• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی جسے سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میں یورپ بھر میں مردِ بیمار کے نام سےیاد کیا جاتا تھا غازی مصطفیٰ کمال اتاترک کی اپنی اور عوام کی قوتِ بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے لڑی جانے والے جنگِ نجات یا جنگِ استقلال کے نتیجے میں حاصل کردہ فتوحات اور اس کے بعد جدید جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد برپا کردہ انقلابات نے ترکوں کو خواب ِ خرگوش سے بیدار کرنے اور ترقی کی راہ ہموار کرنے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا تھا لیکن اتاترک کی وفات کے بعد ترکی جہاں تھا وہاں ہی کھڑا رہ گیا جبکہ دنیا کے کئی ممالک ترکی سے آگے نکل گئے۔ ترکی کو جمود کا شکار بنانے میں سیاستدانوں اور فوج دونوں ہی کا ہاتھ تھا۔ ملک میں چار بار لگائے جانے والے مارشل لا نے لوگوں کی آزادانہ سوچ و بچار کی قوت کو سلب کرلیا تھااورترکی بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کھوتے ہوئے تیسری دنیا کےگمنام ممالک کی صف میں شامل ہوچکا تھا جس کی اقوام متحدہ کے بانی رکن ممالک ہونے کے باوجود کوئی حیثیت نہ تھی ۔ سرد جنگ کے دنوں میں سرحدیں سوویت یونین سے ملنے کی وجہ سے ترکی کواپنے تحفظ کیلئے امریکی صف میں شامل ہونا پڑا اور اسے امریکی مقاصد کی تکمیل کے لیے نیٹو اور سینٹو کی رکنیت دے دی گئی لیکن جب ترکی کو اپنا دفاع کرنے اور مسئلہ قبرص سے متعلق یونان سے جنگ لڑنا پڑی تو امریکہ نے ترکی کو تنہا چھوڑ دیا اور اسلحہ فراہم کرنے پر بھی پابندی عائد کردی۔ اس کے بعد جب ترکی کو ستر کی دہائی میں دہشت گرد تنظیم ’’ پی کے کے‘‘ کا سامنا کرنا پڑا تو اس دہشت گرد تنظیم کی پشت پناہی کرنے والے اور نیٹو ہی کے رکن ممالک نے امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے ترکی کو اسلحے کی ترسیل روک دی اور اس دہشت گرد تنظیم سے مذاکرات کرنے پر مجبور کیا ۔اس دور میں بھی دہشت گردی سے برسر پیکار ملک ترکی کا مکمل ساتھ پاکستان ہی نے دیا اور کٹھن وقت میں اسے اسلحہ فراہم کیا ۔ ترکوں کی پاکستان سے گہری محبت کے پیچھے ان تمام حقائق نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔
ترکی کے اپنے دفاع کے لیے دوسرے ممالک کا محتاج ہونے اور وقت پڑنے پر اسلحہ فراہم نہ کیے جانےکے حقائق سے آگا ہ ہونے پر 2002 میں اقتدار حاصل کرنے والے ایردوان جنہوں نے فوری طور پر ملکی دفاع کی جانب بھر پور توجہ دی اور دفاعی صنعت کے شعبے کو دنیا کےگنے چنے ممالک کے معیار پر لاتے ہوئے اسے اپنے پائوں پر کھڑا کیا۔ ایردوان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی ملک بڑی تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوا اور زراعت، سیاحت، اقتصادیات، صنعت و حرفت، توانائی، دفاعی اور دیگر تمام ضروری شعبوں میں چند سالوں کے اندر بے مثال ترقی نے ترکی کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا۔ اپنی اقتصادی ترقی کی بدولت ترکی اس وقت دنیا کی سولہویں بڑی قوت بن چکا ہے اور 2023 میں دنیا کی دسویں بڑی اقتصادی قوت ابھر کر سامنے آنا چاہتا ہے۔ اگرچہ مغربی ممالک نے ترکی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور ان ممالک نے شام میں ترکی کی جانب سے شروع کردہ فوجی آپریشن کے دوران مشکلات پیدا کرنے کی حتی ا لامکان کوشش کی ہے تاکہ ترکی جو اس وقت ساڑھے سات فیصد کی شرح ترقی سے یورپی ممالک کو اپنے پیچھے چھوڑتا جا رہا ہے،اس کی ترقی کی رفتار کو محدود کیا جاسکے ۔سب سے پہلے امریکہ نے ترکی کا اتحادی ہونے کے باوجود شام میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کی اور ترکی کے مسلسل انتباہ کے باوجود امریکہ اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان تعاون جاری رہا ۔ ترکی نے آخر کار مجبور ہو کر ملکی سرحدوں کے تحفظ کی خاطر شام کے علاقے عفرین میں فوجی آپریشن ’’شاخِ زیتون‘‘ کرتے ہوئے کنٹرول حاصل کرلیا اور مزید پیش قدمی جاری ہے۔ ترکی کے اس فوجی آپریشن کو امریکی دبائوکے باوجود جاری رکھنے کا عندیہ دینے پر مغربی ممالک شش وپنج میں مبتلا ہوچکے ہیں اور خاص طور پر ترکی کی طرف سے امریکی حمایت یافتہ دہشت گردوں کیخلاف جلد ہی فوجی آپریشن کےاعلان کے بعد علاقے میں حالات بڑے سنگین ہوگئےہیں ۔ اسی دوران امریکی صدر ٹرمپ جلد ہی شام سے اپنے فوجیوں کا انخلاکا بھی کہہ چکے ہیںتاہم اب فرانس بھی جنگ میں کودتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ فرانس کے صدر ایما نوِل ماکروں نے ترکی اور دہشت گرد تنظیم وائی پی جی کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی جس پر ترک صدر ایردوان نے شدید ردِ ِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹھکرادیا تھا ۔صدر ایردوان نے فرانس کی جانب سے شام میںمزید فوجی بھیجنے کے بیان پر کہا کہ ایسے کسی بھی قدم کو ’’اعلانِ جنگ‘‘ تصورکیا جائے گا ۔ انہوں نے ترکی کے شہر ادانہ میں پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ادانہ کے عوام فرانسیسیوں کو پہلے ہی سبق سکھا چکے ہیں اور اب بھی سکھانے کے لیے تیار ہیں۔ اس سے پہلے یورپی یونین کے ممالک بھی ترکی سے شام میں فوجی کارروائی سے گریز کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں جس پر صدر ایردوان نے کہاتھا کہ ’’ ترکی شام کی خانہ جنگی سےسب سے زیادہ متاثر ہونےوالا ملک ہے اور ترکی ہی نے سب سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے۔ سامراجی قوتوں کا یہاں کیا کام ہے؟ وہ کتنے پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کررہے ہیں؟‘‘ صدر ایردوان نے اس موقع پر اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یا ہو کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا ’’ اسرائیل اور اسرائیلی فوج کس قدر ظالم ہیں اس سےپوری دنیا آگاہ ہے۔ اسرائیلی فوج مظلوم انسانوں کے سامنے تو بڑی بہادر دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت میں ڈر پوک اور خوفزدہ ٹولہ ہے جو ہمیشہ موت کے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے جس نے فلسطین کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے۔ نیتن یا ہو کو ترک فوجیوں کے بارے میں بیان دینے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہےکیونکہ ان کے ہاتھ معصوم انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ میں نیتن یا ہو کو ایک مفلس اور نادار شخص ہی سمجھتا ہوں اور اس ظالم انسان کو صرف اتنا کہوں گا کہ اب تم خود ہی اپنے آپ کو ٹھیک کرلو اور اپنے ایٹم بم کے زعم میں مبتلا نہ رہو کیونکہ ہوسکتا ہے یہ چلنے سے پہلے ہی ٹھس ہو جائے۔ نیتن یا ہو اگر تم اپنی اصلیت جاننا چاہتے ہو تو اقوام متحدہ میں ہونے والی رائے شماری پر ایک نگاہ ڈال لو۔جہاں امریکہ کے علاوہ کسی نے بھی تمہارا ساتھ نہ دیاپوری دنیا اسرائیل سے نفرت کرتی ہے۔ اس لیے ترک فوجیوں کے بارے میں بیان دینے سے قبل خود کو ٹھیک کرو‘‘۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین