• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھٹو کے قتل میں کون کون ملوث تھا؟

اب تو پاکستان کے ممتاز سیاسی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے اکثر باتیں کھل کر سامنے آگئی ہیں، باتیں تو اس وقت بھی آنا شروع ہوگئی تھیں جب بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت ہورہی تھی، آج 4 اپریل ہے جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں، آج ہی ملک کے اکثر اخبارات میں بھٹو کو دی گئی پھانسی کے بارے میں کالم اور تفصیلی مضامین شائع ہوئے ہیں، آج ’’جنگ‘‘ میں خاص طور پر ایک فل پیج مضمون شائع ہوا ہے جس میں ایک بار پھر اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ بھٹو کو دی گئی پھانسی میں امریکہ ملوث تھا، اس سلسلے میں خاص طور پر اس دھمکی کا ذکر کیا گیا ہے جب ایٹمی پروگرام تیار کرنے کے بعد امریکہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان کے دورے میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کے دوران ان کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے پر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی تھی۔ اس سلسلے میں میری اپنی جو تحقیق ہے اس کے مطابق بھی بھٹو کے قتل میں امریکہ کا دبائو تھا مگر ابتدائی تحقیق سے اشارے ملتے ہیں کہ بھٹو کے قتل میں ایک آدھ دوسرے ممالک نے بھی امریکہ کے اشارے پر اپنا کردار ادا کیا‘ خود ملک کے کچھ ’’طاقتور‘‘ عناصر بھی بھٹو کے قتل میں ملوث تھے۔ میری تحقیق کے مطابق جنرل ضیا الحق پر بھٹو کو پھانسی دینے کے سلسلے میں امریکی دبائو کے کچھ اور اسباب یہ بھی تھے کہ بھٹو نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرکے اسلامی دنیا کو متحد کرکے اسے ایک نیا رخ دیا جو کسی حد تک امریکی مفادات سے متصادم تھا ،اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس کانفرنس سے پہلے دنیا کے تیل پیدا کرنے والے اسلامی ممالک کو بھٹو نے اس بات پر راضی کیا کہ ان کے ہاں نکلنے والا تیل عملی طور پر امریکہ کی دسترس میں دینے والی پالیسی کو ختم کرکے یہ ممالک امریکی ہدایات کی بجائے بین الاقوامی معاشی حقائق کی روشنی میں تیل کے نرخ مقرر کریں، بعد ازاں ان میں سے اکثر ممالک نے ایسا ہی کیا، ان میں خاص طور پر سعودی عرب نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اس فیصلے کے بعد دنیا میں پیدا ہونے والے تیل کا ایک بڑا ذخیرہ ان کے کنٹرول سے نکل چکا تھا،کچھ محققین کی رائے یہ ہے کہ اس تبدیلی کو امریکہ نے قطعی طور پر قبول نہیں کیا اور امریکہ کے نزدیک نہ فقط ذوالفقار علی بھٹو مگر سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل بھی ان کے دشمنوں میں شامل ہوگئے‘ میں اب جو بات لکھ رہا ہوں اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہ کچھ عرصے کے بعد اچانک شاہ فیصل کو قتل کردیا گیا،آج تک اس بات کا انکشاف نہیں ہوا کہ اس قتل میں کون ملوث تھا اور کیوں ملوث ہوا، شاہ فیصل کے قتل سے کچھ عرصے کے بعد بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا کر ان پر قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا اور بعد میں ا نہیں پھانسی دیدی گئی، کچھ محققین کی رائے ہے کہ اگر شاہ فیصل زندہ ہوتے تو بھٹو کو قتل کرنا آسان نہ ہوتا، جب تقریباً 15 سال پہلے میرا امریکہ جانا ہوا اور واشنگٹن میں اپنے ایک دوست کے ہاں ٹھہرا تو انہوں نے مجھے عربی میں لکھی گئی ایک چھوٹی سی کتاب دکھائی جس کا عربی میں عنوان تھا ’’قتل علی بوتو‘‘ (ذوالفقار علی بھٹو کا قتل) اس کتاب پر ایک طرف بھٹو کی تصویراور ایک دوست کی تصویر تھی اور درمیان میں یہ عنوان تھا، اس دوست نے مجھے بتایا کہ ان کے ساتھ امریکہ میں ایک شخص پڑھتا تھا، بعد میں وہ ایک اہم عہدے پر مقرر ہوا، اس دوست نے بتایا کہ جب بھی اس کا اس کے ملک میں جانا ہوتا تو وہ اکثر اس کا مہمان ہوتا، اس دوست نے بتایا کہ ایک بار جب میں اس دوست کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا تو رات کو وہ انتہائی خوفزدہ ہوکر ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور ان کے ہاتھ میں یہ کتاب تھی، میرے دوست کو ان کے میزبان نے بتایا کہ اس کتاب میں بھٹو کے قتل کے بارے میں کئی راز افشا کئے گئے ہیں لہٰذا دنیابھر میں آپریشن کرکے تمام بک اسٹالوں سے یہ کتاب اٹھالی گئی اور اطلاعات کے مطابق ان کتابوں کو جلا دیا گیا مگر میرے دوست کے میزبان نے کہا کہ اس کے پاس یہ کتاب ہے اور اسے ہمیشہ خوف رہتا ہے کہ اس کتاب کی وجہ سے کبھی وہ کسی مشکل میں نہ پھنس جائے لہذا میرے دوست کے میزبان نے یہ کتاب میرے دوست کے حوالے کی اور گزارش کی کہ چھپاکر یہ کتاب اپنے ساتھ لے جائیں۔ میں نے اس کتاب کا ذکر تو کیا ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں کچھ بین الاقوامی ادارے بھرپور قسم کی تحقیقات کریں۔ میرے خیال میں امریکہ بھٹو کو پھانسی جن وجوہات کی بنا پر دینا چاہتا تھا ان میں ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ بھٹو تیسری دنیا کے غریب ملکوں کو دنیا کے امیر ملکوں کے بلاکوں کی گرفت سے آزاد کرانا چاہتے تھے لہٰذا جس سال بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا گیا انہوں نے باقاعدہ اس سلسلے میں کام شروع کردیا کہ بہت جلد تیسری دنیا کے ملکوں کی سربراہی کانفرنس منعقد کی جائے۔ اس سلسلے میں دنیا میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے کچھ بین الاقوامی اخبارات میں ان کا ایک تفصیلی مضمون شائع ہوا، اس مضمون میں انہوں نے تجزیہ پیش کیا کہ دنیا میں توازن پیدا کرنے کے لئے ایسے ایک نئے بلاک کی ضرورت ہے، وہ اس کے بعد ایسے دوسرے مضامین بھی شائع کرنا چاہتے تھے، انہوں نے اپنی یہ کوششیں فقط مضمون کی اشاعت تک محدود نہیں رکھی تھیں بلکہ باقاعدہ سفارتکاری کے ذریعے تیسری دنیا کے ممالک کی پروگریسو قیادت سے رابطے بھی کئے۔ اس قسم کی بھی اطلاعات تھیں کہ بھٹو کی کوششوں سے جلد تیسری دنیا کے ملکوں کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس منعقد ہونے والی تھی، امریکہ ان ساری ڈولپمنٹس سے آگاہ تھا، اسے پتہ تھا کہ اگر ایسا کوئی بلاک قائم ہوگیا تو سب سےزیادہ گھاٹا امریکہ ہی کو ہوگا لہٰذا اب امریکہ نے طے کرلیا کہ اس سے پہلے کہ یہ کانفرنس ہو یا بھٹو کوئی اور کھیل کھیلیں ان سے چھٹکارا حاصل کیا جائے، جب تیسری دنیا اور خاص طور پر افریقہ اور ایشیا کے ممالک میں سوئیکارنو، جمال ناصر، چواین لائی و دیگر کی قیادت تھی اور اس وقت جو ایفرو ایشیائی کانفرنسیں ہوتی تھیں ان میں بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے انتہائی متحرک کردار ادا کرتے تھے، اس وجہ سے وہ خاص طور پر سوئیکارنو، چو این لائی اور مارشل چن ای کے بہت قریب تھے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین