• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی، روس اورایران کے سربراہوں، طیب ایردوان، ولادیمر پیوٹن اور حسن روحانی نے بدھ کے روز ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں ملاقات کی۔ یہ ملاقات اس وقت عمل میں آئی جب ایک روز قبل امریکی صدر کابیان سامنے آیا تھا کہ ممکن ہے امریکہ اپنے دستے جلد شام سے نکال لے۔ ملاقات کے اعلامیے میں کہاگیاکہ شام کی سرزمین پر قیام امن کے عمل کوتیز کیا جائیگا۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ شام کے معاملے کا جنیوا کنونشن کی روشنی میں سیاسی حل چاہتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ نے یورپ کو ملبے کا ڈھیر بنادیا تو اس وقت ہی یہ آوازیں بلند ہونا شرو ع ہوگئی تھیں کہ آئندہ جنگ ہوئی تو اس کا میدان مشرق وسطیٰ ہوگا۔ اگرچہ جنگ رکوانے میں ناکامی پر لیگ آف نیشنز تحلیل کرکے یونائٹیڈ نیشنز کا قیام عمل میں لایا جاچکا تھا، جسکی غرض و غایت ہی جنگ کو روکنا تھا۔ صد افسوس کہ عالمی ادارہ بڑی قوتوں خاص طور پر امریکہ کے ہاتھوں موم کی ناک بن گیا اور کم و بیش پورا مشرق وسطیٰ ہمیں جنگ کی لپیٹ میں دکھائی دیتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس میں خطے کے ممالک کے معمولی اختلافات کو استعمال کرکے بڑی طاقتیں اپنی لڑائیاں یہاں لڑ رہی ہیں۔ عراق، افغانستان، شام، تیونس، مصر، لیبیا اور یمن وغیرہ میں جو کچھ ہوا، اس میں ہمیں بیرونی قوتوں کا ہاتھ نمایاں نظر آتا ہے۔ اب جبکہ روسی جاسوس کے برطانیہ میں قتل کے بعد امریکہ اور روس ایک دوسرے کے مقابل آگئے ہیں، اقوام متحدہ کی ذمہ داریاں سوا ہوگئی ہیں۔ دنیا میں ہونے والی مبارزت پہلے ہی اس عالمی ادارے کے وجود پر سوالیہ نشان لگا چکی ہے اور اگر اب بھی وہ اپنا کردار ادا نہیں کرتا تو دنیا کو جنگ سے بچانا مشکل ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کو سردست تمام شورش زدہ ممالک میں اپنے امن دستے تعینات کرنے چاہئیں تاکہ بات جنگ تک نہ پہنچے۔ عالمی برادری کو اسی پلیٹ فارم سے معاملات سیاسی وسفارتی سطح پر حل کرنے چاہئیں۔ لڑائی کبھی مثبت نتائج نہیں لاتی، عالمی امن کیلئے اقوام متحدہ کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ دنیا جنگ کی ہولناکی سے محفوظ رہے۔

تازہ ترین