• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالت عظمیٰ نے ملک کے انتہائی مقبول سیاسی رہنما اور سابق صدر کو کرپشن کے الزام میں سزا سنا دی ہے اور سابق صدر نے اس فیصلے کو سیاسی انتقام پر مبنی فیصلہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد انہیں آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے سے روکنا ہے ۔ پورے ملک میں فیصلے کے خلاف اور فیصلے کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ اس فیصلے کے نتیجے میں سابق صدر نہ صرف کسی بھی سرکاری عہدے کے لئے نااہل ہو سکتے ہیں بلکہ ان کا سیاسی کیریئر ختم ہو سکتا ہے ۔ یہ تازہ ترین واقعہ پاکستان میں نہیں بلکہ لاطینی امریکہ کے ملک برازیل میں رونما ہوا ہے ۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں اس طرح کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں اور آئندہ بھی آتی رہیں گی ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تیسری دنیا کے نوزائیدہ جمہوری ممالک میں نہ صرف سیاسی حرکیات ( پولیٹکل ڈائنامکس ) تبدیل ہو رہی ہیں بلکہ جمہوریت کے لئے شدید خطرات بھی پیدا ہو گئے ہیں ۔ یہاں ایسے سیاسی بحران پیدا ہو سکتے ہیں ، جن سے غیر سیاسی قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں ۔ ایسے حالات پیدا کرنے کے مواقع یقیناََ ان سیاست دانوں نے مہیا کیے ہیں ، جنہوں نے سیاست کو کرپشن یا دولت کمانے کا ذریعہ بنالیا ہے ۔ ایسے سیاست دانوں کی وجہ سے تیسری دنیا میں جمہوریت کے لئے خطرات منڈلا رہے ہیں ۔ اس جمہوریت کے لئے تیسری دنیا کے عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں ۔
برازیل کے سابق صدر لوئز اناشیولولاڈی سوزا کا برازیل کے عوام بہت احترام کرتے تھے ۔ انہوں نے ایک فیکٹری شاپ کے معمولی ملازم کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچے ۔ ان کی بائیں بازو کی ورکرز پارٹی 2003 ء سے 2016 ء تک یعنی 13 سال اقتدار میں رہی ۔ لولاڈی سوزا خود یکم جنوری 2003 ء سے یکم جنوری 2011ء تک دو مدت کے لئے 8 سال صدر کے عہدے پر فائز رہے ۔ لولاڈی سوزا نے نہ صرف اپنے ملک میں ایک مقبول سیاسی رہنما اور سیاسی مدبر کے طور پر اپنے آپ کو منوایا بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر بھی ان کا شمار بلند قامت عالمی رہنماؤں میں ہوتا رہا ۔ لولا ڈی سوزا کا احترام اس لئے بھی کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق محنت کش طبقے سے تھا ۔ انہوں نے غریبوں اور محنت کشوں کے حقوق کے لئے بہت جدوجہد کی ۔ ان کے دور حکومت میں نہ صرف اقتصادی ترقی ہوئی بلکہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے بڑی آبادی کے لئے غربت سے نکلنے کے مواقع پیدا ہوئے ۔ انہوں نے ملک کو سیاسی استحکام بخشا اور ان کی سیاسی جماعت ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اس کی پروردہ سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ایک مضبوط تنظیم تھی ، جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی توازن قائم تھا لیکن غریب اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے نظریاتی سیاسی رہنما لولا ڈی سوزا کے پاس پرتعیش اور مہنگے فلیٹس اور دیگر جائیدادوں کی وجہ سے ان پر انگلیاں اٹھنے لگیں اور پھر جب یہ ثابت ہو گیا کہ انہوں نے برازیل کے دارالحکومت میں اپنے مہنگے فلیٹ کی تزئین و آرائش کیلئے ایک کمپنی سے رقم لی اور اس کمپنی کو سرکاری آئل کمپنی پیٹروبراس ( Petrobras ) میں ٹھیکہ دلوانے میں مدد کی تو برازیل کے لوگ ان کے مخالف ہو گئے ۔ ایک زمانہ تھا ، جب 98 فیصد برازیلی عوام گیلپ سروے میں ان کے حق میں ووٹ دیتے تھے اور آج پولنگ ( سروے ) کرنے والے ادارے ڈیٹا فولہا ( Data Folha ) کے مطابق 53 فیصد برازیلی یہ چاہتے ہیں کہ لولا کو جیل میں بند کر دیا جائے ۔ نہ صرف لولا ڈی سوزا پر کرپشن کا الزام ثابت ہو چکا ہے بلکہ ان کی سیاسی جماعت پر بھی کرپشن اور بے قاعدگیوں کے سنگین الزامات ہیں ۔ لولا ڈی سوزا کی تاریخ ساز عوامی مقبولیت اور ان کی سیاسی جماعت کی عظیم طاقت کرپشن کے الزامات میں ڈوب رہی ہے ۔
اگرچہ لولا ڈی سوزا یہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف عدالت کا فیصلہ سیاسی انتقام پر مبنی ہے ۔ عدالت کا سیاسی ایجنڈا ہے ۔ اس فیصلے سے جمہوریت اور برازیل کو خطرہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے اوپرلگائے گئے الزامات کا عدالت میں دفاع نہیں کر سکے اور وہ ملزم سے مجرم بن گئے ۔ برازیل کے حالات بھی پاکستان جیسے ہیں ۔ برازیل کی آبادی 21 کروڑ سے زیادہ ہے ۔ وہ رقبے کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں اور آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا ملک ہے ۔ برازیل طویل عرصے تک پرتگال کی نو آبادی رہا ۔ پھر وہاں بادشاہت قائم ہوئی ۔ اس کے بعد وہاں فوجی حکومتیں قائم رہیں ۔ 1964 ء سے 1985 ء تک بدترین فوجی آمریت کے دوران برازیلی عوام بدترین ظلم و استبداد کا شکار رہے ۔ جمہوریت کے لئے انہیں بڑی قربانیاں دینا پڑیں ۔ جمہوریت وہاں مستحکم ہوئی تو سیاست دانوں کی کرپشن نے لوگوں کو سیاست اور جمہوریت سے مایوس کر دیا ۔ عدالت میں لولا ڈی سوزا کے کیس کی سماعت کے دوران ایمنسٹی انٹرنیشنل برازیل کے ڈائریکٹر جوریماورنیک ( Jurema Warneck ) نے بیان جاری کیا کہ ’’ یہ بات پریشان کن ہے کہ آرمی کمانڈر بظاہر برازیل کی سپریم کورٹ پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور اسے دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ ‘‘ لیکن فیصلے کے بعد برازیل کی مسلح افواج کے کمانڈر جنرل ایڈورڈو ویلاس بوس ( Gen Eduardo Villas Boas ) نے بیان جاری کیا کہ ’’ فوج کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ اپنے اداراتی مقاصد پر توجہ دے رہی ہے ۔ ‘‘ اب برازیل کے قانون کے مطابق لولا ڈی سوزا کی گرفتاری کا فیصلہ معروف جج سرگیو مورو ( Sergio Moro ) کو کرنا ہے ، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ’’ اینٹی کرپشن ہیرو ہیں لیکن ان پر بھی یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں ۔
سزا یافتہ اور نااہل سابق برازیلی صدر لولاڈی سوزا کا یہ کہنا کہ ان کی سزا اور نااہلی سے برازیل اور جمہوریت کو خطرہ ہے ، ایک سیاسی بیان ہے لیکن میرے خیال میں کسی بھی ملک کی مقبول سیاسی قیادت کے اچانک سیاسی منظر نامے سے ہٹنے اور کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کی ساکھ متاثر ہونے سے سیاسی توازن بگڑ جاتا ہے اور ملک میں ایک سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے ، جو جمہوریت اور ملک کی داخلی سلامتی کے لئے خطرہ بن سکے ۔ برازیل کے عوام اس وقت سیاسی قوتوں کی بجائے عدالتوں اور فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ یہ بات سیاست دانوں کو سوچنا چاہئے ۔ سیاست دانوں کا شاہانہ طرز زندگی اور ان کی نظر آنے والی بے پناہ دولت سے جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ، ان کے پیش نظر عدالتیں بھی فیصلے کرنے پر مجبور ہوتی ہیں او رغیر سیاسی قوتیں بھی حالات کا فائدہ اٹھاتی ہیں ۔ سیاست دان اپنے خلاف اور سیاسی و جمہوری قوتوں کے خلاف ایسے حالات پیدا کیوں کرنے دیتے ہیں ۔ سیاست کے علاوہ دولت کمانے کے کئی دیگر اور جائز ذرائع بھی ہیں ۔ پاکستان میں بے شمار ایسے دولت مند لوگ ہیں ، جن کا کبھی سیاست سے تعلق نہیں رہا اور ان کا ہاتھ سیاست دانوں کے ہاتھ کے اوپر ہوتا ہے ۔ حقائق عوام سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔ جمہوریہ چلی کی خاتون صدر مشل بیشی لیٹ ( Michele Bechellet) کو چلی کے عوام نے اس وجہ سے انتہائی محبت اور احترام کے ساتھ رخصت کیا کہ خاتون صدر نے کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کیے تھے اور تعلیم اور صحت کے شعبوں میں انقلابی اصلاحات کی تھیں ۔ ایوان صدر سے جب وہ نکلیں تو ان کی ملکیت صرف ایک بیڈروم والا فلیٹ اور ایک موٹر سائیکل تھا۔ انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ سیاست دولت کمانے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک عظیم مشن ہے ۔

تازہ ترین