• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنیادی انسانی حُقوق کا فلسفہ اور اسلامی تعلیمات

بنیادی انسانی حُقوق کا فلسفہ اور اسلامی تعلیمات

’’ اسلام احترامِ انسانیت اور انسانی حقوق کا مثالی علم بردار ہے،اسلامی معاشرے میں ہر فرد بلاتفریق ِمذہب و ملّت ،عزّت و احترام کا مستحق ہے‘‘

’’اسلام ‘‘احترامِ انسانیت اور انسانی حقوق کا علم بردار ہے۔اسلامی معاشرے میں ہر فرد بلاتفریق مذہب و ملت عزت و احترام اور آزدی کا مستحق ہے۔اسلام میں انسانی حقوق کے تصور کی سب سے بڑی خوبی جو اسے دیگر تصورات سے ممتاز کرتی ہے ، اس اصول پر مبنی ہونا ہے کہ حاکمیت اور اقتدارِ اعلیٰ کا مالک فقط اللہ تعالیٰ ہے۔فرمانِ الٰہی ہے:’’حکم تو بس اللہ ہی کے لئے ہے، وہی حق کی باتیں بیان کرتا اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔(سورۃالانعام) دوسری جگہ فرمایا،اس بات کو فراموش نہ کرنا کہ حکم اسی (اللہ) کا حکم ہے اور حساب لینے والوں میں اس سے جلد حساب لینے والا کوئی نہیں‘‘۔

پس اسلام کا انسانی حقوق کافلسفہ کائنات کو الٰہیاتی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ کون سی چیز انسان کے لئے نفع رساں ہے اور کون سی ضرر رساں ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’بے شک، ہم نے انسان کی راہنمائی سیدھے راستے کی طرف کردی۔ اب اس کو اختیار ہے کہ شکر گزار رہے یا ناشکرا بن جائے ۔

آج ہر طرف انسانی حقوق کا چرچا ہے اور حقوقِ انسانی کا موضوع ہر شخص کی زبان کا وِرد، یہ وقت کی آواز اور عالمی دلچسپی اور توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اسلام میں انسانی حقوق کی بنیاد توحیدی فکر و سوچ پر استوار ہے۔ اسلام انسانی حقوق کو انسانی عزت و کرامت کا لازمہ سمجھتا ہے کیونکہ دینی نظریے کے مطابق انسان زمین میںاللہ کا جانشین ہے اور اس لحاظ سے عزت و تکریم کا لائق و سزاوار ہے۔

حقوق انسانی دو لفظوں سے مرکب ہے حقوق جو حق کی جمع ہے،وہ چیز جو ثابت ہو (کسی فرد یا جماعت کے لیے) انسانی: انسان کی طرف منسوب ہے، انسان کی تعریف وہ جان دار یعنی جسم و روح والاجو قادرالکلام ہو۔

انسان اس دنیا میں تنہا نہیں رہ سکتا،وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر مجبور ہے، اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل اور آفات ومصائب کے ازالے کے سلسلے میں دوسرے انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے، اس قضیے کے پیش نظر ہر انسان کا یہ عقلی و طبعی حق بنتا ہے کہ دوسرااس کی مدد کرے،اس کے حقوق و فرائض کا لحاظ رکھے۔

آج کی مہذب دنیا جو انسانی حقوق کی رٹ لگاتے نہیں تھکتی، یہ جان جائے کہ انسانی حقوق کے جس تصور تک وہ اب پہنچی ہے، اس سے کہیں زیادہ جامع اور واضح تصور محمد عربیﷺ نے آج سے چودہ سوسال قبل پیش کردیا تھا۔ خطبہٴ حجۃ الوداع میں آپ ﷺنے بڑی شدومد اور تاکید کے ساتھ حقوق انسانی کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔

اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کے عالمی منشورسےصدیوں قبل آپ ﷺکا عطا کردہ خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق کے منشور کے حوالے سے اس سے کہیں زیادہ منفرد،ہمہ گیر اور جامع ہے۔عالمی منشور کے کئی نکات اسی خطبے سے لیے گئے ہیں۔ خطبہ حجۃ الوداع کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں پیغمبر آخرالزماںﷺ نے محض مسلمانوں ہی کو نہیں،بلکہ پوری انسانیت کو مخاطب کیا۔ 

اسی باعث آپﷺ نے خطبے میں سات بار’’اے لوگو!‘‘(ایھاالناس)کے کلمات ارشاد فرمائے۔ آپ نے مسلم کی اصطلاح استعمال نہیں فرمائی۔نبی کریمﷺ نے اس خطبے میں قرآنی تعلیمات اور اسلامی احکام کا خلاصہ نہایت فصیح وبلیغ انداز میں پیش فرمایا۔ اسی باعث اس خطبے میں ہمیں کئی انسانی حقوق آشکار کرنے والے نکات ملتے ہیں۔ انسانی حقوق کا عالمی منشور جن چھ بنیادی نکات پر استوار ہے وہ بڑی خوبی سے خطبہ حجۃ الوداع میں بیان ہوئے ہیں۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے:

(1)زندگی کا حق…انسانی جان بہت اہم اور بیش قیمت ہے، چناںچہ اُسے تحفظ دینے کے لیے ہر ممکن اقدامات ہونے چاہییں۔ اسلام مذہب،نسل اور جنس سے ماوراءہو کر تمام انسانوں کو زندہ رہنے کا حق عطا کرتا ہے۔

(2)آزادی کا حق…ہر انسان فطری طور پر آزاد پیدا ہوا ہے۔ ہر فرد یہ پیدائشی حق رکھتا ہے کہ وہ آزادی کی تمام اقسام یعنی جسمانی، ثقافتی، معاشی اور سیاسی آزادیوںسے فائدہ اٹھائے۔ اسی کیٹگری میں ’’آزادی رائے‘‘ ’’آزادیِ حرکت‘‘ اور ’’آزادی مذہب‘‘ کے حقوق بھی شامل ہیں۔

(3)تشدد سے تحفظ کا حق…کسی انسان پر جسمانی و ذہنی تشدد نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اُسے بے عزت کیا اور دھمکایا جائے گا۔ کسی سے زبردستی اقبال جرم نہیں کرایا جاسکتا۔

(4)جائیداد رکھنے کا حق…اسلام کسی تمیز کے بغیر تمام شہریوں کو جائیداد خریدنے کا حق دیتا ہے۔ اسلامی مملکت میں حکومت بے وجہ کسی انسان کی جائیداد ضبط نہیں کرسکتی۔ دوسری صورت میں شہری کو معقول معاوضہ دینا پڑتا ہے۔

(5)معاشرتی تحفظ (سوشل سکیورٹی) کا حق… اسلامی معاشرے میں آباد ہر شہری یہ حق رکھتا ہے کہ وہ وسائل کے مطابق خوراک رہائش، لباس، تعلیم اور علاج کی سہولتیں حاصل کرے۔ یہ معاشرے کی ذمے داری ہے کہ وہ ان مرد و زن کی مدد کرے جو عارضی یا دائمی معذوری کے سبب اپنے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔

(6)تعلیم کا حق…مرد ہو یا عورت، ہر انسان اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے تعلیم پانے کا حق رکھتا ہے۔ ہر فرد اپنی شخصیت کی تعمیر و ترقی کے لیے تمام مواقع پاتا اور آزاد ہے کہ کوئی بھی پیشہ اختیار کرے۔

یہ نکتہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ کئی اسلامی ممالک میں حکومتیں انسانی حقوق پامال کرتی ہیں، لہٰذا ان سے تو عیسائی مغربی ممالک بہتر ہیں جہاں بلا تفریق ہر انسان عزتِ نفس اور احترام سے ملتا ہے۔آج جب انسان قانونِ الٰہی سے دستبردار ہو چکا ہے اور اپنے خود ساختہ نظام کے سایہٴ عافیت میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے تو ہم بغیر کسی تردّد کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح انسان ایک ایسے جامع نظام اور دائمی سہارے سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے جو اس کے حقوق کا حقیقی محافظ اور ترقی کا ضامن تھا اور ایک ایسے قانون سے محروم ہوگیا ہے جسے نہ زمانہ کی گردشیں بوسیدہ کر سکتی ہیں، نہ حالات کی کروٹیں اسے زنگ آلودکرسکتی ہیں، بلکہ وہ آج بھی ویسے ہی قابل عمل ہے جیسے چودہ سو سال پہلے تھا۔

اس دعوے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انسانی تاریخ کا کوئی بھی قانون اور نظام ان انسانی حقوق کو دوسروں پرنافذ نہ کرسکا، لیکن اسلام وہ واحد نظام حیات ہے جس نے سب سے پہلے بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ ان حقوق کا ذکر کیا، ان کا جامع تصور دیا اورانہیں نافذ کرکے دکھایا۔تاریخ شاہد ہے کہ جب تک اسلامی حکومت کا قیام رہا، حقوقِ انسانی کانفاذ جاری و ساری رہا ۔

دور حاضر میں انسانی حقوق کے ارتقاء کا سرسری جائزہ لیاجائے تو پتا چلتا ہے کہ مغرب میں حقوق انسانی کے تصور کی دو تین صدیوں قبل کوئی تاریخ نہیں ہے،جب کہ نبی پاکﷺ نے چودہ سو سال پہلے ہی حقوق انسانی کا ایک جامع تصور انسانیت کے سامنے پیش کرکے بذاتِ خود اسے عملی جامہ پہناکر ایک صالح معاشرے کی تشکیل کی۔ رسول اکرمﷺ نے حقوقِ انسانی کے صحیح نفاذ اور انہیں عملی زندگی سے مربوط کرنے کے لیے فکر آخرت سے جوڑدیا جس کے باعث بندوں کے اندر حقوقِ انسانی کی رعایت وحفاظت کی ایسی اسپرٹ پیدا ہوگئی کہ بندہ از خود حقوق انسانی کا محافظ بن جاتا ہے۔

رسول اللہﷺ نے جو مربوط نظام، انسانی حقوق کا پیش کیا، وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، جن میں احترام انسانیت، بشری نفسیات ورجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اورمعاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیاگیا ہے، حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اسے ادا کرنا پڑے گا، ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی۔

انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے، اس لیے کہ جان سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ بعثت نبویؐ سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی، سب سے پہلے رسول اللہﷺ نے انسانی جان کا احترام سکھایا، ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ 

قرآن پاک میں بھی اس کی تائید کی گئی ،جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے، یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے، اس نے گویا تمام لوگوں کا قتل کیا، اور جو اس کی زندگی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔ آج دہشت گردی ،انتہاپسندی،بدامنی اور قتل وغارت گری کی بناء پر انسان کا جو حق سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے ،وہ اس کی زندگی اور احترام انسانیت کا حق ہے۔

جسے اسلام نے بلاتفریق مذہب وملت پوری انسانیت کے لیے ایک بنیادی فریضہ قرار دیا ہے۔اسلام سلامتی اور ایمان امن سے عبارت ہے،اسلام اور پیغمبراسلام ،حضرت محمدﷺ کی تعلیمات بلاشبہ احترام انسانیت ،انسانی حقوق اور امن کی سب سے بڑی ضامن ہیں۔

تازہ ترین