• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تالیوں کے شور سے ہال گونج رہا تھا جس سے مجھے احساس ہوا کہ دنیا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ سے کتنی متاثر ہے ساتھ ہی اس بات کی بھی خوشی تھی کہ اس بین الاقوامی کانفرنس میں اپنی بیس منٹ کی پریزنٹیشن کو کامیابی سے عالمی برادری کے سامنے پیش کرسکا جو انتہائی ضروری تھا کیونکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر شریک رہا تھا پھر دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار بھی پاکستان ہی ہوا اور جانی و مالی قربانیاں بھی پاکستان نے ہی دیں جس میں پچاسی ہزار سے زائد عام شہری و فوجی شہید ہوئے ۔جبکہ اس جنگ میں پاکستان کو سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ یہ بین الاقوامی کانفرنس اس لیے بھی بہت اہم تھی کیونکہ عالمی سطح پرچند دشمن ممالک کی جانب سے چلائی جانے والی ڈس انفارمیشن مہم کے باعث دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے تحاشہ قربانیاں دیئے جانے کے باوجود ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھاجارہا تھا لہٰذا عالمی فورم پر پاکستان کا حقیقی موقف اوراصل حقائق سامنے لانا بہت ضروری تھا۔ میں اپنی پریزنٹیشن مکمل کرنے کے بعد اپنی نشست پر آیاتو مجھے اندازہ ہوا کہ کچھ نظریں کافی دیر سے مجھ پر مرکوز ہیں ،میرے لیے یہ بات کافی اطمینان کا باعث تھی کہ جو نظریں مجھے اپنے حصار میں لیے ہوئے تھیں وہ پاکستان میں دہشت گردی کی سب سے زیادہ ذمہ دار ریاست کے ایک اہم عہدیدار کی تھیں جو یقیناََ آج کی اس پریزنٹیشن سے ناخوش تھے ۔ جی ہاں وہ نظریں اس بین الاقوامی کانفرنس میں شریک بھارتی میجر جنرل کی تھیں جو کافی دیر سے مجھے اپنے حصار میں لیے ہوئے تھیں ۔ میرے بعد ایک اور ملک کے نمائندے نے اپنی تقریر کی ابتدا میں ہی میری پریزنٹیشن کی تعریف کرکےاپنی بات شروع کی تو بھارتی میجر جنرل نے ایک بار پھر میری جانب دیکھا لیکن اس بار میں نے بھی گہری نظروں سے جواباََ محترم جنرل صاحب کو گھورا تو وہ ایک کھسیانی مسکراہٹ کا تبادلہ کرکے دوبارہ اسٹیج کی جانب متوجہ ہوگئے ، کچھ دیر بعد کانفرنس میں چائے کا وقفہ ہوا تو مذکورہ میجر جنرل صاحب خود ہی میرےپاس آئےاوربیٹھنے کی اجازت طلب کی ،میری اجازت کے بعد انہوں نے اپنا تعارف کرایا تو معلوم ہوا کہ موصوف جنگی حکمت علمی میں ڈاکٹریٹ بھی کرچکے ہیں ، بھارتی میجر جنرل صاحب نے میری پریزنٹیشن کی تعریف کی اور اگلے ہی لمحے پاکستان میں دہشت گردی سے پچاسی ہزار جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا آپ کو کیا لگتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی سے طالبان کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ اور کیا آپ کو نہیں لگتا کہ طالبان جیسے دہشت گردوں کے خلاف ہمیں مشترکہ حکمت عملی اپنانی چاہئے ؟ میرے لیے یہ بات انتہائی حیران کن تھی کہ جو دشمن طالبان کوپاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کررہا ہو وہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی پر بات کرے یہ کوئی چال تو ہوسکتی ہے لیکن حقیقت نہیں ، اس بات پر میں نے بھارتی میجر جنرل سے کہا کہ دراصل طالبان ریموٹ کنٹرول ہیں جن کو ہمارے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جبکہ ہم اس ریموٹ کنٹرول کو استعمال کرنے والے دشمن سے آگاہ ہیں اوردشمن کا ایک اہم مہرہ وہ گنجا سا شخص ہے جسے ہم نے بلوچستان سے گرفتار کیا ہے میں نے جان بوجھ کر کلبھوشن یادیو کا نام لینے سے گریز کیا تاکہ بھارتی میجر جنرل خود ہی اس کا نام لے سکے اور پھر چند سیکنڈ بعد اس کے منہ سے کلبھوشن کا نام نکل ہی گیا ۔ میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جی ہاں جب سے وہ ہماری گرفت میں آیا ہے پاکستان نے دہشت گردی کے بہت بڑے گروہ کا صفایا کردیا ہے جس سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بہت کمی ہوئی ہے اوراب پاکستانی فوج دہشت گردوں سے نمٹنے میں زیادہ تجربہ کار بھی ہوچکی ہے جو دشمن کی چالوں کو وقت سے پہلے ہی ناکام بنانے کی اہلیت رکھتی ہےجس کا پوری دنیا اعتراف بھی کررہی ہے اورپاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوشاں ہے ۔ بھارتی میجر جنرل نے پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن یادیو کا فعل ایک ذاتی فعل تھا اس میں بھارتی حکومت یا انٹیلی جنس کا کوئی ہاتھ نہیں ۔میں نے مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا جو اس کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں ۔ بھارتی میجر نے موضوع بدلتے ہوئے کہا کہ وہ بطور بریگیڈ کمانڈر مقبوضہ کشمیر میں تعینات رہا ہے جہاں ایک دفعہ بھارتی فوج نے مقابلے کے دوران ایک نوجوان کشمیری کو زخمی کیا تو میں بھی وہاں پہنچا دیکھا تو کشمیری نوجوان شدید زخمی حالت میں کچھ دیر کا ہی مہمان تھا ،اس نے پانی مانگا تو میں نے جوانوں سے پانی پلانے کا کہا زخمی نوجوان نے تھوڑا سا پانی پیا ،کلمہ پڑھا اور کشمیر بنے گا پاکستان کےالفاظ ادا کیے اور پھر مر گیا ۔ کیوں ان کی اتنی زیادہ برین واشنگ کی گئی ہے کہ ہر سہولت ہونے کے باوجود وہ موت کو ترجیح دے رہے ہیں بھارتی میجر مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ، میں نے ایک گہری سانس لی اور کہا کہ جنرل صاحب کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ مسئلہ ہے یہ کشمیریوں کی آزادی کا مسئلہ ہے جسے دنیا تسلیم کرتی ہے یہ وہ آزادی کی تحریک ہے جو قیام پاکستان اور قیام بھارت کے وقت سے ادھوری ہے ،جب تک یہ مسئلہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل نہیں ہوگا یہاں تحریک اسی طرح جاری رہے گی اور کشمیری نوجواں اپنی آزادی کے لیے شہید ہوتے رہیں گے لہٰذا بھارت کو اس بات کو جلد از جلد تسلیم کرلینا چاہیے اوراسے کشمیریوں کو ان کے پیدائشی حق آزادی کے لیے رائے شماری کرانا ہی پڑے گی جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی حمایت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا کیونکہ اس معاملے کا ایک اہم فریق پاکستان بھی ہے ۔بھارتی میجر جنرل میری کشمیر کے حوالے سے بات پر بالکل متفق نہیں لگ رہا تھا لیکن اس کے پاس کوئی ٹھوس دلائل نہیں تھے جس کے تحت وہ کشمیر پر میرے موقف سے مخالفت کرتا ۔ساتھ ہی میں نے بھارت میں جاری آسام اور ناگا لینڈ کی آزادی کی تحریکوں کا ذکر کرکے اسے مزید پریشان کردیا تھا لہٰذا اس نے اپنی دیگر مصروفیات کا بہانہ کرکے اجازت لی اور اپنے ماتحتوں کے ہمراہ روانہ ہوگیاجبکہ میں اپنی پریزنٹیشن اور اس پر تیس سے زائد ممالک کے رہنمائوں کا مثبت رد عمل اور پاکستان کے موقف کی تائید سے اندازہ لگا چکا تھا کہ بھارتی میجر جنرل آج اپنی رپورٹ میں کیا لکھنے والا ہے جس پر میں کافی مطمئن تھا اور ہاں آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے اپنا تعارف تو کرایا ہی نہیں؟ جی ہاں میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کیونکہ میں ہوں ۔۔R.A.H پاکستان کا نگہباں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین