• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متاعِ لوح و قلم چھینے جانے پہ تو اب آہ و بکا کی آزادی بھی نہیں رہی تو خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر کہیں دبک جائیں یا پھر نوحہ کناں ہوں؟ بھلا اظہار نہ ہو تو انسان کیسا اور جمہوریہ کیسی؟ صدیاں لگی ہیں حقِ اظہار حاصل کرنے کو۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلان نامے میں حقِ اظہار تمام بنیادی حقوق میں سرفہرست ہے۔ اکیسویں صدی کی دو دہائیوں کے اطلاعاتی انقلاب نے تو حقِ اظہار اور حقِ جانکاری کو وہ زقندیں لگائی ہیں کہ حدود و قیود کی تمام دیواریں مسمار ہو گئی ہیں۔ ایسے میں دیدہ و نادیدہ قدغنیں لگائی جائیں گی تو ذرائع ابلاغ کے نت نئے ان گنت راستے ہیں جن کے سامنے یہ ٹھہرنے سے رہیں۔ اب تو پرنٹ اور ٹیلی وژن کے ذرائع ابلاغ سے معاملہ کہیں آگے جا پہنچا اور کوئی بات کہے بنا رہ سکتی ہے نہ لوگوں تک پہنچنے سے روکی جا سکتی ہے۔ ہم کیسے ہی ناک بھوں چڑھائیں، کیسے ہی فتوے جاری کریں، کیسے ہی حربے استعمال کریں، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پہ مچی دھوم کو روکنے کے لئے پرانے سماج اور پرانی قوتیں تلملانے کے سوا کیا کر سکتی ہیں۔ ہاں! اس سے انکار نہیں کہ سوشل میڈیا کے بڑے پلیٹ فارم اطلاعات کے خزانوں کو کس طرح لوگوں کی ترغیبات، میلانات اور چناؤ کو متاثر کرتے ہیں اور مخصوص مفادات کے لئے استعمال بھی کرتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کہ کس طرح عوام سوشل میڈیا کے ذریعے دنوں میں تاریخ ساز تحریکیں پیدا کر سکتے ہیں۔ ہر ایجاد کا اچھا استعمال بھی ہو سکتا ہے، بُرا بھی۔ کیا غلط ہے کیا صحیح اس کا فیصلہ تو تاریخی مجادلے ہی کر سکتے ہیں۔
سائنسی و اطلاعاتی انقلاب ایک نئی دُنیا استوار کر رہے ہیں۔ کوئی پیچھے رہنے پہ اصرار کرے گا تو پچھڑ جائے گا، خواہ وہ سپرپاور امریکہ کا ہونق صدر ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن، اس نئی بدلتی دُنیا میں بھی پرانے دقیانوسی زمانے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور اُن کے پرانے کل پرزے اپنی بساط کھو کر بھی جاہلانہ کروفر پہ ڈٹے رہیں تو المیے کے سوا اُن کا کیا مقدر ہو سکتا ہے۔ اذہان کو کھولنے اور دلوں کو فراخ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کہے بنا ہم رہ نہیں سکتے، بھلے آپ کو کیسے ہی لگے۔ یقیناًردّعمل کی قوتیں بھنائی ہوئی ہیں اور پرانی سماجی بنتر کی ٹوٹ پھوٹ سے پیدا ہوئی سراسیمگی کو اپنی عارضی بقا کے لئے استعمال کر رہی ہیں، لیکن تاریخ کا عالمی سفر رُکنے والا نہیں، خواہ مذہبی و قومی اور نسلیاتی تعصبات کتنا ہی تعفن پھیلائیں۔ تاریخ کا پہیہ پیچھے گھمانے والے جغادری کیسے ہی جتن کریں، اطلاعاتی انقلاب کی گاڑی رُکنے والی نہیں۔ بدقسمتی سے دُنیا بھر میں اسلحے کی دوڑ اور عسکری کاروبار اتنا منفعت بخش ہے کہ اس کے فروغ کے لئے نت نئے جنگی نظریے گھڑے جاتے ہیں اور ہم سے زیادہ ان کا خریدار کون ہو سکتا ہے۔ آج کل پانچویں پیڑھی کی جنگ (Fifth Generation Warfare) کا بڑا غلغلہ ہے کہ ہم جنگی ریاست (Warrior State) ٹھہرے۔ جب ذہن ہی عسکریت پسند ہو جائیں تو اس کے سوا کوئی کیا سوچ سکتا ہے۔ خواہ انسانی سلامتی، ماحولیاتی سلامتی، فکری توانائی، معلوماتی بالیدگی اور جمہوری کثرت بھاڑ میں جائے۔
لے دے کے سوال پھر یہی اُٹھتا ہے کہ ہمارا اپنا وطن اور ہماری اپنی مملکت کیسی ہو؟ حقِ خود ارادیت کے جمہوری اظہار سے حاصل کردہ مملکت (Nationhood) جمہوری راہ سے بھٹک کر عسکریت پسندی (Militarism) کے ہاتھوں دو لخت ہوئی اور عسکری مہم جوئی ہے کہ ختم ہونے کو نہیں اور عسکریت پسندی کا پیٹ بھرنے کو نہیں۔ تین چوتھائی آبادی تو گھاس پھونس کھانے پہ پہلے ہی مجبور ہے۔ اب بھی کیا کوئی کسر باقی ہے۔ کوئی شعبہ ہے جو بچا ہو اور قبضہ گیری ہے کہ ختم ہونے کو نہیں۔ اب طاقت ور مقتدرہ کو کوئی بتانے کی کیسے جرأت کرے جب ’’جبری گمشدگی‘‘ کے فرشتے ہر جگہ تاک میں ہوں۔ ریاست نے خود جنگجوؤں کے لشکر تیار کیے اور جب وہ خالقوں پہ ہی پلٹ پڑے اور متشدد ذرائع طاقت پر ریاست کی اجارہ داری کو چیلنج ہوا تو ریاست پر بن آئی۔ پھر ریاستی قہر نازل ہوا جو کھڑے رہے، مٹا دئیے گئے، جو رام ہو گئے ان کی خلعتیں بدل دی گئیں کہ جنتا کو قابو رکھ سکیں۔ مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ ریاست کو تشدد پر اجارہ داری اور خود ریاست کا وجود قائم ہی شہریوں کے مابین عمرانی معاہدے پر ہے جو حقِ اظہار اور حقِ حاکمیت کا مرہونِ منت ہے۔ شہری اسلحہ بندی، حقِ بغاوت اور لاقانونیت سے ریاست کے حق میں دستبردار ہوتے ہی اس شرط پر ہیں کہ ریاست اُن کے بنیادی انسانی، شہری اور جمہوری حقوق کا نہ صرف احترام کرے گی بلکہ آئین و قانون پر عمل کر کے اُن کی حفاظت بھی کرے گی۔ جب انتظامیہ کے آہنی بازو (جو ریاست کی ضروری شرط ہیں) شہریوں کے حقوق و آزادیوں بشمول حقِ زندگی اور حقِ اظہار کو روندنے لگیں اور آئینی حدود سے تجاوز کریں تو ریاست اور شہریوں کے مابین عمرانی معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے اور ایسی ریاستیں لاقانونی ریاستیں (Pariah States) کہلاتی ہیں، جیسے شمالی کوریا اور بہت سے دوسرے ممالک۔ ایسے میں اگر عوام کی منتخب مقننہ اور عدلیہ لاقانونیت کو نہیں روک پاتیں اور جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مصداق جنگل کے قانون کا سکہ چلتا ہے تو پھر دہشت گرد تنظیموں اور بے لگام ریاست میں کیا فرق رہ جاتا ہے اور وہ حدِّ فاصل مٹ جاتی ہے جو ریاست کو دہشت گرد تنظیم سے ممیز کرتی ہے۔
حقِ زندگی ہو یا حقِ اظہار، عوام کا حقِ حکمرانی ہو یا مقتدر منتخب ادارے، آزاد میڈیا ہو یا خود مختار اور منصف عدلیہ، شہری معاشرہ ہو یا پھر سیاسی جماعتیں، سبھی جدید قومی ریاستوں کے ضروری اجزائے ترکیبی ہیں۔ ان اجزا کو تلپٹ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ نے مملکت کو پلٹ دیا اور عمرانی معاہدے کو توڑ دیا۔ پے در پے مارشل لاؤں سے سبق سیکھنے کو بہت کچھ ہے اگر کوئی سیکھنے والا ہو۔ اور اگر عوام کی جمہوری جدوجہد کے طفیل جو چھوٹی موٹی جمہوریہ بننے کا سلسلہ چلا ہے تو اس پہ سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت۔ جمہوری عمل میں اچھے بُرے سبھی آ جاتے ہیں اور جو عوام لاتے ہیں وہ بُروں کو چلتا بھی کرتے ہیں، بس اک صبرِ عمیم کی ضرورت ہے جو شاید ہمارے ہاں مفقود ہے۔ ایسے میں جب سویلیں ادارے جن میں مقننہ، عدلیہ، سیاسی جماعتیں، شہری تنظیمیں اور میڈیا شامل ہیں باہم دست و گریباں ہو جائیں تو پھر جمہور کی خیر رہتی ہے نہ اُن کے حقِ حکمرانی کی۔ عوام کا حقِ حکمرانی بھی تبھی حقیقت بنتا ہے جب یہ عوام الناس کی صحیح صحیح سماجی و طبقاتی نمائندگی کرے۔ اگر جمہوریہ کے پیچھے پسے ہوئے عوام کھڑے نہیں ہوں گے تو جمہوریہ کے تحلیل ہونے میں کیا دیر لگتی ہے۔ فقط بقول شخصے پانچ منٹ کی تو بات ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھول کر کہ پانچ منٹ میں ریاست بھی خودکش ہو جاتی ہے۔ اور یہ خودکشی ہم بار بار دیکھ چکے ہیں۔
فولادی ڈھانچہ معیشت چلا سکتا ہے نہ مقننہ و عدالت اور نہ سماجی ہماہمی کو بُوجھ سکتا ہے۔ اب اگر یہ شاعری کرنے لگے، دھنیں بنانے لگے، نظریے گھڑنے لگے، اسکول واسپتال چلانے لگے، اسٹیٹ بزنس کرنے لگے، تجارت کرنے لگے، خارجہ و داخلی امور چلانے لگے، عدالت لگانے لگے، احتساب کرنے لگے اور تو اور سیاسی انجینئرنگ اور مثبت نتائج کا بندوبست بھی کرنے لگے تو پھر جمہوریہ کے پلے بچتا کیا ہے؟
اگر فولادی ڈھانچے نے معاشرے کو بھی اپنے رنگ میں ڈھالنا ہے تو اس کے لئے تو اسے فسطائیت کا کوئی ماڈل اپنانا ہوگا اور ایسے مقدس نظریات کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں۔ ابھی تو شہری ’’جبری گمشدگی‘‘ کا شکار ہو رہے ہیں، اور میڈیا کے زیادہ تر حصے یرغمال بننے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں اور جو یرغمالی بننے سے انکار کرے وہ ’’جبری گمشدگی‘‘ کا شکار ہو جاتا ہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ مقننہ، انتخابات، عدلیہ، قومی احتساب بیورو، سیاسی قیادت اور جماعتیں بھی ’’جبری گمشدگان‘‘ میں شامل ہو جائیں۔ لیکن عزت مآب چیف جسٹس میدان میں ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ حقِ زندگی، حقِ اظہار، عوام کے حقِ حکمرانی اور جمہوریہ کو ’’جبری گمشدگی‘‘ سے کیسے بچاتے ہیں۔ یا پھر جمہوری قوتوں کو ’’مثبت نتائج‘‘ والے انتخابات کے بعد پھر سے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے ساتھ ساتھ اپنے حقِ خود مختاری کے لئے بھی لڑنا پڑے گا۔ متاعِ لوح و قلم چھینے جانے پہ تو اب آہ و بکا کی آزادی بھی نہیں رہی تو خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر کہیں دبک جائیں یا پھر نوحہ کناں ہوں؟ بھلا اظہار نہ ہو تو انسان کیسا اور جمہوریہ کیسی؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین