• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ورلڈکپ ٹونٹی ٹونٹی میں پاکستان اور انڈیا کے مابین میچ سے ایک یا دو روز قبل کرکٹر یونس خان کا ٹی وی پر تبصرہ سننے کا اتفاق ہواجو میرے لیے تو ناقابل یقین اور انتہائی حیران کن تھا۔ یونس خان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اُن کی بات پاکستانیوں کو اچھی نہ لگے مگر اُن کے خیال میں انڈیا کا اس اسٹیج پر ٹورمنٹ سے باہر ہونا کرکٹ کے لیے بہتر نہیں ہو گا۔ یونس خان جو ابھی تک پاکستان کی ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ ٹیم کا حصہ ہیں، کا فرمانا تھا کہ انڈیا جب تک ٹورمنٹ میں رہے گا، اسپونسرز بھی اس ٹورمنٹ میں دلچسبی لیں گے۔ میں کوئی کرکٹ کا ماہر نہیں مگر میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمارے پروفیشنل کرکٹرز کو اپنے کھیل پر یا کرکٹ کے اسپونسرز میں دلچسپی لینی چاہیے؟؟؟ ہو سکتا ہے یہی بات ہمارے دوسرے کھلاڑیوں کے ذہن میں بھی ہو اور اگر ایسا ہے تو پھر کھیل تو کھیل نہ رہا اور محض کاروبار بن گیا۔یونس خان ہویا شاہد آفریدی یا کوئی دوسرا کھلاڑی، کھیلنے والا اگر کھیلتے وقت یہ سوچے گا کہ کسی ٹیم کے ٹورنامنٹ سے نکلنے کی وجہ سے اُس کھیل کے اسپونسرز دلچسبی چھوڑ دیں گے تو پھر کھیل، کھیل ہی نہیں رہتا۔ جب ٹی وی پربیٹھ کر ایسی باتیں کی جائیں گی تو پھر بیچارے کھلاڑی بھی کنفیوژ کیسے نہ ہوں؟؟؟ میری یونس خان کے بارے میں اچھی رائے رہی مگر جو چھکا انہوں نے اپنے ٹی وی تبصرہ کے ذریعہ مارا اُس نے مجھے بہت مایوس کیا۔یونس خان کا چھکا تو اپنی جگہ مگر بحیثیت قوم ہمارا المیہ دیکھیں کہ وہ کھلاڑی جنہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کیا ، برطانیہ میں جیل کاٹی اور سزا یافتہ ہو کر واپس لوٹے، نجی ٹی وی چینلز پر بیٹھ کرکرکٹ پر تبصرے فرما رہے ہیں اور اپنے ”نیک“ مشورہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو دے رہے ہیں کہ اُس کو کیسے کھیلنا چاہیے ۔ مجھے اگر ایک طرف ان سزا یافتہ کھلاڑیوں کی ”ہمت“ پر حیرانگی ہے کہ وہ کس طرح پاکستان کی عزّت اور عوام کی امیدوں کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف اُن ٹی وی چینلز کی ”جرأت“ کو بھی سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے کہ کس محنت سے وہ قوم کے ”رول ماڈلز“ کو چن چن کر قوم کی ”ہدایت و رہنمائی “کے لیے سامنے لا رہے ہیں ۔ بیچارے پاکستانی تو اپنے کھلاڑیوں پر جان چھڑکتے ہیں اور اس قدر معصوم ہیں کہ کھیل کے ذریعے انڈیا کو شکست دینا چاہتے ہیں اور کھیل ہی کھیل میں دنیا کو بھی تسخیر کرنا چاہتے ہیں۔ خوابوں میں رہنے والی ہماری قوم حقیقی زندگی میں کرپشن، بدعنوانی، جہالت، بے ایمانی، چوری چکاری، دوسروں کے حقوق پر مارو ماری، ملاوٹ، فرقہ بندی، لسانیت اور دوسری کئی سماجی اور معاشرتی بیماریوں کا شکار ہے مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں تا کہ ہم اپنے حالات درست کر کے صحیح سمت کا تعیّن کرسکیں ۔ ٹھیک ہے کھیل کے ذریعے ہمیں وقتی خوشی حاصل ہوتی ہے اور اللہ کرے ہماری کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ جیت کر لوٹے مگر ہماری اصل جیت تعلیم و تربیت کے فروغ، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں محنت اور ترقی، اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد، لسانیت اور فرقہ واریت کے خاتمہ، شفاف حکمرانی، کرپشن کے خاتمے اور ایمانداری کے سا تھ ہر فرد کو اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی سے ہو گا۔ کھیل کی جیت سے ہم انڈیا اور مغرب کی ترقی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اگر کھیل سے کوئی دنیا کو فتح کر سکتا توبرازیل اور ارجنٹینا دنیا کے مقبول ترین کھیل فٹبال کے چیمپیئن ہونے کی وجہ سے امریکا کی جگہ لے چکے ہوتے۔ اگر ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو کھیل کے ساتھ ساتھ ہر میدان میں اپنے آپ کو مقابلے کے لیے تیار کرنا ہو گا جس کے لیے اپنے آپ کو تبدیل کرنا شرط ہے۔ ہم میں سے کتنے اس کے لیے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں؟؟؟ یہ وہ سوال ہے جو ہم میں سے ہر فرد کو اپنے آپ سے پوچھنا ہے۔ اب جو یونس خان کے چھکے اور حقیقی تبدیلی کی بات ہو رہی ہے تو مختصراً پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرپرسن بلاول زرداری بھٹو کے چھکے پر بھی بات ہو جائے۔ توقع تو یہ تھی کہ آکسفوڈ کا گریجویٹ آئین اور قانون کی بات کرے گا مگر بلاول نے بھی جیالے پن کا اظہار کیا۔ واشنگٹن میں اپنے خطاب میں جناب نے دہری شہریت کے حامل افراد کی پالیمنٹ کے لیے انتخاب کی حمایت کی اور اس کے برعکس سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہدف تنقید کا نشانہ بنایا۔ کوئی عام شخص ایسی بات کرتا تو اس سے درگزر کیا جا سکتا تھا مگر تعجب ہے کہ بلاول ہو اور آئین اور قانون سے اس قدر نابلد۔ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے بنائے گئے آئین کو پڑھا ہوتا توبلاول ایسی بات نہیں کر سکتا تھا۔ اگر اصل حقائق کو جانتے بو جھتے پی پی پی چئیرپرسن نے یہ بات کی ہے تو پھر یہ نہایت قابل افسوس ہے۔ کہیں بلاول بھی توکھیل ہی کھیل میں پاکستان کی ترقی کے خواہاں تو نہیں!!! اور کون نہیں جانتا کہ ہمارے سیاستدان سیاست کو کھیل سمجھتے ہیں۔
تازہ ترین