• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
باری باری۔ سب کی باری

گائوں کے چوہدری صاحب ایک روز خربوزوں کے باغ کے معائنے کے لئے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیک وقت تین چور باغ پر ٹوٹ پڑے ہیں اور خربوزے کاٹ کر بوریوں میں ڈال رہے ہیں۔ وہ قریب گئے تو دیکھا کہ ایک چور ان کے سگے چچازاد بھائی ہیں ، دوسرے ان کے پڑوسی اور تیسرے باہرسے آئے ہوئے ان کے کوئی مہمان ۔ چوہدری صاحب غصے سے لال پیلے ہورہے تھے لیکن سوچا کہ اب اگر بیک وقت تینوں سے الجھیں گے تو الٹا مار ان کو پڑے گی ۔ چنانچہ چوہدراہٹ کی طاقت کے باوجود حکمت سے کام لیا۔ انہوں نے چوروں میں پھوٹ ڈالنے کا طریقہ نکالا۔ مہمان چور کو مخاطب کرکے کہا کہ جناب یہ ایک تو میرے چچازاد بھائی جبکہ دوسرے بھائیوں جیسے پڑوسی ہیں ۔ میرے مال میں ان دونوں کا حق ہے ۔ وہ اگر خربوزے کاٹ کرلے جارہے ہیں تو ان کا تو حق ہے لیکن تم باہر سے آکر کیوں میرا مال چوری کررہے ہو۔ چچا زاد اور پڑوسی نے سوچا کہ وہ دونوں تو بچ رہے ہیں چنانچہ وفاداری تبدیل کرلی ۔ یوں موقع غنیمت جان کر چوہدری صاحب نے مہمان چور کی خوب دھلائی کی ۔ اس دوران چچازاد اور پڑوسی چور کاٹے ہوئے خربوزوں سے مستفید ہوکر اپنے ساتھی مہمان چور کی دھلائی کا تماشہ دیکھ رہے تھے ۔ مہمان چور سے فارغ ہونے کے بعد چوہدری صاحب پڑوسی کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ جناب یہ صاحب تو میرے چچازاد ہیں ۔ میرا مال ان کا اپنامال ہے لیکن تم کس کھاتے میں میرے مال کو غنیمت جان کر چوری کررہے تھے ۔ یوں وہ پھر ان کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کی خوب پٹائی کردی ۔ اس دوران چچا زاد نہ صرف تماشہ دیکھ رہا تھا بلکہ پڑوسی کی دھلائی میں چوہدری صاحب کا ہاتھ بھی بٹارہا تھا۔ آخر میں چوہدری صاحب چچا زاد کی طرف متوجہ ہوئے ۔ انہیں گریبان سے پکڑ کرکہنے لگے کہ بے غیرت انسان بجائے اس کے کہ تم میرے مال کی رکھوالی کرتے ، الٹا تم دشمنوں کا ساتھ دے کر اس کی چوری میں لگے ہوئے ہو ۔تم تو زندہ چھوڑنے کے قابل نہیں ہو اور پھر ان کی پہلے دو سے بڑھ کر خوب پٹائی کردی ۔
یہ کہانی میرے دوست حسین شاہ یوسفزئی نے کسی وقت ایک اور حوالے سے سنائی تھی لیکن ان دنوں مجھے بار بار یاد یوں آتی ہے کہ غور سے دیکھا جائے تو پاکستان کا چوہدری کچھ عرصہ سے اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو باغ کا رکھوالا سمجھ رہا ہے۔ اب تو کسی حد تک مالک بھی سمجھنے لگا ہے اور اس کا خیال ہے سویلین ادارے اس باغ کے خربوزے چوری کررہے ہیں ۔ کسی زمانے میں وہ ان سب مبینہ چوروں کو ایک لاٹھی سے ہانکتا رہا لیکن چند سال سے اس نے پالیسی بدل دی ہے ۔ اب وہ باری باری ، سب کی باری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ چند سال قبل چوہدری صاحب نے عدلیہ پر چوری کا الزام لگا کر اس کی پٹائی کی ٹھان لی تو سیاسی جماعتیں اور میڈیا ساتھ کھڑےہوگئے ۔ یوں چوہدری صاحب کو پسپائی اختیار کرنی پڑی بلکہ پھر انہیں 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور 2013میں مسلم لیگ (ن) جیسے خربوزہ چوروں کو بھی گلے لگانا پڑا ۔ یوں چوہدری صاحب نے گائوں کے چوہدری صاحب والی پالیسی اختیار کرلی ۔ عدلیہ کو چچا زاد اور پارلیمنٹ کو پڑوسی ڈکلیئر کرکے میڈیا کو باہر سے آیا ہوا چور بنا دیا۔ عدلیہ سے کہا کہ آپ تو میرے اپنے ہیں جبکہ سیاستدان میرے پڑوسی کے مانند ہیں لیکن یہ میڈیا کہاں سے آکر مجھے آنکھیں دکھا رہا ہے ۔ چنانچہ 2014میں پہلے میڈیا کے ساتھ حساب برابر کیا۔ اسے تقسیم کیا ، ذلیل کیا اور اپنے قدموں میں لابٹھایا۔ اس دوران عدلیہ اورسیاستدان تماشہ دیکھتے رہے ۔ ان کا خیال تھا کہ ہم بچ گئے تو بھاڑ میں جائے میڈیا۔ میڈیا سے فارغ ہونے کے بعد چوہدری صاحب پارلیمنٹ کی طرف متوجہ ہوئے ۔ عدلیہ سے کہا کہ آپ تو میرے کزن ہیں لیکن یہ سیاستدان کیوں مجھے آنکھیں دکھا رہا ہے ۔ چنانچہ اب سیاست کا ستیاناس کیا جارہا ہے اور عدلیہ خوش ہورہی ہے کہ وہ تو بچ گئی۔ مجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر عدلیہ کی باری آئے گی اور وہ اسی طرح ہاتھ ملتی رہے گی جس طرح کہ پہلے دوسرے مل رہے ہیں۔
غور سے دیکھا جائے تو چوہدری صاحب باری باری کا یہی طریقہ خود سیاستدانوں سے متعلق بھی اپنا چکے ہیں ۔ پہلے پیپلز پارٹی کو باہر سے آیا ہوا چور قرار دے کر پی ٹی آئی کو کزن اور مسلم لیگ(ن) کو پڑوسی بنایا۔ کہا گیا کہ پی ٹی آئی توکزن اور مسلم لیگ(ن) تو پڑوسی ہے لیکن یہ پیپلز پارٹی باہر سے آکر کیوں خربوزے چوری کررہی ہے ۔ پیپلز پارٹی ٹھکانے لگ گئی تو مسلم لیگ(ن) سے کہا گیا کہ پی ٹی آئی کی حیثیت تو لاڈلے کزن کی سی ہے لیکن تم کس کھاتے میں آنکھیں دکھارہے ہو۔ آج پڑوسی یعنی مسلم لیگ (ن) کی پٹائی ہورہی ہے تو لاڈلا کزن چور جو خود بھی خربوزوں کی چوری میں پکڑا گیا ہے ، خوشی سے تالیاں بجارہا ہے بلکہ چوہدری کا ہاتھ بھی بٹا رہا ہے ۔ ادھر سے پڑوسی چور مارکھانے کے بعد سنبھلنے اور چوہدری کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ وہ کزن چور کے ساتھ مل کر کبھی چوہدری کو شاباش دے رہا ہے ، کبھی پڑوسی چور کی ٹانگ کھینچ کر گرا رہا ہے تاکہ چوہدری ان کی خوب پٹائی کرسکے ۔ اس وقت پڑوسی چور کی پٹائی کی باری ہے لیکن ان شاء اللہ عنقریب وہ دور آئے گا کہ جب پیپلز پارٹی سے کہا جائے گا کہ اس کی حیثیت تو لاڈلے کزن کی سی ہے ۔ وہ تو باغ سے چوری پر حق رکھتا ہے لیکن تم کس کھاتے میں باغ میں گھس آئے ہو ۔ پھر اس کی دوبارہ باری آئے گی اور اس کے بعد لاڈلے کزن کی باری ہوگی ۔ ان شاء اللہ پھر ان سب کے ساتھ وہی ہوگا جو جہانگیر ترین کے ساتھ ہوا ۔
غور سے دیکھا جائے تو گائوں کے چوہدری کی یہ پالیسی میڈیا سے متعلق بھی استعمال کی جارہی ہے ۔ پہلے میڈیا آرگنائزیشنز کو کزن، پڑوسی اور باہر سے آئے ہوئے خربوزہ چوروں میں تقسیم کیا گیا ۔ دو کو چھوڑ کر ایک کی پٹائی شروع کی گئی ۔ جب اس کی پٹائی ہورہی ہے تو دوسرے خوش ہیں ۔ کوئی سمجھ رہا ہے کہ وہ چوہدری کا پڑوسی ہے تو کوئی اپنے آپ کو کزن سمجھ رہا ہے ۔ لیکن وہ یہ بھول رہا ہے کہ جلدیابدیر پڑوسی بننے والے میڈیا آرگنائزیشن کی بھی باری آئے گی اور پھر کزن بننے والے کو بھی اسی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ باری باری کی یہی پالیسی عدلیہ سے متعلق بھی نظر آتی ہے لیکن اس کی تفصیل کو سمجھنے میں ابھی وقت لگے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ چوہدری اس باغ کا رکھوالا ہے اور کسی حد تک وہ اپنے آپ کو مالک بھی سمجھ رہا ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مہمان ، پڑوسی اور کزن کا دامن بھی صاف نہیں اور وہ باغ سے خربوزے بھی چوری کررہے ہیں ۔ کافی سبق ملنے اور بار بارمارکھانے کے باوجود ان تینوں میں سے کوئی بھی اپنی اصلاح کرنے اور خربوزے چوری کرنے سے باز نہیں آرہا ۔ طریقہ واردات مختلف ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں خربوزہ چوری میں ملوث ہے ۔
کسی کے پاس اخلاقی برتری ہے اور نہ چوہدری صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی اخلاقی جرات ۔ اسی لئے کبھی ایک اس کے غضب سے بچنے کے لئے چوہدری صاحب سے ساز باز کرلیتا ہے اور کبھی دوسرا ۔ نتیجتاً کبھی ایک مار کھاتا رہتا ہے اور کبھی دوسرا ۔ حالانکہ بچائو کا واحد راستہ یہ ہے کہ یا تو سب باغ سے خربوزے چوری کرنا چھوڑ کر اپنے آپ کو برتر اخلاقی پوزیشن میں لے آئیں یا پھر چوہدری کے ایما پر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا چھوڑ دیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی خربوزہ چوری سے باز آرہا ہے اور نہ اتفاق کرنے کو تیار ہے ۔ اس لئے جیت چوہدری صاحب کی نظر آرہی ہے لیکن چوہدری صاحب یہ بھول رہے ہیں کہ عالمی اور علاقائی سطح پر بھی کچھ چوہدری موجود ہیں اور ان کی بھی یہی پالیسی ہے ۔ اب چوہدری صاحب کو کون سمجھائے کہ اس عالمی اور علاقائی چوہدری کی سازشوں کا مقابلہ تبھی کیا جاسکتا ہے کہ جب ملک کے اندر خربوزہ چوروں اور چوہدری صاحب میں اتفاق اور محبت کا ماحول برقرار ہو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین