• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت کرنے کہاں دی جاتی ہے

کسی ڈرائنگ روم میں۔ کسی شادی غمی میں جب پاکستانی اکٹھے ہوتے ہیں تو گفتگو کی تان سیاسی معاملات پر ہی ٹوٹتی ہے۔ کچھ منتخب سیاسی حکومتوں کے حامی ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے ان بے چاروں کو حکومت کرنے کہاں دی جاتی ہے۔ کبھی فوج کی طرف سے مداخلت۔ کبھی عدلیہ کی جانب سے۔ کسی کو میعاد پوری کرنے نہیں دی جاتی یہ باتیں تو سالہا سال سے کی جارہی ہیں۔ اب اسے تقویت پہنچ رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز صاحبہ کے بیانیوں سے۔ وزیراعظم۔ وزراء۔ ن لیگ کے رہنما۔ پھر سب کو رس میں یہی گانے لگتے ہیں۔
لائبریریوں میں سجی کتابیں۔ میری یادوں میں آویزاں سیاسی اور فوجی ادوار میرے کان میں سوال کرتے ہیں۔ ان سے یہ تو پوچھو کہ انہیں حکومت کرنی آتی بھی ہے۔ ان میں سے کسی کو یہ احساس ہے کہ 20 کروڑ جیتے جاگتے انسانوں۔ ایسی خوبصورت سرزمین۔ وسائل سے مالا مال ملک کی باگ ڈور جب آپ کے ہاتھ میں آتی ہے تو کتنی نازک اور مشکل ذمّہ داری آ پ پر عائد ہوجاتی ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ایک چھوٹے سے منصوبے۔ بزنس کے لئے تو آپ تربیتی کورس کرتے ہیں۔ تجربہ کار اسٹاف تلاش کرتے ہیں۔ لیکن اس اتنے بڑے ملک اور 20 کروڑ زندگیوں کو سنبھالنے کے لئے آپ اپنے بھائیوں۔ بھتیجوں۔ بیٹیوں۔ بیٹوں۔ دامادوں اور لنگوٹیوں کو کلیدی عہدے دے دیتے ہیں۔ پہلے سے ملک کی خدمت کرتے ایماندار۔ تجربہ کار سرکاری افسروں کو کونوں کھدروں میں بٹھا دیتے ہیں۔ اپنے حاشیہ برداروں کو پی آئی اے۔ اسٹیل مل۔ اسٹیٹ بینک ۔ نیشنل بینک اور کارپوریشنیں دے دیتے ہیں۔ اس طرح تو ایک بڑی آبادی۔ بے حساب وسائل اور ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کی سرکار نہیں چل سکتی۔
تاریخ بار بار ہمیں جھنجوڑتی ہے۔ بیدار کرتی ہے۔ فوج کی مداخلت تو 1954ء سے خود سیاستدانوں کی طرف سے دی گئی دعوتِ گناہ پر شروع ہوئی تھی۔فوج نے تو اس مداخلت کے لئے تربیت بھی حاصل کی اور ہر بار نیا انداز اختیار کیا۔ آخری بار انہوں نے اسے مارشل لا بھی نہیں کہا۔ فوجی سربراہ نے اپنے آپ کو چیف ایگزیکٹو کہا۔ لیکن کیا سیاستدانوں نے بار بار کی مداخلتوں سے کوئی سبق سیکھا۔ اکیسویں صدی ہے۔ دنیا میں بے شمار حکومتی تجربے ہوچکے ہیں۔ نئی نئی انتظامی اصطلاحات آچکی ہیں۔ بے حساب تحقیق ہوچکی ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں کو بھی اس صورت حال سے نمٹنے کا کوئی گر سیکھ لینا چاہیے تھا۔ بیانیوں۔ جلسوں اور تقریروں سے تو آپ ایک منظم۔ منضبط اور پورے ملک میں اپنا وجود رکھنے والی مضبوط طاقت کو زیر نہیں کرسکتے۔ ایسی تبدیلیاں غیر محسوس انداز سے آہستہ آہستہ لائی جاتی ہیں۔ فوج بھی اپنی ہے۔ بیورو کریسی بھی۔ عوام میں سے ہی یہ کسی کے بیٹے بھائی۔ رشتے دار ہیں۔ باہر سے مسلط نہیں کیے گئے۔ جب بھی مداخلت ہوئی ہے اس کے ٹھوس اسباب موجود رہے ہیں۔ سیاستدانوں میں سے کچھ نے اس کے لئے درپردہ کوششیں کی ہیں اور سرعام اس کا خیر مقدم بھی کیا ہے۔
یہ سوچئے کہ حکومت کرنے سے کیا مراد ہے۔ معاشرے ریاست سے کیا معاہدے کرتے ہیں۔ ریاست انسانوں سے ٹیکس کیوں وصول کرتی ہے۔ زندگی کو آسان کرنے کے راستے کیا کیا ہیں۔ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے۔ وہ حکومتی فیصلے کیوں تسلیم کرتا ہے کہ اس کے جان و مال کا تحفظ ہو۔ تعلیم میسر ہو۔ علاج معالجے کی سہولتیں۔ ٹرانسپورٹ۔ پینے کا صاف پانی۔ خالص خوراک۔ ملنے جلنے کی آزادی۔ اب تو ہمارے پاس دو تین صدیوں کی مثالیں۔ تجربے موجود ہیں۔ ان تمام شعبوں کے ماہرین بھی دستیاب ہیں۔
کوئی بھی سیاسی جماعت جب اقتدار کی آرزو کرتی ہے تو کیا وہ اس وقت کی صورتِ حال کے مطابق موجودہ اعداد و شمار۔ کوائف حاصل کرتی ہے۔ پھر مستقبل کی پیش بندی کرتی ہے۔ کیا ملکی مسائل حل کرنے کے لئے اس کے پاس مطلوبہ کیڈر ہوتا ہے۔ کیا کوئی ایم پی اے۔ ایم این اے ان ذمّہ داریوں کے لئے تربیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
حکومت کا شوق ہے تو حکومت کرنی آنی بھی چاہیے۔ واقعات تو یہ بتاتے ہیں کہ پارٹی سربراہ خود کو عقل کُل سمجھتا ہے۔ داخلہ امور ہو یا خارجہ۔ تجارت ہو یا تعلیم۔ ایٹمی معاملات ہوں یا ٹیکنالوجی۔ وہ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی ان سب کا ماہر ہوجاتا ہے۔ وزارت اطلاعات کا حلف اٹھانے والا اسی شام تجربہ کار۔ سینئر ایڈیٹرز۔ صحافیوں کو یہ بتانے لگتا ہے کہ صحافت ہوتی کیا ہے۔ جس وزیر تعلیم نے میٹرک بھی نہ کیا ہو۔ وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ کو اعلیٰ تعلیم پر لیکچر دینے لگتا ہے۔
وزیراعظم یا وزراء کا سب سے زیادہ شوق ہوتا ہے صوابدیدی اختیارات استعمال کرنا۔ ان کو ان کے سیکرٹری وغیرہ بتاتے ہیں بس لکھ دیں۔ with relaxation of rules۔ آگے اپنا من مرضی کا حکم لکھ دیں۔
سب کو سلطانیٔ جمہور کا دعویٰ ہے مگر
اختیارات با انداز شہی مانگتے ہیں
دوسری طرف دیکھئے آپ جسے اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیںاس میں سول بیورو کریسی اور ملٹری بیورو کریسی دونوں شامل ہیں۔ اب عدلیہ بھی۔ ان سب کو کئی کئی سال کی تربیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ بیورو کریسی کے لئے سول سروس اکیڈمی ہے۔ فوج کے لئے نیشنل ڈیفنس کالج یا اب نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی۔ عدلیہ کے لئے جوڈیشل اکیڈمی اور جو ملک چلانے کے اصل ذمّہ دار ہیں۔ سیاستدان۔ انہوں نے اپنی تربیت کے لئے ایسا کوئی ادارہ قائم نہیں کیا۔ پہلے سیاسی جماعتوں کے اپنے اسٹڈی سرکل ہوتے تھے۔ پارٹی کی متعلقہ شعبوں کی کمیٹیاں ہوتی ہیں۔ جن میں ان شعبوں کے ماہرین مامور ہوتے ہیں۔ وہ وزارتوں کے لئے باقاعدہ پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ وزیروں اور ارکان اسمبلی کو متعلقہ امور پر لیکچر دیتے ہیں۔ مگر اب ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ مان لینا چاہیے کہ یہ ایک انتظامی خلاہے وقت کے ساتھ ساتھ یہ خلافوج نے پُر کیا ہے۔ 1988ء کے بعد انتقالِ اقتدار نہیں ہوتا شراکت اقتدار ہے۔ اسے ہر منتخب حکمران قبول کرتا آرہا ہے۔ کوئی بھی حلف اٹھانے سے پہلے یہ نہیں کہتا کہ پہلے مکمل اقتدار دو۔ پھر میں یہ ذمّہ داری سنبھالوں گا۔ یہ نوٹ کرلیں کہ 1988ء کے بعد ہر وزیراعظم نے حلف اٹھانے سے پہلے آرمی چیف سے ملاقات ضرور کی ہے۔ خارجہ پالیسی اور سیکورٹی کے شعبے اسٹیبلشمنٹ اپنے پاس رکھتی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ منتخب نمائندوں کو وہ اس کا اہل نہیں سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ماضی کے تجربات اس عدم اعتماد کو تقویت پہنچاتے ہیں۔
18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی خودمختاری کا نعرہ تو مرحوم ہوگیا لیکن کیا صوبائی حکمرانوں کو اپنے اختیارات کے استعمال کی تربیت ہے۔ بہت سے اختیارات ان کے پاس ہیں لیکن انہیں خبر ہی نہیں کہ کیا کرنا ہے اس لئے مرکز پر الزامات کے بیانیے چلتے رہتے ہیں۔ اربوں کے فنڈز بغیر استعمال کیے واپس ہوجاتے ہیں۔
20  کروڑ انسان ووٹ دیتے وقت بھی سانس لے رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی روٹی، کپڑا، مکان، اچھا علاج ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ووٹ لینے والا تخت سنبھال لیتا ہے۔ اس کے بعد بھی یہ 20 کروڑ زندہ ہوتے ہیں۔ زندگی کی تمام ضروریات انہیں درکار ہوتی ہیں۔ ضرورت یہی ہے کہ سیاستدان بیانیوں۔ کوسنوں طعنوں کی بجائے آئین کے تحت ایک سسٹم تشکیل دیں۔ اس کے لئے خود کو کارکنوں کو تربیت دیں۔ کلیدی عہدے دوست احباب کو دینے کی بجائے ان کے ماہرین کو دیں۔ جس طرح آپ توقع کرتے ہیں کہ فوج اور عدلیہ آپ کو اپنا کام کرنے دے۔ اسی طرح آپ اپنے اندر بھی یہ برداشت پیدا کریں کہ سیکرٹریوں۔ کارپوریشنوں کے سربراہوں۔ پولیس والوں۔ ضلعی حکام۔ بلدیاتی اداروں کو بھی اپنا کام کرنے دیں۔ آپ ان کے امور میں مداخلت نہ کریں۔ ملک ٹھیک چل رہا ہوگا تو کوئی آپ کے کام میں بھی مداخلت نہیں کرے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین