• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست دان کئی قسم کے ہوتے ہیں ،کچھ گاؤ زبانی ہوتے ہیں ان کاتعلق خمیرہ گاؤزبان سے کم اورزبانی جمع خرچ سےزیادہ ہوتا ہے ۔وہ جلسے میں یوں بولتے ہیں جیسے گوبھی کے پھولوں سے ہمکلام ہوں ۔جیسے بھینسوں کے باڑے کے سامنے تقریر جاری ہو ۔پنجابی روزمرہ کے مطابق ان کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے ۔وہ جھوٹ اتنے یقین اور اعتماد سے بولتے ہیں کہ سچ یہ سوچ کر ا پنامنہ اپنے گریبان میں چھپا لیتاہے کہ یہ منہ اور مسور کی دال ۔وہ ہر بات پر مکے لہرا لہرا کرکہتے ہیں اگر یہ غلط ثابت ہوجائے تو میرا نام بدل دینا۔ اگر وہ غلط ثابت ہوجائے تو میرا نام بدل دینا۔انہیں معلوم ہوتاہے کہ نام بدلنا کوئی آسان کام نہیں ۔’نادرا ‘والوں کے کمپیوٹر اتنی آسانی سے اپنا ڈیٹا چینج نہیں کرتے ۔میٹرک اور ایف اے کی اسناد پر نام کی تبدیلی اور بھی مشکل کام ہے ۔نام بدلنے کےلئے عدالت میں بھی جانا پڑتا ہےاور آج کل تو نیب کی عدالتیں ہیں جو انصاف کےلئےبال کی کھال اتار تی ہیں۔ویسےانہیں بند کرنے کےلئے صدارتی آرڈیننس جاری کرانے کی کوششیں جاری و ساری ہیں ۔ اِس سلسلے میں اللہ تعالیٰ اپنا خصوصی کرم فرمائے صدر ممنون حسین پر ،ان دنوں وہ خاصی مشکل میں ہیں ۔
کچھ سیاست دان زعفرانی ہوتے ہیں ان کاتعلق بھی جوارشِ جالینوس )زعفرانی(سے کم اورکشتِ زعفران سے زیادہ ہوتاہے ۔کشتِ زعفران کا مطلب زعفران کی فصل نہیں بلکہ قہقہوں کا کھیت ہے یعنی یہ سیاست دان ہنسنے اور ہنسانے کے ماہر ہوتے ہیں۔لطیفہ گوئی میں طاق ہوتے ہیں۔ جگت بازی میں جواب نہیں رکھتے ۔ سنجیدہ سے سنجیدہ محفل میں بھی ایسی پھلجھڑی چھوڑتے ہیں کہ لوگ ہنس ہنس کرپریشان ہوجاتے ہیں۔یہ سیاست دان آج نیوز چینلزکے پروگراموں میں بہت دکھائی دیتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے اِن کا شمار تھیٹر کے مسخروں میں ہوتا تھامگر آج کل ان کی بہت ’’مانگ ‘‘ہے۔ان دنوں انہی میں سے کچھ مسخرے نگران وزیر بننے کےلئے خوشامدی ہاتھ پائوں پوری طرح ماررہے ہیں ۔ویسے ان کےلئے علیحدہ ’’وزارتِ مسخری ‘‘ بنائی جاسکتی ہے۔ویسے لوگ کہتے ہیں یہ صدی مسخروں کی صدی ہے ۔امریکن صدر کا شمار بھی انہی مسخروں میں ہوتا ہے۔نریندر مودی بھی ایک کینٹین پرکامیڈین ہوا کرتا تھا۔پاکستانی سیاست میں بھی ان کامیڈینز کی کمی کوئی نہیں ۔کئی مزاحیہ اداکار بھی موجود ہیں (سہیل احمد اور امان اللہ سے معذرت کے ساتھ )
سیاست دانوں کی ایک قسم فلاسفہ کی بھی ہے ۔ان کا تعلق ’’معجونِ فلاسفہ‘‘سےزیادہ مضامین ِفلاسفہ سے ہے۔یہ نظریاتی فلاسفرچیزوں کی ماہیت پر غور کرتے ہیں اور ان کے نئے نئے مفاہیم بتاتے ہیں مثال کے طور پر لوڈشیڈنگ کا امکانی شیڈول دیکھتے ہی اِ ن میں سے ایک کل لوگوں کو بتا رہا تھاکہ اس نے اپنے دادا کا قدیم کپڑے کا بنا ہوا پنکھا پرانے سامان سے نکالاہے ۔پھراسی طرح اسے چھت کے ساتھ لٹکا دیاہے اس کے اوپر ریشم سے جو کام ہوا ہواہے۔وہ اتنا خوبصورت ہے کہ جب رسی کے ساتھ اس پنکھےکو کھینچا جاتا ہے۔تو روشنی ریشم کے ساتھ مل کر نئے نئے رنگوں کی قوسِ قزح پیداکرنےلگتی ہے۔روشنی کیلئے پرانا لیمپ نکلوایا ہے یہ میرے پردادا کو ایک انگریز کرنل نے تحفے میں دیا تھا۔اسے میں نے خودبہت اچھی طرح صاف کیا توبراس کا بنا ہوا یہ لیمپ اس طرح چمک اٹھاجیسے ابھی ابھی فیکٹری سے نکل کر آیا ہو۔پرانے زمانے کی چیزیں بھی کیا چیزیں ہوتی تھیں ۔ میں نےاس لیمپ سے شیشے کی چمنی نکال کر جب صاف کی تو وہ ایسے لشکارے ماررہی تھی جیسے کرسٹل کی بنی ہو۔میں تو شام کے وقت کے انتظار میں ہوتا ہوں کہ کس وقت لائٹ جائے اور کس وقت میں اس لیمپ کو جلاؤں ۔یقین کیجئے مجھے اپنے دادا کا وہ الف لیلوی زمانہ یاد آجاتا ہے اورمیں اس کی خوبصورتی اور رعنائی میںکھوجاتا ہوں۔یہ لوگ اپنے آپ کو نظریاتی کہتے ہیں ۔پرانے ’’نظریاتی ‘‘تو خیر دوچار ہی ہیں مگر ایک غیر نظریاتی لیڈر کے یک دم نظریاتی ہونے سے یہ ’’نظریاتی ‘‘ بہت زیادہ پیدا ہو گئے ہیں۔
کچھ مرواریدی سیاست دان ہوتے ہیں۔ان کا تعلق بھی خمیرہ مروارید سے زیادہ چمک دمک کے ساتھ ہوتا ہے۔یہ شیشے پر روشنی ڈالنے کا فن جانتے ہیں ۔یعنی کانچ کے ٹکڑے کو ہیرے میں بدل لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ان کی قسمت موتیوں سے بھری رہتی ہے کبھی کبھی یہ ’’موتیے ‘‘آنکھ میں بھی آجاتے ہیں مگر زیادہ تر باغِ تقدیر میں مویتے کے پھولوں کی طرح لہکتے رہتے ہیں ۔پاس جا کر بھی کوئی اندازہ نہیں کرپاتا کہ یہ پلاسٹک کے نقلی پھول ہیں ۔ان کی قسمت کا اندازہ اسی بات سے لگائیے کہ ہر سال ان کے چار پانچ بانڈ لگ جاتے ہیں ۔دوچار کالونیوں میں آٹھ آٹھ کنال کے پلاٹ نکل آتے ہیں ۔ان کے بارے میں بابا غالب نے جو کچھ کہا تھا بہت غلط کہا تھا۔ بھلا یہ بازی گر کہاں دھوکہ دیتے ہیں ۔دھوکہ تو ہم خود دیکھتی آنکھوں سے کھالیتے ہیں ۔دھوکہ کھانے کا بھی اپنا ایک مزا ہے ۔کہتے ہیں ’’اُس کے اندر کوئی فنکار چھپا بیٹھا ہے ۔۔جانتے بوجھتے جس شخص نے دھوکا کھایا۔ان سیاست دانوںکے متعلق کسی کی ایک آزاد نظم بھی تھوڑی سی یاد آرہی ہے۔زیادہ یاد آگئی تو مسائل پیدا ہوجائیں گے شاعر کہتا ہے
’’پچھلے ساٹھ برس سے اہلِ سیاست
اپنی اپنی سوچ کے نقطے پر
پوچھ رہے ہیں رک رک کر
ناخن پہ کیسے ہاتھی اور مہاوت چلتے ہونگے
کیسے سرکنڈوں کی کچی چھت پراونٹوں کارقص ابھی تک جاری ہے‘‘
یہ تو ذکر سیاست کے اہل ِکشتہ جات کا تھااب کچھ بات تبخیری سیاست دانوں کی ہوجائے ۔یہ لوگ اپنے معدے میں ہر چیز ڈالتے رہتے ہیں ۔معدہ جب تھک جاتا ہے تو تبخیر ہونے لگتی ہے ۔گیس دماغ کی طرف اٹھتی ہے اور طرح طرح کے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں ۔ڈیپریشن ہوجاتا ہے ۔آدمی شیزوفرینک ہونے لگتا ہے ۔وزیر اعظم نہیں ہوتا اور خود کو وزیر اعظم سمجھ رہا ہوتا ہے ۔لاکھ بتانےکے باوجود اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ مجھے کیوں نکالا گیا۔وہ کبھی یہ بھی سوچتا ہےکہ برباد توہو گیا ہوں مگر مزا بہت آیا ہے ۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن مزا لینے والوں سے اِس ملکِ خدا داد کو محفوظ رکھے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین