• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہٹلر کے وزیر اطلاعات کا نام جوزف گوئبلز تھا، یہ شخص 1933سے 1945تک وزیر رہا، روسی فوجیں جب برلن میں داخل ہوئیں اور ہٹلر نے خودکشی کر لی تو گوئبلز نے اپنے چھ معصوم بچوں کو سائنائیڈ دے کر موت کی نیند سلا دیا اور تھوڑی دیر بعد بیوی سمیت خود کو بھی گولی مار کر ختم کر لیا۔ یہ وہی شخص تھا جس سے وہ مشہور قول منسوب ہے کہ جھوٹ اس قدر بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔ گوئبلز زبردست مقرر اور لکھاری تھا، اِس نے جرمنی کی چار بڑی جامعات سے تاریخ اور ادب کی تعلیم حاصل کی اور ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی بھی کی۔ برنہارڈ رسٹ (Bernhard Rust) ہٹلر کی کابینہ میں وزیر سائنس، تعلیم اور ثقافت تھا، جرمنی کی شکست کے ساتھ اِس نے بھی خودکشی کر لی تھی، اِس کے پاس بھی فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تھی۔ ولہیلم فریک (Wilhelm Frick) ہٹلر کا وزیر داخلہ تھا، یہ وہ شخص تھا جس نے نازی جرمنی کی نام نہاد انقلابی پالیسی مرتب کی اور یہودیوں کے خلاف نسل پرستانہ قوانین بنائے، جرمنی کی شکست کے بعد اس پر نیورمبرگ میں مقدمہ چلا اور اس کے جنگی جرائم کی پاداش میں اسے پھانسی دے دی گئی، یہ شخص یونیورسٹی آف برلن، ہائیڈل برگ اور میونخ کا تعلیم یافتہ تھا اور پی ایچ ڈی تھا۔ ہائنرچ ہملر (Heinrich Himmler)نازی جرمنی کا دوسرا سب سے طاقتور شخص تھا، ہٹلر کا دست راست تھا، بدنام زمانہ تنظیم SSکا سربراہ تھا، ہملر وہ شخص تھا جسے ہولوکاسٹ کا براہ راست ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، جرمنی کی شکست کے بعد ہملر کو اتحادی فوجوں نے گرفتار کر لیا مگر وہ اِس پر مقدمہ نہ چلا سکے کیونکہ ہملر نے دوران حراست ہی سائنائیڈ چبا کر خودکشی کر لی۔ ہملر بھی جرمنی کی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا۔ Franz Schlegelberger ہٹلر کا وزیر انصاف تھا، اس کے دور میں بے تحاشہ لوگوں کو سزائے موت دی گئی، اِس نے پولینڈ کے عوام کے خلاف قانون بنایا جس کے تحت اگر کوئی پولش شخص جرمن پوسٹر پھاڑتا ہوا پکڑا جاتا تو اسے پھانسی کی سزا سنائی جاتی، نیورمبرگ ٹرائل میں اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی تاہم بعد ازاں اسے 74 برس کی عمر میں رہا کر دیا گیا، اس کے پاس قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تھی۔یہ تمام وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ لاکھوں بے گناہ افراد کے خون سے رنگے ہیں، یہ فاشسٹ نظام حکومت کی پیداوار تھے، ہٹلر کو دل و جان سے نجات دہندہ سمجھتے تھے، یہ سب نہ صرف پڑھے لکھے لوگ تھے بلکہ اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین تھے، ان کی نگرانی میں بیسویں صدی کا مرگ انبوہ ہوا، یہ وہ دور تھا جب بچوں کو زہر دے کر مارا گیا اور زہر دینے والے قابل ترین ڈاکٹرز تھے، عورتوں اور بچوں کو گولیوں سے بھوننے والے کالج اور یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل تھے اور گیس چیمبرز بنانے والے ماہر انجینئر!
میرا مقدمہ تعلیم یا پڑھے لکھے لوگوں کے خلاف نہیں، میرا رونا صرف یہ ہے کہ ہم نے اسکول کالج کی ڈگری کو شعور کی علامت اور کردار کی سند سمجھ لیا ہے۔ روزانہ ایک ارسطو اٹھتا ہے، اِس ملک کے عوام کو جاہل اور گنوار کہہ کر گالیاں دیتا ہے، جمہوریت کے خلاف نیا کیس تیار کرتا ہے اور پھر پرانی شراب کو نئی بوتل میں بند کر کے بیچنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے ایک محبوب ڈاکٹر صاحب عرصہ دراز سے مہم چلا رہے ہیں کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کی بساط لپیٹ کر صدارتی نظام نافذ کر دینا چاہئے اور صدارتی نظام بھی ایسا جس میں امیدواران کی چھانٹی معززین کی ایک کمیٹی کرے، رکن اسمبلی کے پاس ماسٹرز ڈگری لازمی ہو، ان کے کردار کی پڑتال بھی بزرگوں کی یہی اعلیٰ کمیٹی کرے اور ووٹ کا حق بھی صرف انہی لوگوں کو حاصل ہو جو کم ازکم ثانوی کی تعلیم رکھتے ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کا پورا مقدمہ اس مفروضے پر کھڑا ہے کہ پاکستان میں ان پڑھ لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے جاگیرداروں کے چنگل میں پھنسے ہیں، اسی لئے کرپٹ سیاست دان اقتدار میں آکر اعلیٰ عہدوں کی بندر بانٹ کرتے ہیں، ایسی پالیسیاں بناتے ہیں جن کا انہیں علم ہے نہ تجربہ اور یوں ملک ایک ایسے گھن چکر میں پھنس چکا ہے جس سے نکلنے کے لئے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے ہاتھ میں صدارتی نظام کے تحت اختیار دیا جانا چاہئے تاکہ وہ ملک کی کایا کلپ کر سکیں۔ پہلی بات تو وہی ہے کہ یہ کیسے طے ہو گیا کہ کالج کا فارغ التحصیل شخص تو باشعور ہی ہوگا مگر ناخواندہ کسان، جو اپنے شعبے کا پی ایچ ڈی ہے، جاہل ہو گا جو اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کر سکے گا۔ ڈاکٹر صاحب اگر مناسب سمجھیں تو کسی کالج میں ایم اے پاس طلبا سے یہ چند سوال پوچھ کر دیکھیں کہ پاکستان میں پہلا دستور کب منظور ہوا، adult franchiseکس چڑیا کا نام ہے، ہمارے آئین کے بنیادی خدو خال کیا ہیں، بنیادی جمہوریت کا شاہکار کس نے پیش کیا تھا، آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کیا ہیں..... اگر ان سوالات کا جواب درست مل جائے تو فدوی کو ضرور بتائیں تاکہ میں ایسے نوجوانوں کا صدقہ اتار سکوں۔ یہ ریاست کا فرض تھا کہ وہ ہر شہری کو ایسی سہولتیں فراہم کرتی کہ وہ تعلیم حاصل کر پاتا، مگر ایک تو ریاست نے اپنا فرض ادا نہیں کیا، اوپر سے ڈاکٹر صاحب جیسے دانشور عوام سے ان کا ووٹ کا حق اس بنیاد پر سلب کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ناخواندہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ذرا یہ بھی تحقیق فرما لیں کہ اس وقت دنیا کے کتنے ممالک ایسے ہیں جہاں تعلیم کی بنیاد پر ووٹ کا حق دیا جاتا ہے! ان باتوں کو مہذب دنیا اب دفنا چکی ہے جنہیں ہم پاکستان میں زندہ کرنا چاہتے ہیں۔
اب ذرا آ جائیں ڈاکٹر صاحب کی تجویز کردہ بزرگوں کی کمیٹی کی طرف جو بے داغ اور اعلیٰ شہرت کے حامل شہریوں پر مشتمل ہوگی اور رکن اسمبلی اور صدارت کے امیدواروں کی چھانٹی کرے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کی اپنی چھانٹی کون کرے گا؟ کسی ملک میں بائیس بندوں کو یہ اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ بائیس کروڑ عوام کو یہ بتائیں کہ اُن کے لئے کون سا امیدوار موزوں رہے گا؟ جمہوریت کا یہ ماڈل آپ نے ایران سے مستعار لیا ہے اور ایران جمہوریت کی کتنی درخشاں مثال ہے یہ جاننے کے لئے ایم اے پاس ہونا بھی ضروری نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی سائنسی خدمات کی میں قدر کرتا ہوں مگر ڈاکٹر صاحب کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ Constitutional Law اور سیاسیات پر مختلف تجاویز دینے سے پہلے بنیادی تحقیق ضرور فرما لیا کریں تاکہ ایران جیسے ممالک کی مثال جمہوریت کے ماڈل کے طور پر دینے کی غلطی نہ کریں۔ ویسے اگر ڈاکٹر صاحب کی تجویز پر عمل کرکے بزرگوں کی ایک کمیٹی بنا دی جائے جو مستقبل میں امیدواروں کی چھانٹی کرے تو اس کمیٹی کے TORsمیں یہ بات شامل ہو کہ ایسے تمام لوگ جو ماضی میں ڈکٹیٹر کی کابینہ کا حصہ رہے ہوں کسی عہدے کے اہل نہیں ہوں گے، اس صورتحال میں ڈاکٹر صاحب کا اپنا بنایا ہوا ماڈل بھی اُن کے کسی کام نہیں آئے گا۔
کالم کی دُم:ڈاکٹر صاحب نے صدارتی نظام حکومت کی حمایت میں ایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ قائد اعظم نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ پاکستان کے لئے صدارتی نظام ہونا چاہئے۔ عجیب بات مگر یہ ہے کہ قائد نے اپنی کسی تقریر میں قوم کو یہ بات بتانی مناسب نہیں سمجھی اور اپنے پاس لکھ کر رکھ لی۔ استاذی ڈاکٹر صفدر محمود قائد اعظم کے حوالے سے غیر مستند باتیں پھیلانے والوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں، کیا ہی اچھا ہو اگر صفدر محمود صاحب ہمارے سائنس کے ڈاکٹر کو بتائیں کہ قائد اعظم ملک کے لئے پارلیمانی جمہوری نظام ہی چاہتے تھے لہٰذا اس بارے قوم کو گمراہ نہ کیا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین