• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کور ٹ کراچی رجسٹری کےبیس سال قبل اسماء نواب قتل کیس کے ملزمان کو بری کرنے کے حالیہ فیصلے سے یہ ضرورت ایک بار پھر اجاگر ہوئی ہے کہ پولیس کے تفتیشی نظام کوبہتر بنایا جائے ۔تفتیش کاروں کو تفتیش کے جدید طریقوں سے متعارف کرنے کیلئے وقفے وقفے سےتربیت کی جاتی رہے اور مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں۔ عدالتی فیصلے میں اس پہلو پر زور دیتے ہوئے بجا کہا گیا کہ پولیس اپنے روایتی طریقہ کار سے جرم کا ارتکاب کر نےوالوں تک پہنچ تو جاتی ہے لیکن اپنی تفتیشی خامیوں کے باعث عدالت میں ثابت نہیں کرپاتی یہی وجہ ہے کہ عدالتیں ملزمان کو رہا کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ تہرے قتل میں ملوث ملزمہ و دیگر کی سزائے موت کیخلاف سپریم کورٹ نے ماتحت عدالت اور سندھ ہائیکورٹ کے فیصلےکو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ملزمان کیخلاف براہ راست کوئی ثبوت نہیںاور شواہد میں جھول اور خامیاں ہیں۔ دوسری جانب اسی تفتیشی نظام کے ذریعےبارہا ایسی گواہیاں اور ثبوت پیدا کرنے کے شواہد سامنے آتے رہے ہیں جن سے بے گناہوں کو سزائیں دلوانے کا تاثر نمایاں ہوتا ہے۔یہی نہیں بلکہ مقدمات کو عدالتوں میں پیش کرنے کے حوالے سے بھی خاصاکام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بسا اوقات با اثر افراد یا سیاسی پارٹیوں کے دبائو کے باعث پولیس کا متعلقہ شعبہ کورٹ کے سامنے کیس کو درست خطوط پر پیش کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ محکمہ پولیس میں رشوت ستانی کی عام شکایات کو بھی نظر اندا زکرنا ممکن نہیں جن سے تفتیش کا رخ موڑے جانے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔مذکورہ پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے روایتی تفتیشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔تفتیش اور استغاثہ دونوں شعبوںکیلئے ریفریشر کورسز کا بندوبست ہونا چاہئے اس سے دنیا بھر کے نظاموں میں ہونے والی نئی تحقیق کی بابت آگہی ملے گی۔اسی طرح کیس کو قصداََ غلط رخ پر موڑنے کا باب بند کیا جانا چاہئےتاکہ مجرم سزا سے بچ نہ سکے اور بے گناہ کو سزا نہ ہو۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین