• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل اجنبی آوازیں اور اجنبی الفاظ ہمارے چاروں طرف سنائی دے رہے ہیں۔ ٹی وی کھولیے، تو ایک عجیب زبان سننے کو ملتی ہے۔ اُردو جسے قائداعظم نے رابطے کی زبان قرار دیا تھا اور جس نے تحریک ِپاکستان میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، اس کا حلیہ اس قدر بگاڑ دیا گیا ہے کہ اس کی تہذیبی لطافت اور خوشبو تک پہنچنے میں بڑی دشواری پیش آ رہی ہے۔ چند سال ہوئے ہماری عدالت عظمیٰ نے حکم صادر کیا تھا کہ دستور میں اُردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے، اس پر جلد سے جلد عمل درآمد ہونا چاہیے۔ اِس حکم نامے سے قومی حلقوں میں زبردست ارتعاش پیدا ہوا تھا اور ایک دو صوبوں میں اس پر عمل درآمد کے انتظامات بھی کیے جا رہے تھے، مگر جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، اُردو سے ہماری شناسائی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ ہمیں زیادہ تر شادی کی تقریبات کے دعوت نامے انگریزی میں لکھے ہوئے موصول ہوتے ہیں۔ ان افراد کی طرف سے بھی جو اُردو کی حمایت میں بظاہر بڑے پُرجوش دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں اُردو کو دیس نکالا دینے کا اہتمام ہو چکا ہے۔ ہمارے بچے جو انگریزی اسکولوں میں پڑھتے ہیں، وہ برملا کہتے ہیں کہ ہمیں اُردو سے نفرت ہے، اس لیے وہ عام بول چال میں بھی انگریزی کے الفاظ بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ بلاشبہ ہماری قومی زبان کا ظرف بہت وسیع اور مشفقانہ ہے، اس میں مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر جذب کرنے کی غیر معمولی صلاحیت پائی جاتی ہے اور اس کے مزاج میں نئے نئے الفاظ تخلیق کرنے کا داعیہ بھی موجود ہے، مگر جب گفتگو میں بلاوجہ انگریزی کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، تو بہت کوفت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ ٹی وی نشریات میں یہ کہتے ہوئے اکثر سنیں گے کہ importantبات یہ ہے۔ importantکی جگہ آپ اہم کا لفظ استعمال کر کے اپنی بات کو مزید اہم بنا سکتے ہیں۔
ہمیں اپنی خوشیوں میں اور روزمرہ کے معمولات میں اُردو زبان کو اوّلیت کا درجہ دینا ہو گا۔ سرکاری تقریبات کے دعوت نامے بالعموم انگریزی زبان میں ارسال ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں عوامی سطح پر ایک مہم چلائی جانی چاہیے کہ ہم اُردو زبان کو اپنی عملی زندگی میں اپنائیں اور اس پر فخر محسوس کریں جبکہ ان دنوں اس بات پر فخر محسوس کیا جاتا ہے کہ آپ نے شادی کی تقریب کا دعوت نامہ انگریزی میں بھیجا ہے اور اس سے آپ کی قدرومنزلت بڑھ گئی ہے۔ ہمیں اگر اُردو زبان سے واقعی محبت ہے تو یہ اجتماعی اعلان کرنا چاہیے کہ ہم انگریزی میں بھیجے ہوئے دعوت ناموں کی تقریبات کا بائیکاٹ کریں گے۔ اگر قومی زبان ہمارے گھروں کے اندر ہی باقی نہ رہی، تو وہ دفتروں اور عدالتوں میں کبھی نافذ نہیں ہو گی۔ اس امر کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی دوسری زبانوں کے ساتھ قومی زبان کا رشتہ بہت گہرا اَور مستحکم ہونا چاہیے۔ ہم پر انگریزی زبان جس طرح غلبہ حاصل کرتی جا رہی ہے اور اس نے زندگی کے اہم شعبوں میں جو اثر و رسوخ پیدا کر لیا ہے، اس کا حکمت کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس غلبے میں ہمارا تہذیبی وجود تحلیل ہوتا جا رہا ہے اور یگانگت کے مظاہر دھندلاتے جا رہے ہیں۔ قیادت کے فقدان کا بھی اس تہذیبی اور ثقافتی اضمحلال کے ساتھ بہت قریبی تعلق ہے۔ اس میں تو اپنی آواز بھی بہت دور سے آتی سنائی دیتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ فلسطین اور کشمیر ہماری روح کا لازمی حصہ تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے جب 23مارچ 1940ء کو قراردادِ لاہور منظور کی، تو اسی نشست میں قائداعظم کی زیرِ صدارت آزاد فلسطینی ریاست کی قرارداد بھی منظور ہوئی تھی۔ یہ عمل مسلم لیگ کے ہر سالانہ اجلاس میں دہرایا گیا۔ قائداعظم 1946ء میں قیامِ پاکستان پر فیصلہ کُن مذاکرات کے لیے لندن گئے، تو راستے میں قاہرہ ٹھہرے اور مفتیٔ اعظم فلسطین سے ملاقات کی اور اُنہیں برصغیر کے مسلمانوں کے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ وہ پاکستان اور فلسطین کو ایک جان اور دو قالب خیال کرتے اور اسلامی عظمت کے احیا کا محور سمجھتے تھے۔ امریکہ نے اقوامِ متحدہ پر شدید دباؤ سے اسرائیلی ریاست کے قیام کی قرارداد منظور کرائی، تو قائداعظم نے اسے ’ناجائز ریاست‘ کہا اور دنیا کے مسلمانوں سے فلسطینیوں کا حقِ خودارادیت دلانے کے لیے جدوجہد کرنے کی اپیل کی تھی۔ بدقسمتی سے عرب ممالک فلسطینیوں کے بنیادی مسائل میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ چند روز پہلے غزہ میں درجنوں فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں، مگر او آئی سی نے کوئی طاقتور ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔ اسی طرح قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سے موسوم فرمایا تھا اور بھارت کے غاصبانہ قبضے کو خطے کے امن کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نے پوری دنیا کو فریب دیا کہ جموں و کشمیر کے مہاراجہ نے بھارت سے 26؍اکتوبر 1947ء کو الحاق کر لیا ہے اور امن و امان قائم رکھنے کے لیے فوجی امداد طلب کی ہے۔ برطانوی مصنف الیسٹر لیمب (Alastair Lamb) نے اپنی کتاب Incomplete Partitionمیں بھارتی لیڈروں کی دروغ گوئی کا پول کھول دیا اور ثابت کیا کہ وی پی مینن، مہاراجہ کے دستخط حاصل کرنے کے لیے 26؍اکتوبر کو جموں نہیں گیا تھا اور بے پرکی اُڑا دی گئی کہ الحاق کی دستاویز پر مہاراجہ نے دستخط کر دیے ہیں۔ یہ دستاویز کسی بھی آرکائیو میں موجود نہیں۔
عالمی سیاست میں جھوٹ، فریب اور طاقت کے استعمال کو شامل کر دینے سے بھارت 1947ء ہی سے کشمیری عوام پر ظلم ڈھا رہا ہےا ور اُن کی نسل کشی پر تُلا بیٹھا ہے، مگر وہ سات لاکھ فوج کے باوجود کشمیریوں کا جذبۂ آزادی کچل سکا ہے نہ پاکستان کے ساتھ اُن کی محبت میں کمی لا سکا ہے۔ اس کے برعکس مسئلۂ کشمیر عالمی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اب تنازع کشمیر میں چین غیر معمولی دلچسپی لے رہا ہے جس کے پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات قائم ہو چکے ہیں اور یہ دونوں ممالک اس خطے میں سی پیک کی تعمیر سے ایک معاشی انقلاب لانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ روس جس نے ماضی میں کشمیر کے حل میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں، اب وہ پاکستان کے ساتھ معاشی، فوجی اور جدید ٹیکنالوجی میں تعاون بڑھا رہا ہے اور سی پیک میں اہم کردار اَدا کرنے کے لیے پوری طرح مستعد ہے۔ بھارت میں مذہبی جنون میں تشویشناک اضافہ ہونے سے اس کی سالمیت خطرے میں پڑتی جا رہی ہے۔ چند روز قبل مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں سترہ نوجوان شہید کر دیے گئے اور اُن کے خلاف پیلٹ گنز استعمال ہوئیں۔ اس بہیمانہ اور سفاک واردات کے خلاف پورا مقبوضہ کشمیر سراپا احتجاج ہے اور بھارتی دہشت گردی کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ آج پورے پاکستان میں بھی کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی اور بھارتی چیرہ دستیاں بے نقاب کی جا رہی ہیں۔ بلاشبہ اس اظہارِ یکجہتی میں بڑی طاقت ہے، مگر ہمیں تو شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے۔ ایسے میں مجھے دور سے ایک مانوس آواز سنائی دے رہی ہے جو اندر سے اُبھری ہے اور اِس میں اقبال کا شعر گندھا ہوا ہے؎
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
اب ہماری عظیم الشان ریاست آپس کے جھگڑوں میں بہت لاغر ہو گئی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین