• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لیکن ہمارا پاکستان تو خاموش ہے

گزشتہ روز سوشل میڈیا کے ذریعے مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک دکھی ماں کا سسکیوں بھراآڈیو پیغام سننے کو ملا۔ پیغام ریکارڈ کراتے وقت اس ماں کا رونا رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا لیکن اس کے اس پیغام میں ایک گلہ تھا تو ایک امید بھی تھی۔ یہ گلہ اور یہ امید دونوں پاکستان سے متعلق تھے اور یہ پیغام بھی پاکستان ہی کے لیے تھا۔ روتے روتے درد بھری آواز میں مقبوضہ کشمیر کی یہ ماںکہنے لگی کہ پاکستان میں بسنے والوں کو یہ کہہ دیجیے کہ پورا مقبوضہ کشمیر لہو لہان ہے، یہاں اس وقت بھی جہاں ایک طرف لوگ لاشیں گن رہے ہیں وہیں پاکستان کے ترانے بج رہے ہیں، مسجدوں کے لائوڈا سپیکر سے پاکستان زندہ باد کے نعرہ لگائے جا رہے ہیں، اس لیے کم از کم اُن (پاکستان اور پاکستانیوں) سے کہہ دیجیے کہ کچھ نہیں تو پاکستان میں یوم سیاہ کا اعلان ہی کر دیں، صرف ایک دن کا یوم سیاہ، اپنے کشمیری مسلمانوں کے لیے، مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر صرف ایک دن کا یوم سیاہ منا لیں، کب تک مریں گے لوگ یہاں، اس لیے آپ یہ پیغام پہنچا دیں جہاں جہاں تک پہنچا سکتے ہیں، اور انہیں (پاکستانیوں کو) کہہ دیجیے کہ کشمیر کے لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، آپ کو پتا ہے کہ یہاں (مقبوضہ کشمیر میں) کون سے ترانے گونج رہے ہیں، اس پرچم (پاکستانی پرچم) کے سائے تلے اب آنا ہے اور اپنے پاکستان کو بچانا ہے ......لیکن ہمارا پاکستان تو خاموش ہے۔جس درد اور دکھ کے ساتھ اس کشمیری ماں نے پاکستان کے لیے یہ آڈیو پیغام بھیجا ہے اُسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دہائیاں گزر گئیں لیکن کشمیر پر بھارتی مظالم نہ رکنے کا نام لے رہے ہیں اور نہ ہی ان کشمیریوں کو بھارتی تسلط سے آزادی نصیب ہو رہی ہے۔ بلکہ ظلم ہے کہ روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ کشمیریوں پر ان مظالم کے خلاف اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی نہ رکنے والی ریاستی دہشتگردی کے جواب میں پاکستان میں روایتی طور پر مذمتی بیان جاری کر دیے جاتے ہیں اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ چند روز قبل بیس کے قریب کشمیری نوجوانوں کی شہادت کے نتیجے میں پاکستان میں ماضی کی طرح ایک بار پھر مذمتی بیانوں کی روایت کو دہرایا جا رہا ہے۔ آئندہ جمعہ کے دن کو کشمیریوں کے ساتھ یوم یکجہتی کے طور پر منانے کا بھی اعلان کر دیاگیا ہے۔ یہ یوم یکجہتی کیسے منایا جائے گا اس کی کوئی تفصیل ہمیں معلوم نہیں۔ کیا ہمارے ملک کے تمام سیاسی رہنما ایک پلیٹ فارم پر مل کر کشمیریوں کے حقوق کے لیے ملین مارچ کر سکتے ہیں؟ کیا پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت، وزارت خارجہ اور خارجہ امور کے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ کر پاکستان کے روایتی ردعمل سے بڑھ کر کشمیرکے مسئلہ کے حل کے لیے کوئی حکمت عملی بنا سکتے جس سے دہائیوں کی غم بھری اس کہانی کا خاتمہ ہو سکے؟ صرف یوم سیاہ یا یوم یکجہتی کشمیر منانے سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ پاکستان اگر تنہا اس مسئلہ پر بات کرے گا تو اس کی بات بھی سنی ان سنی کی جاتی رہے گی۔ اقوام متحدہ تو امریکا کو لونڈی ہے اور امریکا کو بھارت اپنے مفاد کے لیے انتہائی عزیر ہے اس لیے بھول جائیں کہ امریکا اور اقوام متحدہ کشمیر کے لیے کچھ کریں گے۔ پاکستان کو پاکستان کے طور پر نہیں بلکہ اسلامی امہ کا اہم رکن کے طور پر کشمیر سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے حکمت عملی طے کرنی ہو گی۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو پھر بھول جائیں کہ پاکستان کی کوئی سنے گا یا اقوام متحدہ کی کشمیر کے متعلق قراردادوں پر کبھی عمل ہو گا۔ ایک اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے کشمیر، فلسطین سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے دکھ اور درد کا مداوا کرنے کے لیے پاکستان کو مسلم امہ کے ضمیر کو جھنجوڑنا ہو گا۔ ایک طرف کشمیر میں بھارتی مظالم رکنے کا نام نہیں لیتے تو دوسری طرف اسرائیل بلا روک ٹوک بے شرمی اور ڈھٹائی سے فلسطینیوں کے قتل عام میں آگے سے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں پر یہ ظلم صرف کشمیر یا فلسطین تک محدود نہیں بلکہ اسے ہر طرف پھیلایا جا رہا ہے۔ عراق، افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرنے کے بعد بھی ابھی اسلام دشمنی کی آگ نہیں بجھ رہی۔ چند روز قبل ہی افغانستان کے علاقہ قندوز میں ایک مدرسے پر امریکی و نیٹو افواج کی طرف سے میزائل حملہ کر کے ایک سو سے زیادہ معصوم بچوں کو شہید کر دیا گیا جن کی تصویریں سوشل میڈیا میں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس ظلم کے خلاف تو روایتی مذمتی بیان بھی پڑھنے کو نہیں ملے۔پاکستان کے ذمہ دار خود جانتے ہیں کہ یہاں کیسے دہشتگردی کو ہوا دی گئی، کیسے پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں، کون کون پاکستان کو کمزور کرنے کا کھیل کھیل رہا ہے۔ یہی کھیل سعودی عرب کے خلاف کھیلے جا رہے ہیں، اسی طرح لیبیا، شام، عراق، یمن میں آگ و خون کے دریا بہائے گئے، برما میں روہنگیا مسلمانوںکو چن چن کر مارا جا رہا ہے، اُن کے گھروں کو آگ لگائی جا رہی ہے، خواتین کی بیحرمتی کی جا رہی ہے ، یورپ اور امریکا میں مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑایا جا رہا ہے اور یہ سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ ہم مسلمان امہ کی بجائے وطنیت کی بنیاد پر اپنی اپنی قوم پرستی کو پوجتے رہیں ۔ مسلمانوں پر دنیا بھر میں ہونے والے مظالم کو روکنا ہے تو ہمیں مسلمان بن کر سوچنا ہو گا اور اس میں پاکستان کو پہل کرنی چاہیے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور وٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین