• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا بھی کیا مقدر ہے

’’اگر بیماری سے تندرست ہونا تمہاری تقدیر میں لکھا ہے تو پھر بھلے تم کسی طبیب سے علاج کرواؤ یا نہ کرواؤ تم صحت مند ہو جاؤ گے، اور اگر بیماری سے تندرست ہونا تمہارے مقدر میں نہیں تو پھر طبیب کے پاس جانے نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ تم ٹھیک نہیں ہو پاؤ گے، سو اگر تمہاری تقدیر میں بیماری سے شفایاب ہونا لکھا ہے یا تمہاری تقدیر میں بیمار رہنا لکھا ہے، ہر دو صورتوں میں طبیب کے پاس جانا بیکار ہے۔‘‘ ارسطو، 384تا 322قبل مسیح۔
تقدیر کیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب انسان ہزاروں برس سے تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ارسطو نے یہ کوشش اڑھائی ہزار سال پہلے کی، اس کا کہنا تھا کہ انسان مجبور ہے، جو کچھ اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے اسے بدلا نہیں جا سکتا، اگر کسی انسان کی موت چالیس برس کی عمر میں ہارٹ اٹیک سے لکھی ہے تو وہ چالیس برس کی عمر میں دل کے دورے سے ہی مرے گا چاہے وہ سگریٹ سے دور رہے، روزانہ تین میل جاگنگ کرے اور ڈاکٹروں کے بتائے ہوئے تمام زریں اصولوں پر عمل کرے۔ لیکن بات اتنی سادہ نہیں، اگر موت کا ایک دن معین ہے اور کسی بھی قسم کے پرہیز، علاج، ورزش سے اسے ٹالا نہیں جا سکتا تو پھر تمام اسپتال بند کر دینے چاہئیں، طب کی تعلیم ختم کر دینی چاہئے اور ادویات کی فیکٹریوں کو تالا لگا دینا چاہئے..... مگر دنیا میں کوئی بھی شخص ان باتوں کے حق میں نہیں، حتّیٰ کہ وہ بھی نہیں جو تقدیر پر اندھا اعتقاد رکھتے ہیں۔ ہم سب لوگ سر درد کی صورت میں فورا ً دوا لیتے ہیں، بخار کی علامات نظر آنے پر ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں اور خدانخواستہ کسی موذی مرض کا شکار ہوجائیں تو خود کو کسی جراح کے سپرد کرنے پر بھی بخوشی رضامند ہو جاتے ہیں تاکہ بیماری سے نجات مل جائے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ تقدیر نام کی کوئی چیز نہیں اور انسان اپنی مرضی کا مالک ہے اور کیا سائنسی ترقی نے انسانی آزادی کی حدود وسیع کر دی ہیں؟
ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لئے لاہور کی اُس بیکری میں چلتے ہیں جہاں چند روز قبل آگ لگنے سے پانچ کاریگر جھلس کر ہلاک ہو گئے تھے، کیا یہ لوگ چھوٹے چھوٹے شہروں سے لاہور میں روزگار کی تلاش میں اس لئے آئے تھے کہ اِن کی قسمت میں کسی بیکری میں جل کر مرنا لکھا تھا؟ چند سال پہلے کراچی میں فسادات کے نتیجے میں ایک غیرملکی ریستوران کو آگ لگا دی گئی، اس ریستوران میں کام کرنے والے آٹھ نوجوان اندر ہی جل کر بھسم ہو گئے، کیا اُن کی تقدیر میں ایسی موت لکھی تھی؟ پانچ برس قبل شیخوپورہ کے نزدیک ریل کی پٹڑی پار کرتے ہوئے ایک رکشہ پھنس گیا جس میں عورتیں اور بچے سوار تھے، تیز رفتار ٹرین نے سب کو کچل دیا، موقع پر بارہ افراد ہلاک ہو گئے جن میں سے دو بچے تھے، کیا اُن کی قسمت میں یہ لکھا تھا کہ وہ کسی رکشہ ڈرائیور کی غلطی سے ٹرین کے نیچے آ کر مر جائیں گے؟ چند روز قبل افغانستان کے علاقے قندوز میں افغان فوج نے ایک مدرسے پر بمباری کی، جہاں قران پاک پڑھتے ہوئے درجنوں معصوم بچے جاں بحق ہوگئے، یہ بچے کس قانون قدرت کے تحت لقمہ اجل بنے، کیا کوئی بتا سکتا ہے؟
دراصل ہر واقعہ کسی دوسرے واقعے کی کڑی ہوتا ہے، اور وہ دوسرا واقعہ کسی تیسری بات سے جڑا ہوتا ہے اور وہ تیسری بات کسی چوتھی چیز کی وجہ سے وجود میں آتی ہے، فلسفی اسے علت و معلول کا سلسلہ کہتے ہیں۔ اس کی مثال سائیکل کے پیڈل کے ساتھ لگی دو گراریوں کی طرح ہے، یہ دو گراریاں ایک چین کے ذریعے گھومتی ہیں، جب پیڈل پر قوت لگائی جاتی ہے تو دونوں گراریوں کے دندانے جن پر چین چڑھی ہوتی ہے ایک دوسرے میں پیوست ہو کر متضاد سمت میں گھومنے لگتے ہیں، اگر ان کے ساتھ تیسری گراری بھی جوڑ دی جائے تو وہ بھی اس وقت گھومنا شروع کردے گی جب پہلی گراری حرکت میں آئے گی، یوں تیسری گراری کو یہ ’’علم نہیں ہوگا‘‘ کہ دراصل وہ دوسری گراری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے آگے لگی ہوئی پہلی گراری کے حرکت میں آنے کی وجہ سے گھو م رہی ہے اور یوں ایک سلسلہ وار ردعمل شروع ہو جائے گا جس میں آخر پہ جڑی گراری پہلے نمبر والی گراری کی حرکت کی وجہ سے گھومے گی۔ یہی ہماری زندگیوں میں ناسمجھ میں آنے والے واقعات کی توجیہ ہے ۔لاہور کی بیکری میں آگ لگی، آگ پر قابو اس لئے نہ پایا جاسکا کہ فائر کنٹرول کے انتظامات ناقص تھے، انتظامات اس لئے ناقص تھے کہ انتظامیہ اس بابت دکانداروں سے باز پرس نہیں کرتی، انتظامیہ اس لئے باز پرس نہیں کرتی کیونکہ اس ڈیوٹی پر مامور اہلکار نالائق ہیں، وہ اس لئے نالائق ہیں کہ اُن کی تنخواہ اُن کی کارکردگی سے مشروط نہیں..... یوں اہلکاروں کی نالائقی والی گراری گھومی جس نے بیکری والی آخری گراری کو حرکت کرنے پر مجبور کیا اور یوں پانچ جانیں چلی گئیں اور ہم نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ بیچاروں کی قسمت میں یہی لکھا تھا۔ افغانستان، شام، فلسطین اور کشمیر میں بے گناہوں کے خون کے پیچھے بھی یہی سلسلہ وار رد عمل ہے، آپ کہیں سے بھی شروع کر لیں اور واقعات کا سلسلہ پیچھے کی طرف جوڑنا شروع کریں لا محالہ ایک chain reactionتک پہنچ جائیں گے ۔
اب سوال اس قوت کا ہے جو کائنات کے پیڈل پر لگائی جاتی ہے اور جس کی وجہ سے کائنات کی گراریاں گھومتی ہیں۔ یہ قوت کب اور کتنی لگی، کوئی نہیں جانتا۔ لیکن اس قوت کے نتیجے میں ہی تمام واقعات عمل میں آتے ہیں، ایک دوسرے سے جڑی ہوئی گراریوں کا لامتناہی سلسلہ گھومنے لگتا ہے، اور انسان کی سوچ چونکہ اُس گراری تک نہیں پہنچ پاتی جس پر قوت لگی ہے سو لامحالہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ اُس کے ساتھ زندگی میں ظلم کیوں ہوا یا کسی دوسرے پر خواہ مخواہ ہُن کیوں برسنے لگا۔ اسی کو ہم مقدر کہتے ہیں ۔مگر انسان بظاہر ایسا مجبور بھی نظر نہیں آتا کہ اُس پر ظلم ہو تو وہ سہتا رہے، بھلے وہ ظلم اس کی قسمت میں کسی ان دیکھے واقعے کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔سو ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں لوگ مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، جدوجہد کرتے ہیں، ان کی جدوجہد کامیاب بھی ہوتی ہے، بعض اوقات عظیم لوگ تاریخ کا رُخ بھی موڑدیتے ہیں۔ اسی طرح ترقی یافتہ ممالک میں بھی عمارتوں میں آگ لگنے کے واقعات ہوتے ہیں مگر حفاظتی اقدامات کی بدولت وہاں انسانی جانیں بچا لی جاتی ہیں، وہاں رکشے ریلوے لائنوں میں پھنس کر ٹرین سے نہیں ٹکراتے، وہاں گیس سلنڈر کے دھماکے سے بے گناہ لوگوں کے مارے جانے کو کوئی تصور نہیں۔ انسان اگر مقدر کے ہاتھوں اتنا ہی مجبور ہوتا تو پیدائش کے وقت مرنے والے بچوں کی تعداد پاکستان اور ناروے میں برابر ہوتی مگر ایسا نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے تقدیر کے اِس بھیانک پہلو پر انسان نے ترقی یافتہ ممالک میں توقابو پا لیا ہے، مگر نحوست صرف غریب ممالک کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے۔
کالم کی دُم:تقدیرکے اس گمبھیر مسئلے پر اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا تھا کہ نیورو سائنس کے مطابق ہمارا دماغ، جو اُن سائنسی اصولوں کے تحت کام کرتا ہے جنہیں ہم جانتے ہیں، ہمارے اعمال کا تعین کرتا ہے نہ کہ کوئی بیرونی قوت جو سائنسی قوانین کے تابع نہیں، ایسے میں انسان محض حیاتیاتی مشین سے زیادہ کچھ نہیں جس کی اپنی کوئی آزادی نہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ کی اب تک عالم ارواح میں فرشتوں سے ملاقات ہوگئی ہو گی، اس ملاقات میں کیا ہوا ہوگا، یہ احوال پھر کبھی، فی الحال ہاکنگ منکر نکیر سے صرف یہی کہہ سکتا ہے کہ میں تو محض ایک مشین تھا، کوئی خودمختاری دی ہوتی تو میں کچھ حساب بھی رکھتا!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین