• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغان صدرڈاکٹر اشرف غنی کی دعوت پرگزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان کے دورہ کابل میں دونوں جانب سے جن پرتپاک رویوں کا مظاہرہ ہوا، جس حقیقت پسندی اور کشادہ دلی کے ساتھ تمام متعلقہ مسائل اور معاملات پر بات چیت ہوئی اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو افہام و تفہیم کے جس مخلصانہ جذبے سے سنا اور سمجھا گیابلاشبہ اس نے خطے میں امن اور ترقی کے امکانات کو روشن کردیا ہے بشرطیکہ اب دونوں برادر ملک اپنے درمیان غلط فہمیوںاور بدگمانیوں کو حائل نہ ہونے دیں ، اپنے معاملات میں بیرونی قوتوں کو دخل اندازی کا موقع دینے کے بجائے براہ راست رابطوں کو مضبوط کریں اور اپنے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لیے باہمی تعاون کا راستہ اپنائیں۔پاکستانی وفد میں وزیر خارجہ خواجہ آصف، وزیر داخلہ احسن اقبال، گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا اور مشیر قومی سلامی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ کی شمولیت سے دورے کی ہمہ گیری اور اہمیت واضح ہے ۔ وزیر اعظم عباسی اور صدر غنی نے براہ راست ملاقات میں پاک افغان تعلقات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جس میں افغانستان میں امن و مفاہمت، انسداد دہشت گردی، افغان مہاجرین کی واپسی، دوطرفہ تجارت اور علاقائی روابط کے امور شامل تھے۔دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ امن اور یکجہتی کے لیے افغانستان پاکستان ایکشن پلان دوطرفہ دلچسپی کے تمام مسائل کے حل کے کارآمد فریم ورک فراہم کرتا ہے، ساتھ ہی ایکشن پلان کے تحت پانچ ورکنگ گروپوں کو فعال کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔دونوں رہنماؤں نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ امن کی اس پیشکش کا مثبت جواب دیں۔ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور سیاسی حل ہی آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے۔دونوں رہنماؤں نے اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف غیر ریاستی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دینے پر اتفاق کیا ۔انہوں نے دوطرفہ اور راہداری تجارت کے تمام مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کرنے اور سیاست کو اقتصادی تعلقات پر اثرانداز نہ ہونے دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے بھی مذاکرات کیے۔انہوں نے افغانستان کے عوام کے لیے چالیس ہزار ٹن گندم بطور تحفہ دینے اور افغان مصنوعات پر عائد اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی بھی صفر کرنے کا اعلان کیا۔ افغان حکومت کے ذمہ داروں کے علاوہ حزب وحدت کے رہنما استاد محمد محقق، حزب اسلامی کے قائد گلبدین حکمت یار اور استاد محمد کریم خلیلی سمیت مختلف افغان رہنماؤں نے بھی وزیر اعظم سے ملاقاتیں کی۔ان تفصیلات سے عیاں ہے کہ تجربات نے افغان قیادت کو پاکستان کے اس موقف سے ہم آہنگ کردیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا نفع نقصان ایک ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام جغرافیائی طور پر ہی ایک دوسرے سے منسلک نہیں بلکہ عقائد ، تاریخ، تہذیب ، زبان، ادب اور ثقافت کے صدیوں قدیم ناقابل شکست رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ سات سمندر پار سے آنے والی طاقتیں ہمارے مسائل کو الجھا تو سکتی ہیں سلجھا نہیں کرسکتیں۔ ان کے مفادات کے ایجنڈے کا آلہ کار بننے کے بجائے پاکستان اور افغانستان کو ماضی کی طرح مستحکم اور خوشگوار باہمی روابط کے ذریعے اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے۔ صدر ٹرمپ کی فوجی حل پر مبنی نئی افغان پالیسی کی ناکامی پوری طرح واضح ہوگئی ہے۔بھائیوں کو لڑاکر تماشا دیکھنے والی عیارانہ بھارتی قیادت کی حقیقت بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لہٰذا پاکستان اور افغانستان دونوں کو اب مستقل طور پر باہمی دوستی کو اپنی قومی پالیسی قرار دیناچاہیے جس میں حکومتوں کے آنے جانے سے کوئی فرق نہ پڑے ، مزاحمتی تحریک کی قیادتوں کو بھی امن بات چیت کی پیش کش کا مثبت جواب دینا چاہیے اورحکومتوں کی جانب سے ان کے خدشات و شبہات کا قابل اعتماد طور پر ازالہ کرنا چاہئے، یہی وہ راستہ ہے جسے اپنا کر پورے خطے سے دہشت گردی کے مستقل خاتمے اور پائیدار ترقی و خوشحالی کی راہیں کھولی جاسکتی ہیں۔

تازہ ترین