• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ آج کس موضوع پر لکھوں کہ دور دراز مقام سے ایک مہربان بزرگ کا فون آگیا۔ یہ بزرگ نہایت عبادت گزار اور نیک انسان ہیں۔ جب سے انہیں علم ہوا ہے کہ میں درد سے پریشان رہتا ہوں وہ اکثر صبح کے وقت مجھے فون کر کے درد کی کیفیت بھی پوچھتے ہیں، دعا بھی دیتے ہیں اور یہ امید بھی دلاتے ہیں کہ ان شاء اللہ جلد ہی تم ٹھیک ٹھاک ہو جائو گے۔ آج ان کا حسب معمول فون آیا، انہوں نے درد کی کیفیت پوچھی تومیں نے عرض کیا کہ تمام تر علاج اور آپ کی دعائوں کے باوجود کوئی افاقہ نہیں۔ کہنے لگے میں نے پڑھا ہے کہ طویل بیماریاں اور ’’لمبے مرض‘‘ بھی مقدر کا حصہ ہوتے ہیں یعنی لوح مقدر پہ درج ہوتے ہیں اور انہیں کتنا عرصہ لینا ہے کب شفا ہونی ہے یا نہیں ہونی یہ بھی لوح مقدر پہ لکھا ہوتا ہے۔ لوح مقدر کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور ظاہر ہے کہ خالق حقیقی کو ہر چیز کا علم ہوتا ہے۔ ہمیں تو بہرحال علم نہیں ہوتا کہ کب کون سا حادثہ پیش آئے گا، کیا نقصان ہوگا اور کب کوئی طویل مرض حملہ آور ہوگا۔ البتہ یہ حدیث مبارکہ ہے کہ طویل بیماری سے گناہ جھڑتے ہیں اور بخشش کا ساماں ہوتا ہے۔
وہ بزرگ تو اپنی عادت کے مطابق دعا اور حوصلہ دے کر چلے گئے۔ فون بند ہوگیا لیکن مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ان کی بات نے میری یادوں اور تجربات کے دریچے کھول دیے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ غیر مرئی یعنی نظر نہ آنے والی حقیقتیں صرف تجربات کی آنکھ سے دیکھی جاسکتی ہیں اور جن حضرات کو ایسے تجربات نہیں ہوئے ہوتے وہ ہمیشہ ان معاملات کے بارے مشکوک یا انکاری رہتے ہیں جو ان کا حق ہے۔ اسی طرح جن لوگوں کو ایسے مشاہدات نصیب ہوتے ہیں انہیں بھی بیان کرنے کا پورا حق ہے۔
یادوں کے دریچے کھلے اور ماضی کے گلستان سے خوشبو کے جھونکے آئے تو مجھے ایک بزرگ یاد آئے جن کا انتقال ہوئے تقریباً تین دہائیاں ہونے کو ہیں۔ وہ صاحب نظر بزرگ ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے کوئی نیم خواندہ پیر یانجومی یا پیشہ ور گدی نشین نہیں تھے۔ جب میری ان کی دوستی اور قربت ہوئی تو وہ ستر کے پیٹے میں تھے اور رات کا اکثر حصہ عبادات و مجاہدات میں گزارتے تھے۔ اللہ پاک نے ان کے ہاتھ میں شفا بھی دے تھی اور فیض بھی عطا کیا تھا۔ یہ بات یاد رکھیں کہ صاحب باطن کی محفل میں بہت سے حضرات آتے اور تشریف رکھتے ہیں لیکن ہر کسی کو قربت نصیب ہوتی ہے نہ ان کے مشاہدات میں شریک ہونے کا موقعہ ملتا ہے۔ میرا ذاتی خیال اور ادراک ہے کہ صاحب نظر کی نگاہ ہر شخص کے باطن پر ہوتی ہے اور باطن کی پاکیزگی، خلوص اور ظرف کے مطابق قربت دی جاتی ہے اور اسی حساب سے روحانیت میں شریک کیا جاتا ہے۔ صاحب نظر کو کسی کے باطن میں کیا نظر آرہا ہے؟ اس بارے نہ کبھی وہ لب کشائی کرتے ہیں اور نہ ہی اس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں لیکن قریب انہی کو کرتے ہیں جن میں حد درجہ خلوص نظر آتا ہے۔ خلوص کا تصور قدرے وسیع ہے اور یہ تصور عقیدت، حرص و ہوس سے پاکیزگی اور روحانی معاملات کے ادراک کے ظرف کا احاطہ کرتا ہے۔ جو لوگ کسی خاص خواہش، مطلب یا دعا کے لئے آتے ہیں وہ یا تو خواہش پوری ہونے پر یا صرف دعا لے کر رخصت ہو جاتے ہیں لیکن جن حضرات کو روحانیت کی تلاش ہوتی ہے اور ان کی تلاش سو فیصد خلوص پر مبنی ہوتی ہے، انہیں قرب نصیب ہوتا ہے۔ بات کچھ پھیل گئی۔ ذکر کرنا تھا کچھ یادوں کا جو یادوں سے زیادہ تجربات و مشاہدات کا درجہ رکھتی ہیں۔
اتوار کا دن تھا۔ ان کا فون آیا کہ مجھے آج گھر سے نکالیں اور سیر کروائیں۔ ان دنوں لاہور میں نہ اس قدر ٹریفک ہوتی تھی اور نہ ہی رکاوٹیں۔ زندگی نہایت آسان، آرام دہ اور شاہراہ قائداعظم پر کار ڈرائیو کرنا باعث مسرت ہوتا تھا۔ میں ان کے گھر پہنچا، کار پہ بٹھایا اور پوچھا کہ کس طرف چلوں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نہر پہ چلیں اور یونیورسٹی کیمپس تک جا کر واپس آجائیں۔ پھر کسی جگہ بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔ میں نے گورنر ہائوس کو کراس کیا تو سامنےاسٹاف کالج نظر آیا۔ کالج کی عمارت پر نظر پڑتے ہی معاً میرے منہ سے نکلا کہ حضور والا۔ میں چند روز کے بعد ٹریننگ کے لئے اس کالج میں پہنچ جائوں گا۔ حکومت میری نامزدگی، فیس کی ادائیگی اور دوسری کارروائی مکمل کر چکی ہے۔ دوسری منزل پہ نظر آنے والا وہ کمرہ مجھے الاٹ ہو چکا ہے جہاں کورس کے دوران میرا قیام ہوگا۔ اس لئے اب آئندہ آپ سے ملاقات کم ہوا کرے گی۔ میری بات مکمل ہوتے ہی وہ بولے ’’ہم نے یہاں نہیں آنا‘‘ میں چونکا اور عرض کیا کہ حضور میری NOMINATION ہو چکی ہے۔ کارروائی مکمل ہونے کے بعد کالج سے مجھے کاغذات بھی وصول ہو چکے ہیں اور آج سے تین دن بعد مجھے وہاں رپورٹ کرنا ہے۔ جواب پھر وہی تھا ’’ہم نے یہاں نہیں آنا ‘‘۔ اب کے میں نے عرض کیا کہ جناب یہاں آنا اگلے گریڈمیں ترقی کے لئے بنیادی شرط ہے۔ پھر میری پروموشن نہیں ہوسکے گی۔ جواب ملا ہماری ترقی اس کورس کے بغیر ہوگی۔ سچی بات یہ ہے کہ میں ان کی بات سن کر احتراماً خاموش ہوگیا لیکن دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ مختصر یہ کہ مجھے ان کی بات پہ بالکل یقین نہیں آیا اور میں اپنی تیاری میں مصروف رہا۔ دو دن بعد وزیراعلیٰ صاحب نے بلوایا اور میرے بیٹھتے ہی فیصلہ سنایا۔ میں آپ کی اسٹاف کالج کے لئے نامزدگی واپس لے رہا ہوں کیونکہ فی الحال حکومت کو آپ کی شدید ضرورت ہے اس لئے ہم آپ کو SPARE نہیں کرسکتے۔ میری دل شکنی ہوئی اور ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب کا فرمان یاد آگیا۔ میں وزیراعلیٰ کے دفتر سے دل گرفتہ نکلا تو خیال آیا کہ ڈاکٹر صاحب کے فرمان کا ایک حصہ تو پورا ہوگیا۔ اب دوسرے حصے کی تعبیر کا انتظار کرتا ہوں۔ چند دنوں بعد چھٹی کے روز میں ان کو کر نہر کی سیر کے لئے نکلا تو عرض کیا کہ حضور اسٹاف کالج کے لئے رخصتی منسوخ ہوگئی ہے۔ اب ان شاء اللہ ہر اتوار ملاقات ہوگی۔ جواب ملا میں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ہم نے اسٹاف کالج نہیں جانا اور ہماری ترقی اس کورس کے بغیر ہوگی۔ کار چلاتے ہوئے میں نے بے تکلفی کا سہارا لیا اور پوچھا ’’جی آپ کا فرمان درست نکلا لیکن یہ تو بتائیں کہ آپ کو کیسے پتہ چلا؟‘‘ ان کا جواب نہایت مختصر مگر بے حد جامع تھا جس نے میرے ذہن پہ ہمیشہ کے لئے اس تجربے کا نقش ثبت کردیا۔ انہوں نے فرمایا ڈاکٹر صاحب۔ ’’صاحب نظر کی نگاہ لوح مقدر پہ ہوتی ہے‘‘۔ کوئی ایک دو برس بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد میری ٹرانسفر اسلام آباد ہوگئی۔ بی بی بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں جو مجھے بوجوہ ناپسند کرتی تھیں۔ انہوں نے مجھے کھڈے لائن لگا دیا۔ میں نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے درخواست کی کہ مجھے لاہور بھجوا دیں۔ انہوں نے مجھے اسٹاف کالج میں تعینات کردیا۔ قواعد کے مطابق اسٹاف کالج میں تین سال سروس کرنے والے ترقی کے کورس سے مستثنیٰ ہو جاتے ہیں۔ وہ شرط پوری ہونے پر میری ترقی ہوگئی۔ اس طرح صاحب نظر ڈاکٹر صاحب کے فرمان کا دوسرا حصہ بھی ان کے انتقال کے کئی برس بعد پورا ہوگیا ۔ اسی طرح کے ان گنت تجربات کے بعد میرا لوح مقدر پہ یقین پختہ ہوتا چلا گیا۔ یاد رکھیں نجومیوں کی پیش گوئیاں بھی درست نکلتی ہیں لیکن اکثر غلط بھی ثابت ہوتی ہیں جب کہ کسی صاحب نظر کے منہ سے نکلی ہوئی بات کبھی غلط نہیں ہوتی، بس پتھر پہ لکیر ہوتی ہے۔ یہ میرا بارہا کا تجربہ اور مشاہدہ ہے۔

تازہ ترین