• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 
مردِ آہن اور بالادستی کی جنگ

مارچ کا مہینہ عالمی سیاست میں اس اعتبار سے اہم تھا کہ اس میں دو بڑی طاقتوں، رُوس اور چین کے صدور کو اپنے اقتدار کو طول دینے کی سند مل گئی۔ 18مارچ کو وِلادی میر پیوٹن توقّع کے عین مطابق بھاری اکثریت سے مسلسل دوسری بار رُوس کے صدر منتخب ہوگئے۔ صدارتی انتخابات میں انہیں تقریباً 75فی صد ووٹ ملے، جس سے اُن کی غیر معمولی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 

پیوٹن گزشتہ 20برس سے رُوس کے مطلق العنان حُکم ران ہیں اور اب مزید6برس تک بر سرِ اقتدار رہیں گے۔ دوسری جانب چینی صدر، شی جِن پِنگ کو تا حیات صدر رہنے کا اختیار مل گیا اور وہ مائو زے تُنگ کے بعد یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے چینی رہنما ہیں۔ شی 2012ء میں پہلی مرتبہ مُلک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ چین اور رُوس دونوں ہی برِ اعظم ایشیا میں واقع ہیں اور انہیں امریکا کی مخالف یا مقابل قوّتیں تصوّر کیا جاتا ہے۔ نیز، دونوں ہی کمیونزم اورسوشلزم کے وارث، ایٹمی طاقت اور دُنیا کی بڑی فوجی طاقت ہیں۔ اس کے علاوہ چین دُنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوّت ہے، جب کہ رُوس ایک اُبھرتی ہوئی معیشت، جس کے پاس تیل و گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ 

اس وقت یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور دونوں کی سرحدیں بھی آپس میں ملتی ہیں۔ یہ تمام عوامل یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آخر پیوٹن اور شی کی حُکم رانی کا تسلسل دُنیا کے لیے کن اثرات کا حامل ہو گا؟

شی جِن پِنگ، چین کے انقلابی رہنما تصوّر کیے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے اعلان کیا تھا کہ چین دُنیا کے مرکزی اسٹیج پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور غالباً کمیونسٹ پارٹی نے اس منزل تک پہنچنے کے لیے انہیں تاحیات صدر بنایا۔ چینی صدر ایک واضح ویژن رکھتے ہیں اور چین کو عالمی طاقت بنانا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے سرمایہ دارانہ اور نو آبادیاتی نظام کے خلاف نعرے بازی کی بہ جائے چینی عوام کی خوش حالی کے لیے ایک لچک دار اور اقوامِ عالم کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کی پالیسی اپنائی۔ 

گرچہ چینی فوج دُنیا کی سب سے بڑی فوج ہے، لیکن اس کے باوجود بیجنگ نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا اور آج پوری دُنیا ہی اس بات کا اعتراف کرتی ہے۔ چین نے اپنی سفارت کاری اور اقتصادی استحکام کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ ڈنگ ژیائو پھنگ نے اپنی حقیقت پسندانہ پالیسی کے ذریعے چین کے عالمی طاقت بننے کی راہ متعیّن کی اور پھر شی جِن پِنگ نے ’’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘‘ جیسا عالم گیر منصوبہ شروع کیا، جو امریکا کے لیے بھی چیلنج بن چُکا ہے۔

شی ایک ٹھنڈے مزاج کے حامل لیڈر ہیں، جن کی شخصیت میں اُن کی سحر انگیز مسکراہٹ سب سے نمایاں ہے۔ انہوں نے بڑے تدبّر سے اپنے قریب ترین حریف، جاپان سے دوسری بڑی اقتصادی قوّت کی پوزیشن چھینی۔ تاہم، اس وقت اُن کے لیے اصل چیلنج امریکا یا عالمی طاقتیں نہیں، بلکہ چین کی برتری کو قائم رکھنا ہے۔ اپنے پیش روئوں کی طرح موجودہ چینی صدر بھی تاریخ کا یہ سبق ازبر کر چُکے ہیں کہ جنگیں اور تنازعات اقوام کو کم زور کرنے کا سب سے بڑا سبب بنتی ہیں اور دونوں عالم گیر جنگیں اس کی واضح مثال ہیں کہ فاتح ممالک بھی بالآخر بکھر گئے۔ 

یعنی دشمن کے خلاف میدانِ جنگ میں جیت ، عوام کے مسائل کے سامنے شکست کھا گئی۔ گرچہ دُنیا چین اور امریکا کو ایک دوسرے کا دشمن سمجھتی ہے، لیکن صدر شی امریکا سے ہر حال میں روابط برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اس وقت یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں امریکی صدر، ٹرمپ کی جانب سے چین پر 50ارب ڈالرز ٹیکس لگانے کے عندیے کے باوجود چین نے شدید ردِ عمل ظاہر نہیں کیا اور اس مسئلے کو مفاہمت کے ذریعے حل کرنے پر مُصرر ہے اور اس سے چین کی ساکھ مزید بہتر ہوئی ۔ 

گرچہ بحرالکاہل اور جنوبی چینی سمندر میں امریکا کو برتری حاصل ہے، لیکن چینی صدر یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکا کے 7بحری بیڑے ان عالمی تجارتی گزر گاہوں کو کُھلا رکھنے میں بھی بہت معاون ثابت ہو رہے ہیں اور انہیں چھیڑنے سے ایک ایسا خلا پیدا ہونے کا خدشہ ہے، جو عالمی تجارت کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ 

نیز، انہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ چین کی غیر معمولی فوجی پیش رفت کے نتیجے میں جاپان، جس کی قیادت شینزو ایبے جیسے قوم پرست لیڈر کے پاس ہے، ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کر سکتا ہے اور اس ضمن میں ٹوکیو کوواشنگٹن اور نئی دِلی کی معاونت بھی حاصل ہو گی۔ ہر چند کہ چین نے ایشیا میں اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے، لیکن مستقبل میں اسے بحرِ ہند میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 

جنوبی ایشیا میں پاکستان، چین کا قریب ترین حلیف ہے، لیکن اسے خود داخلی و خارجی چیلنجز کا سامنا ہے۔ چینی صدر نہیں چاہتے کہ بھارت، ایشیا میں اس کے مقابل آئے اور وہ اسے اپنا ہم نوا بنانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں بِرکس اور شنگھائی تعاون تنظیم کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جہاں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے پارٹنر ہیں اور پھر بیجنگ نے کابل میں نئی دِلی کے کردار کی کبھی کُھل کر مخالفت نہیں کی اور نہ ہی عالمی فورمز پر مسئلہ کشمیر پر کوئی گرم جوشی دِکھائی۔ 

علاوہ ازیں، ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں بیجنگ کا محتاط رویّہ بھی اسلام آباد کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔ دوسری جانب شی جِن پِنگ کوتا حیات صدررہنے کی اجازت دے کر چین کی لیڈر شپ نے دُنیا کو یہ باور کروادیا ہے کہ اُسے اپنے سیاسی نظام پر مکمل اعتماد ہے اور اُس کا مغربی جمہوریت سے کوئی لینا دینا نہیں۔

اگر رُوس کے صدارتی انتخابات میں صدر پیوٹن کی جیت کو اُن کا بِلا مقابلہ منتخب ہونا قرار دیا جائے، تو شاید اس سے اختلاف ممکن نہ ہو۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ پیوٹن کے بیش تر مقابل امیدواروں کو انتخابات سے پہلے ہی نا اہل قرار دیا جا چُکا تھا اور باقی امیدواروں نے صرف رسمی کارروائی کے لیے الیکشن میں حصّہ لیا۔ پیوٹن مسلسل 20برس تک برسرِ اقتدار رہنے کی وجہ سے رُوسی عوام کے لیے ایک’’ آئیڈیل لیڈر‘‘ کی حیثیت اختیار کر چُکے ہیں۔ وہ آیندہ 6سال تک مزید حکومت کریں گے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا وہ بھی عُہدۂ صدارت پر تاحیات فائز رہنے کے لیے رُوسی آئین میں ترمیم کریں گے؟ یہ سوال اس لیے بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ اس وقت مُلک میں کوئی اپوزیشن لیڈر موجود نہیں اور نہ ہی پیوٹن نے ابھی تک اپنا کوئی جانشین سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ 

ناقدین کا ماننا ہے کہ کسی ایک فرد کی مسلسل 25،30برس تک حُکم رانی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کو بھی یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید اُن کے لیڈر کا کوئی متبادل ہی نہیں ہے۔ یہ اندازِ حُکم رانی بھی بادشاہت سے مماثلت رکھتا ہے، لیکن انتخابات کی وجہ سے اسے قانونی جواز مل جاتا ہے اور ویسے بھی اس وقت دُنیا کو طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے رہنمائوں کی ضرورت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج سے20برس قبل جب پیوٹن نے رُوس کا اقتدار سنبھالا تھا، تو تب یہ مُلک بدحالی اور عوام مایوسی کا شکار تھے۔ 

انہوں نے نہ صرف اقتصادی میدان میں کئی اہم کام یابیاں حاصل کیں، بلکہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ سے فائدہ اُٹھا کر کریمیا اور شام سمیت دیگر علاقوں میں فتوحات بھی حاصل کیں، جس کے نتیجے میں وہ ’’مردِ آہن‘‘ کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے۔اپنے چینی ہم منصب کی طرح پیوٹن بھی ایک قوم پرست لیڈر ہیں اور سوویت یونین کی بحالی اُن کا مِشن ہے اور اس مقصد کے لیے وہ اپنی فوجی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ رُوس صدیوں سے دُنیا کی ایک بڑی طاقت رہا ہے۔ 

پیٹر دی گریٹ کے زمانے میں رُوس نے خلافتِ عثمانیہ کو فیصلہ کُن شکست دے کر اس کے بیش تر وسطی ایشیائی صوبوں پر قبضہ کر لیا اور پھر یہاں مقیم مسلمانوں کو اپنا مذہب اور شناخت تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ پیوٹن کی نظر میں وہ تمام ممالک رُوس کے دشمن ہیں، جنہوں نے سوویت یونین کے انتشار میں حصّہ لیا اور ان میں وسطی ایشیا کی اسلامی ریاستیں سرِ فہرست ہیں۔ گو آج ’’سوویت ریچھ‘‘ کے پنجے کُندہوچُکے ہیں، لیکن ہمیں اس کی توسیع پسندی پر مبنی تاریخ کو مدِ نظر رکھنا چاہیے ۔

رُوسی صدر یہ بات اچّھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت امریکا، چین اور یورپ، رُوس کو ایک عالمی طاقت کے طور پر قبول نہیں کریں گے، لیکن یورپ ہی ان کی اصل قوّت ہے اور اسی لیے انہوں نے کریمیا پر قبضہ کیا۔ تاہم، اس کے نتیجے میں مغرب کی جانب سے عاید کی گئی پابندیوں نے رُوس کی معیشت کو بے حال کر کے رکھ دیا۔ اس وقت پیوٹن نے یورپ کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اپنا رکھی ہے، کیوں کہ یورپی ممالک رُوسی گیس کے سب سے بڑا خریدار ہیں۔

ناقدین کے مطابق، پیوٹن کی خواہش ہے کہ یورپ بھی سوویت یونین کی طرح بکھر جائے اور اسی لیے اُن پر یورپ کی قوم پرست تحاریک کی سرپرستی کی کا الزام عاید کیا جاتا ہے، لیکن قوم پرستوں کو ’’بریگزٹ‘‘ کے باوجود کوئی خاطر خواہ کام یابی نہیں مل سکی۔ یہاں دِل چسپ بات یہ ہے کہ رُوسی صدر، پیوٹن جرمن زبان بولتے ہیں اور جرمن چانسلر، اینگلا مِرکل رُوسی زبان اور ان دونوں میں ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے، لیکن مِرکل یہ بھی جانتی ہیں کہ جرمن قوم کبھی بھی رُوس کی بالادستی قبول نہیں کرے گی۔ 

یہی وجہ ہے کہ جرمنی نے ’’بریگزٹ‘‘ کے بعد فرانس سے قُربت اختیار کی۔ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد امریکا اور یورپ کے درمیان پیدا ہونے والی مخاصمت نے رُوس کو فائدہ اُٹھانے کا ایک موقع فراہم کیا تھا، لیکن یورپی رہنما جلد ہی یہ جان گئے کہ امریکا کو چیلنج کرنے سے پورے مغربی نظام کا دھڑن تختہ ہو سکتا ہے اور اب اسی لیے مفاہمت کی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں اور اس سلسلے میں برطانیہ میں کیمیائی حملے کے خلاف امریکا اور یورپ کے مشترکہ اقدامات کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ 

واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل ہی برطانیہ نے رُوس پر یہ الزام عاید کیا تھا کہ برطانوی شہر، سیلسبری میں موجود سابق رُوسی ڈبل ایجنٹ اور اُس کی بیٹی کو نرو گیس جیسے کیمیائی ہتھیار کی مدد سے ہلاک کیا گیا۔ یہ الزام عاید کرنے کے بعد برطانیہ نے 23، امریکا نے 60اور یورپی ممالک نے درجنوں رُوسی سفارت کاروں کو مُلک بدر کر دیا اور اس واقعے پر احتجاج کرتے ہوئے رُوس نے اسے ’’سرد جنگ کا احیا‘‘ قرار دیا۔

امریکا اور یورپ کے برعکس مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور شامی صدر، بشار الاسد کے رُوس سے دوستانہ تعلقات ہیں اور ایران و رُوس شامی حکومت کی معاونت بھی کر رہے ہیں، لیکن یہاں ایک مشکل یہ آن پڑی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا نے دوبارہ قدم جما لیے ہیں اور وہ سعودی عرب کی پُشت پناہی کر رہا ہے۔ امریکا نے ایران کو نہ صرف دہشت گردی کا مرتکب قرار دیا ہے، بلکہ علاقے میں پائے جانے والے انتشار کا ذمّے دار بھی ٹھہرایا ہے۔ 

پھر ایک مشکل یہ بھی ہے کہ رُوس کے اسرائیل سے بہت اچّھے تعلقات ہیں اور وہ مشرقِ وسطیٰ میں نہ عربوں کو ناراض کرسکتا ہے، نہ ایران کو اور نہ ہی اسرائیل کو۔ اب پیوٹن کے لیے شام کی دلدل سے نکلنا، ایک بڑی آزمائش بنتی جا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اگر وہ فوری طور پر یہ مسئلہ حل نہ کروا سکے، تو اگلے کئی برس تک اسی خطّے میں اُلجھے رہیں گے، جہاں امریکا کو برتری حاصل ہے۔

رُوس اور چین کے قوم پرست حُکم رانوں کی بین الاقومی سطح پر کام یابیوں نے امریکی عوام میں بھی اسی قسم کی سخت گیر اور قوم پرست قیادت کی خواہش کو بیدار کیا، جو گزشتہ برس ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں وائٹ ہائوس میں نمودار ہوئی ۔ امریکی عوام نے ٹرمپ کو صدر منتخب کر کے دُنیا کو یہ واضح پیغام دیا کہ جمہوری نظام میں بھی ایک قوم پرست لیڈر کی گنجائش موجود ہے۔ 

امریکی عوام نے ٹرمپ کے ’’امریکا فرسٹ‘‘ کےسلوگن کو ووٹ دے کر دُنیا کو یہ بھی بتادیا کہ وہ امریکا کو سُپر پاور کے رُوپ ہی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ گرچہ تجزیہ نگاروں، ناقدین اور عالمی اُمور کے ماہرین نے ٹرمپ کو ایک غیر متوازن شخص ثابت کرنے کی کوشش کی، لیکن امریکی عوام اب بھی اُن کے ساتھ کھڑے ہیں اور ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے ہی سال میں مُلکی معیشت مضبوط کر کے انہیں مطمئن کر دیا، جب کہ خارجہ پالیسی کے اعتبار سے انتہائی جارحانہ الفاظ استعمال کر کے شمالی کوریا کو مذاکرات پر مجبور کرنا، ایران کی نیوکلیئر ڈِیل کو بے اثر کرنا اور مشرقِ وسطیٰ میں واپسی کو ان کی کام یابی تصوّر کیا جا رہا ہے۔ 

چُوں کہ چینی و رُوسی صدور اس بات کو بہ خوبی سمجھتے ہیں کہ اُن کے امریکی ہم منصب امریکا کی بالادستی کے حوالے سےکسی قسم کی لچک دِکھانے پر آمادہ نہیں، لہٰذا ان تینوں رہنمائوں میں ایک دوسرے کے لیے ایک خاص قسم کا احترام اور ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو چُکی ہے، کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا، تو شمالی کوریا مذاکرات پر کیوں کر آمادہ ہوتا اور یورپ، امریکا کی تعریف کرتا۔ پاکستان جیسے ممالک کو بھی اس تبدیلی کا ادراک کرنا چاہیے اور صرف تجزیہ کاروں پر انحصار کرنے کی بہ جائے ٹھوس زمینی حقائق اور اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہیے۔حیرت ہے، آج چین، ٹرمپ کا والہانہ استقبال کر رہا ہے اور ہم امریکی صدر کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔

تازہ ترین