• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 ووٹ کو عزت دو

نواز شریف کے حالیہ بیانیے کی وجہ سے اس معاشرے میں دو بڑے واضح طبقے وجود میں آ گئے ہیں۔ ایک طبقہ ووٹ کو عزت دینے کامطالبہ کر رہا ہے اور دوسرا ہر قیمت پر ووٹ کی تضحیک چاہ رہا ہے۔ اس نظریاتی تقسیم میں اب جماعتوں اوراداروں کی تخصیص نہیں رہی۔ اب تقسیم صرف جمہوری اور غیر جمہوری سوچ کی ہے۔ خود سوچئے ۔ رضا ربانی ، فرحت اللہ بابر، حاصل بزنجو اور عثمان کاکڑ کی جماعت مسلم لیگ ن نہیں ہے۔ لیکن ان کا بیانیہ جمہوری ہے۔ وہ کسی بھی جماعت میں ہوں وہ اسی طبقے میں شمار ہوں گے جو ووٹ کی تقدیس کی بات کر رہا ہے۔ اسی طرح اگر انصاف کے در پر دستک دیں تو جسٹس دوست محمد، ، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ،کوہاٹ ،احمد سلطان ترین اور جسٹس فائز عیسیٰ کا شمار بھی انہی لوگوں میں نظرآتا ہے جو سول سپرمیسی کیس قائل ہیں۔ جو پارلیمان کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں۔ جو غیر جمہوری قوتوں کے خلاف ڈٹ جانا چاہتے ہیں۔ جیو اور جنگ تو جمہوریت پر یقین رکھنے کی سزا اٹھا ہی رہے ہیں مگر کچھ ایسے صحافی اور اینکر بھی ہیں جن کا تعلق جیو اور جنگ سے نہیں ہے مگر پھر بھی وہ جمہوریت کی شمع اپنی، اپنی بساط کے مطابق جلا رہے ہیں۔ اب یہ نظریاتی تقسیم، نشریاتی اداروں سے ماورا ہو گئی ہے۔صحافیوں ، کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں میں بھی یہ تقسیم بہت واضح نظر آتی ہے۔ اگر چہ جمہوریت کے نام لیوا چند ایک ہی ہیں مگر ان کی بات اثر رکھتی ہے۔سیاسی جماعتوں میں بھی اب یہی تقسیم رہ گئی ہے۔ نام کچھ بھی ہو پارٹی کا منشور کچھ بھی کہتا رہے۔ پارٹی کا جھنڈا کسی بھی رنگ کا چاہے کیوں نہ ہو لوگ اب پارٹیوں کو بھی نظریات کی بناپر پرکھ رہے ہیں۔ عمران خان اور پیپلز پارٹی کا موجودہ بیانیہ جمہوریت کے حق میں نہیں ہے۔ سینیٹ کے الیکشن میں کی جانے والی کھلم کھلا دھاندلی اس بات کی واضح دلیل ہے۔ ایمپائر کی انگلی کا انتظا ر اس کاواضح ثبوت ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں ہونے والی یکدم تبدیلی اس غیر جمہوری بیانیے کا اعتراف ہے۔سنجرانی کا سینیٹ چیئر مین بننا اس المیے کی طرف نشاندہی ہے۔
دوسرا طبقہ فکر وہ ہے جو جمہوریت کی حرمت کوتسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ چوہدری نثار کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے مگر انکی سوچ اب جمہوریت پسندی کا ساتھ نہیں دے رہی۔ مفاہمت اب وقت کا تقاضا نہیں رہی ہے۔ غیر جمہوری اداروں سے خفیہ ملاقاتوں کا اب وقت گزر چکا ہے۔ اب بات سیاہ اور سفید جتنی واضح کرنی ہو گی۔ بین گفتگو کا مرحلہ گزر چکا ہے۔ میڈیا میں بہت سے ایسے ہیں جو جنرل مشرف کے دور کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں۔ جن کو ہر خامی جمہوریت میں ہی نظر آتی ہے۔ جن کا مطمح نظر کسی نہ کسی طرح مارشل لاکا ظہور پذیر ہونا ہے۔ہر شام ایسے اینکر جمہوریت کا نوحہ پڑھ کر ہی شاد کام ہوتے ہیں۔ ان کو عوام کی منتخب کردہ حکومتوں میں بس کیڑے ہی کیڑے نظر آتے ہیں۔ ایسے تجزیہ کار بھی ہیں جن کا مقصد ہر پروگرام میں، ہر چینل پر لوگوں کو یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ عوام کا فیصلہ غلط ہے۔ جمہوریت کرپشن کا نیا نام ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا بہانہ ہے۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ عوام کے حق حاکمیت کی کوئی دلیل ایسے تجزیہ کاروں کو متاثر نہیں کر سکتی۔ان کے ہیرو جنرل مشرف ہی رہیں گے اور ان کے امیر المومنین ضیاء الحق ہی کہلائیں گے۔
اس نظریاتی تقسیم کے نتائج کیا ہوتے ہیں؟ جمہوریت کا علم بلند رہتا ہے یا غیر جمہوری قوتوں کا بیانیہ پر اثر رہتا ہے اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ جب آج کے دور کی تاریخ لکھی جائے تو آپ کا ووٹ کس طبقہ فکر کے پلڑے میں ہو گا؟ کیا آپ ان لوگوں میں شمار ہونا چاہیں گے جو جمہوریت کے لیے جدوجہد کرتے رہے یا پھر آپ ان لوگوں کی قطار میں کھڑے رہنا پسند کرتے ہیں جو آمریت کے دلدادہ رہے۔ کیا آپ ان میں شامل ہیںجو غیر جمہوری قوتوں کے نمائندے بنے رہے ،دل ہی دل میں مارشل لا کو راہ نجات قرار دیتے رہے؟ آپ سول سپرمیسی کے حق میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں؟ یا نادانستگی میں آمریت کی راہ میں پھول بچھا رہے ہیں۔ کیا آپ اس ملک کو ترقی کی سمت بھیجنے والوں کے ساتھ تھے؟ یا دہائیوں کی تاریکی مسلط کر دینے والوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے تھے۔
ان سارے دلائل کے باوجود اس ملک میں ایک طبقہ ہے جو بالکل بھی نظریاتی طور پر منقسم نہیں ہے۔ یہ طبقہ اس ملک کے مفلوک الحال عوام کا طبقہ ہے۔ان کے ہاں نواز شریف کے بیانیے کے لئے صرف اور صرف اثبات ہی موجود ہے۔ اکیس کروڑ لوگوں پر مشتمل اس طبقے کی آواز دبانے کے لئے ماضی میں کیا کیا جتن نہیں کئے گئے۔ کبھی ان کے منتخب نمائندوں کو پھانسی دے دی گئی کبھی ان کے رہنماوں کو غدار قرار دے دیا گیا۔کبھی ان کا ہیرو سولی پر لٹک گیا کبھی انکا لیڈر جلا وطن کر دیا گیا۔ کبھی کسی کو چوک میں گولی مار دی گئی اور کبھی کسی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔نواز شریف کا موجودہ بیانیہ ان اکیس کروڑکے لئے جادوئی اثر رکھتا ہے۔ ان لوگوں کو پہلی بار احساس ہو رہا ہے کہ ان کے وجود کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ان کی تعداد کے بھی کچھ معنی ہیں۔نواز شریف نے ان اکیس کروڑ لوگوں کو ان کے ہونے کا احساس دلا یا ہے۔ اس بات میں کوئی باک نہیں ہے کہ لوگوں نے نواز شریف کے بیانیے پر پوری شدت سے لبیک کہا ہے۔جو سفر جی روڈ سے شروع ہوا ہے اسکے اثرات لودھراں تک دیکھے گئے ہیں۔ اس سے پہلے صرف ایک دفعہ پاکستان کی تاریخ میں لوگوں کی سوچ کو فتح نصیب ہوئی تھی۔ یہ وکلا تحریک کا زمانہ تھا۔ ایک ڈکٹیٹر نے ایک چیف جسٹس کوکھڑے کھڑے برخاست کر دیا تھا۔ وکلاتحریک میں عوام ڈکٹیٹر کے بیانیے کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔ ڈنڈے کھائے ، گولیوں سے جسم چھلنی کروائے مگر اپنی بات پر قائم رہے۔ دبائو اتنا بڑھا کہ ناچاہتے ہوئے بھی جنرل کیانی کو دو ہنگامی میٹنگز آصف زرداری سے کرنا پڑیں اور نواز شریف کا قافلہ گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے پہلے ہی افتخار چوہدری کی بحالی کا پروانہ سامنے آگیا۔ اس بحالی میں سارا کریڈٹ اس ملک کے عوام کو جاتا ہے۔
2018 کے عام انتخابات کا موقع بھی دور نہیں ہے۔اس موقع پر عوام نے اپنی رائے کا ا ظہار کرنا ہے۔ عوام کیا سوچ رہے ہیں کیا چاہ رہے ہیں اس کا اظہار ہر ضمنی انتخاب میں ہو چکا ہے۔ نواز شریف کے جلسوں میں عوام کی بڑھتی تعداد ایک طرح کا ریفرنڈم ہے جو نوشتہ دیوار بن کر سامنے آ چکا ہے۔ غیر جمہوری قوتیں پوری شدت سے اس منظرنامے کو بدلنے کے درپے ہیں۔ لیکن اکیس کروڑ لوگوں کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔ اکیس کروڑ لوگوں کو سینیٹ الیکشن کی طرح خریدا نہیں جا سکتا ۔ اکیس کروڑ لوگوں کی سوچ کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ اس دفعہ کے عام ا نتخابات میں اگر غیر جمہوری قوتوں نے اپنا کھیل کھیلنے کی کوشش کی، تو نتائج بہت الم ناک ہوں گے۔ اب اکیس کروڑ لوگوں کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ پاکستان کو مثبت سمت میں آگے بڑھانے کا واحد طریقہ یہی ہے ووٹ کو عزت دو۔ عوام جانتے ہیں یہی راستہ ہے اور یہی منزل ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین