ کی موجودہ ابتلا کا منصفانہ جائزہ بتاتا ہے کہ وہ سیاسی طبقے کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکی تھیں۔ چنانچہ اُن کے بڑھتے ہوئے اثر کو زائل کرنے کے لئے اُنہیں جیل میںڈالنا بہتر سمجھا گیا۔ اہم ترین مقام حاصل کرنے کے بعد اب جیل کی کوٹھڑی میں جانے والی نادیہ پاکستانی سیاست کے اتار چڑھائو کی علامت ہے ۔ ہر پاکستانی سیاسی رہنما ایسے سیاسی پنڈولم پر جھولتا دکھائی دیتا ہے ۔ نادیہ کی سحر انگیز کہانی ہماری سیاسی بساط کے لئے اجنبی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمارے ہاں پایا جانے والا کوئی سیاسی کردار تھیں۔ کبھی دیوی کا درجہ دے کر عقیدت کے پھول نچھاور کیے گئے ، تو کبھی اُنہیں ملک کے لئے ایک خون آشام عفریت قرار دیا گیا۔
نادیہ کی مثال کے قریب ترین ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ جب بھٹو اقتدار میں تھے تو اُنہیں ایک چیمپئن کے طور پر پکار ا گیا۔ کہا گیا کہ اُنھوں نے پاکستان کی کھوئی ہوئی عظمت بحال کردی ہے ۔ اُن کے سینے پر سجنے والے تمغوںمیں انتہائی اہمیت کے حامل جوہری پروگرام کو توسیع ، اور ملک کو ایک پہلا متفقہ آئین دینا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو کی کچھ خامیاں تھیں، اور اُن میں سے کچھ ناقابل ِ اصلاح تھیں۔ لیکن اُن میں سے کوئی بھی اتنی سنگین نہ تھی جو اُنہیں تختۂ دار تک لے جاتی۔ لیکن انجام کار ایسا ہی ہوا۔ جس نظام نے بھٹو کو پروان چڑھایا تھا، نکھارااور اُنہیں ایک ہیرو کا درجہ دیا، اُسی نظام نے اُنہیں ایک ولن قرار دے کر تختہ ٔ دار پر چڑھا دیا۔ ہر دو کے درمیان کوئی عشرے نہیں، گنتی کے چند سالوں کا وقفہ حائل تھا۔ اُن کی باعزت طریقے سے آخری رسومات بھی ادا نہ کی گئیں، جس کا ہر شخص حقدار ہوتا ہے ۔ بھٹو سے پہلے محترمہ فاطمہ جناح، جو بانی ٔ پاکستان کی پرعزم ہمشیرہ تھیں، بھی اسی راہ سے گزریں۔ اُنہیں ایک ہیروئین کی سی پذیرائی ملی اور پھر اُنہیں ملک کے لئے ایک خطرہ بھی قرار دیا گیا۔ قائد ِاعظم کے دست ِراست کے طور پر کام کرنے اور اُن کے عزائم ، ان کی جدوجہد کے اتارچڑھائو کی گواہ، محترمہ فاطمہ جناح قیام ِ پاکستان کے بعد سب سے بلند قامت سیاسی شخصیت تھیں۔ مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کے حصول کے لئے اُن کی خدمات روز ِروشن کی طرح عیاں تھیں۔ لیکن جیسے ہی وہ ایوب خان اور اُن کی کنونشن مسلم لیگ کے مقابلے پر کھڑی ہوئیں، اُن کانام اس ریاست میں آلودہ کردیا گیا۔ کالم اس کا متحمل نہیںہوسکتا، آپ خود اُس وقت کے تبصرے اوراخباری رپورٹس پڑھ سکتے ہیں کہ محترمہ کے خلاف کس قدر بیہودہ مہم چلائی گئی ۔
مس فاطمہ جناح کو پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا گیا۔ جب وہ فوت ہوگئیں (کچھ کہتے ہیں کہ اُنہیں قتل کیا گیا تھا) تو اس کے بعد اُنہیں چھینے گئے مقام پر جزوی طور پر بحال کیا گیا۔ لیکن اس کا اُنہیںکیا فائدہ ؟لیکن اُس عہدسے تعلق رکھنے والی صرف فاطمہ جناح ہی نہ تھیں جنہیں اُن کی عظیم جدوجہد ان کے خلاف چلائی جانے والی زہریلی مہم سے نہ بچا سکی۔ تحریک ِ پاکستان کے زیادہ ترسیاسی رہنمائوں کا کسی نہ کسی مرحلے پر یہی حشر ہوا۔ یکے بعد دیگرے اُنہیں ریاست کا دشمن قرار دے کر جیل میں ڈالا جانے لگا۔ منظم پروپیگنڈے سے اُن کا عوامی تشخص تباہ کردیا گیا۔
کچھ دیگر افراد کو بھی اپنی زندگی میں انہیں تضادات کا شکار ہونا پڑا۔ ڈاکٹر اے کیو خان پر غور کیجیے۔ اُنہیں تعریف، توصیف، محبت اور احترام کے اتنے بڑے منبر پر ایستادہ کردیا گیا کہ اُن کے قد کاٹھ کے سامنے یہ ریاست بھی چھوٹی دکھائی دینے لگی۔ بر ِ صغیر کی حالیہ تاریخ کسی ایسی شخصیت کو ملنے والی اتنی شہرت اور توجہ کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ لیکن پھر یہی ڈاکٹر ٹی وی پر نمودار ہوکر قوم سے معذرت کرتے دکھائی دئیے، اور اس کے بعد اُنہیں گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ اب اُن کا کردار روشن ستارے سے لے کر ایک داغ کے درمیان اسکیل پر موجودگی رکھتا ہے ، لیکن اُنہیں ریاست اور دنیا نے نظر انداز کردیا ہے ۔ اپنے اقتدار میں مشرف نے ہمیں بتایا تھا کہ ڈاکٹر اے کیو خان ’’ایک چور اور دھوکے باز ‘‘ شخص ہیں۔
اسی فہرست میں غلام اسحاق بھی کھڑے ہیں۔ کبھی اُنہیں سرکاری بیانیہ حب الوطنی اور دیانت داری کی تجسیم کے طور پر پیش کرتا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ ملک نے کبھی ایسا بالغ نظر انسان پیدا ہی نہیں کیا۔ ایسا حب الوطن کہ ریاست کو ’’بچانے ‘‘ کے لئے کئی ایک وزرائے اعظم کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔ لیکن پھر ہم نے دیانت، مہارت اور حب الوطنی کا وہ عظیم پلندہ تاریخ کی رد ی کی ٹوکری کی نذر ہوتے دیکھا۔ آسمان کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے ، لیکن یہ تبدیلی بھی اپنی مثال آپ تھی۔ وہ ایک گمنام انسان کی طرح اس دنیا سے چلے گئے ۔
بے نظیر بھٹو کی مثال بھی کم چونکا دینے والی نہیں۔ کبھی اُنہیں ’’اچھے پاکستان کی علامت‘‘، شریف برادران ، جو صوم صلوۃ کے انتہائی پابنداور ایماندار بزنس مین تھے، کے مقابلے میں پاکستان کے امیج کے لئے ایک نقصان دہ شخصیت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ اُس وقت کے سرکاری بیانیے کے مطابق بے نظیر اور اُن کی والدہ پاکستان کی دشمن ، بھارت کی ایجنٹ اور ملکی راز فاش کرنے والی تھیں۔ چنانچہ اُن کا حشر بھی بھٹو والا ہونا چاہیے ۔ لیکن مشرف کے مارشل لا کے دوران ان کے کردار کی لانڈرنگ ہونے لگی، یہاں تک کے کمانڈو نے اُن کے ساتھ وطن واپسی کا معاہدہ کرلیا۔ اس وقت تک شریف ملک کے دشمن نمبر ون ہوچکے تھے ۔ سرکاری بیانیہ کہہ رہاتھا کہ ملکی تاریخ شریف برادران کی سی دغا بازی اور معاہدے کی خلاف ورزی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ اُنہیں اتنے خراب کردار کے طور پر پیش کیا گیا کہ اُن کے مقابلے میں آصف زرداری اور بانی متحدہ کے ساتھ سیاسی معاہدے قابل ِ قبول تھے ۔ خود آصف زرداری بھی اسی جھولے پر جھولتے دکھائی دئیے ۔ وہ ایوان ِ صدر میں تھے، لیکن جلد ہی ناقابل ِ برداشت بن گئے ۔ وہ جلا وطن ہوئے، اور انتظار کرنے لگے کہ کب شریف بھی اسی انجام سے دوچار ہوں۔ جلد ہی ایسا ہوا، اورپھر زرداری کی واپسی دیکھنے میں آئی۔ اب وہ ایمانداری پر لیکچر دیتے ہوئے سینیٹ کی کامیابی اپنی جیب میں ڈال چکے ہیں۔ وہ اتنے اچھے ہیں کہ دوران ِصدارت اُنھوںنے جو کچھ بھی کیا، اُس پر کسی پوچھ گچھ کی ضرورت نہیں۔
2013 ء کے انتخابات نے شریفوں کو کچھ ریلیف فراہم کیا، لیکن اب تک پہیے کا ایک اور چکر مکمل ہوچکا ہے۔ اب وہ ایسے افراد کے طور پر پیش کیے جارہے ہیں جو ملک کا تما م سرمایہ سمیٹ کر ملک سے باہر لے گئے۔ اُنھوںنے ملکی مفاد کا سودا کرلیا۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ اُن کی شادمانی کے دن بیت چکے۔ اب اُن پر زمین تنگ ہوتی جارہی ہے ۔ قارئین کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس فہرست میں اگلا نام کس کا آتاہے ۔ جی ہاں ، یہ عمران خان کے سوا کوئی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کا فکری کھوکھلا پن اور حماقتیں عیاں ہوچکی ہیںلیکن بہرحال وہ ابھی بھی شریفوں سے بہت بہتر مقام پر ہیں۔ چونکہ اُن کا حتمی مقصد ہر قیمت پر وزیر ِاعظم پاکستان بننا ہے ، اس لئے اُنہیں فی الحال ا س کی پروا نہیں ہوگی کہ اُن کے ساتھ اس کے بعد کیا ہونے والا ہے ۔
چنانچہ نادیہ کی کہانی ہمارے ہاں جاری ہے ۔انصا ف اور میڈیا اس کہانی کا پلاٹ بناتے ہیں۔ یہ دوممالک کی کہانی ہے ، جہان، ڈکنز کے الفاظ میں، بدترین لمحات بہترین لمحات کے تعاقب میں رہتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین