• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے حساب سے انسان ایک مکمل مخلوق ہے غذائیت کی مشین نہیں کہ اسے وہی کھلایا جائے جو اس مشین کو ٹھیک ٹھاک انداز میں چالو رکھ سکے انسان کے اپنے حواس خمسہ بھی ہوتے ہیں اور ان کی اہمیت بھی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ صحت مند جسم کیلئے زندگی سے پوری طرح لطف اندوز ہونا اور مثبت انداز فکر اختیار کرنا کتنا ضروری ہے۔ ہمیں وہی کچھ کرنا چاہئے جو ہماری زندگی ہے اسے قواعد وضوابط کا پابند کرنا عقل مندی نہیں۔ میں نے یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی ہے کہ فاسٹ فوڈ بچوں کیلئے ایک کشش اور جادوئی اپیل رکھتا ہے جبکہ جس نسل سے میرا تعلق ہے اس کیلئے کھانے کی نوعیت قطعی مختلف ہے۔ میرے والد متوسط طبقے سے تھے اور ان کی اتنی استطاعت بھی نہیں تھی کہ وہ باہر جاکر کسی اچھے سے ریسٹورنٹ (جسے ہم ان دنوں ہوٹل کہتے تھے) میں ڈنر کریں یا ہمار ے دور میں اتنی مصروفیت بھی نہیں تھی کہ بھرےپرے گھر میں جلدی جلدی سینڈوچ یا برگر قسم کی کوئی چیز کھا کر اپنے کام میں مصروف ہوجائیں یہ بات مجھے ورثہ میں ملی ہے اور اگر اس کو دائمی تاثر کہا جائے تو غلط ہوگا کہ آج میں جو کچھ کھاتا ہوں (پینے کی بات یکسر الگ ہے) اس کی کوئی طبی وجہ میرے والد کی عادات میں سے ہی ایک عادت ہے۔ عام طور پر گھرانوں میں ناشتے کے اوقات مقرر ہوتے ہیں اور ان اوقات میں اگر آپ کو بھوک نہیں بھی ہے تب بھی آپ کو اپنے خاندان کے ساتھ کھانے پر بیٹھنا ہوتا ہے اور آپ کو ان کا ساتھ دیتے ہوئے زبردستی کھانا پیٹ میں ٹھونسنا پڑتا ہے لیکن آج کھانے کیلئے میرا کوئی وقت مقرر نہیں جب بھوک لگتی ہے تب کھانا کھاتا ہوں اس طرح مجھے کھانے میں بڑا لطف آتا ہے۔ کہتے ہیں کسی نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ کھانے کے بہترین اوقات کون سے ہیں؟ ڈاکٹر نے جواب دیا کہ امیر آدمی کو جب بھوک لگے اور غریب آدمی کو جب بھی مل جائے۔ اکثر ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہم بھوکے ہیں، میری طرح شاید آپ کی زندگی کیلئے بھی کھانا اولین اہمیت کا حامل ہے۔ میرے لئے اب یہ پیٹ کے بجائے ذہن کا معاملہ بن چکا ہے۔
آج کے دور میں ہم نے خوراک یا غذا کے معیار کا جو مطلب سمجھ لیا ہے وہ یہ ہے کہ ہماری خوراک میں کولیسٹرول کی سطح کتنی ہے یا ہمیں مختلف بیماریوں میں مبتلا کرنے والی چربی یا روغنیات کی کتنی مقدار ہے یا پھر وہ کیمیائی اجزا جو کینسر کا سبب بنتے ہیں کتنے ہیں ہم نے اپنی زندگی کا محور متعدد چارٹس کو بنالیا ہے کیلوریز کا چارٹ، وٹامن کے چارٹس ، معدنی اجزاء کے چارٹس یا پھر صحت بخش اجزا کے چارٹس، یہ سب کچھ ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں یہ غلط فہمی یا خوش فہمی ہے کہ غذا کا مطلب ڈائٹنگ ہے اور اس کی وجہ غالباً یہ ہوسکتی ہے کہ ہمارے مطالعہ میں اکثر یہ رہتا ہے کہ غذائی صنعت قدرتی غذا کو کس طرح مسلسل برباد کئے جارہی ہے یا پھر یہ کہ ہمارے کسان اور کاشت کار اپنے فارمولوں اور کھیتوں میں جراثیم کش دوائیں اسپرے کرکے (باقی کے غلط حربوں کا میں دانستہ ذکر نہیں کررہا) سبزیوں اور فصلوں کا کس طرح ستیاناس کررہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہے اور اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ یہی وہ اثرات جن کے باعث ہمارے کھانے کا عمل لذت کے حصول کا سبب نہیں بن پاتا۔ ماضی میں ہم غذا سے جس طرح لطف اندوز ہوا کرتے تھے وہ دور تو کب کا ختم ہوچکا اور اب کھانا کھانے کا عمل محض ایک ’’بوجھ‘‘ کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ (میں یہاں کشور حسین شاد باد کی بات نہیں کررہا) جس کو اتارنے کیلئے ہم جلد بازی سے کام لیتے ہیں۔
ڈائٹنگ کے نام پر ہونے والا یہ شوروغل اور ہنگامہ اپنی جگہ۔ لیکن آپ کو اس سے متاثر ہونے یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ اپنے کھانے سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے رہئے اور صرف اپنے جسم کی پکار سنئے کہ آپ کو صحت مند رکھنے کیلئے اسے کیا غذائیں درکار ہیں۔ آج بھی بہت سے لوگ اس فکر میں دبلے ہوئے جارہے ہیں کہ ان کیلئے کونسی غذا اچھی ہے اور کون سی بری، لیکن ان کا یہ رجحان یا کریز عرصہ گزر جانے کے بعد اس وقت غلط ثابت ہوگا/یا ہوا جب سائنس اور طبی تحقیق کے ذریعہ بہت سی ان اشیاء کو جو مدتوں سے ’’بلیک لسٹ‘‘ تھیں اچانک ان کو کلیئرنس مل گئی اور ان کی افادیت بحال ہوگئی۔
انڈا ، چاکلیٹ یا کافی کی مخالف تحریک نے جو شدت اختیار کر رکھی تھی اس کا اچانک خاتمہ ہوگیا۔ انڈے اب ’’کولیسٹرول بم‘‘ نہیں رہے یہی حال کافی کاہے جسے اب ANTIOXIDANTکی طاقت سے بھرپور سمجھا جانے لگا ہے۔ اور چاکلیٹ کو تو کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف جنگ میں اہم ’’اتحادی‘‘ کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ طویل عرصہ تک صحت مند غذا کے بار ے میں عام تاثر یہ تھا کہ اس کیلئے آپ کو بہت سی قربانیاں دینی پڑیں گی اور اگر کوئی ’’ہلکا پھلکا‘‘ بننا چاہتا ہےتو اس کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ وہ اپنی پسندیدہ غذائوں کو خیرباد کہہ دے اور اس کی جگہ پھیکی ، بدمزا اور بد ذائقہ غذا کھانا شروع کردے۔ یہاں عام طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کھانوں سے کس طرح لذت حاصل کی جائے جن سے وہ ’’ڈرتا‘‘ ہے یا جو چیز خوش ذائقہ یا مزیدار لگے وہ کس طرح صحت بخش بھی ہوسکتی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ غیرمتوازن خوراک یا غذا کو ہم اپنے کھانوں کا ہر گز جزو نہ بننے دیں اپنے کھانے کے ساتھ قدرتی انداز میں انصاف کریں۔ ہم اکثر یہ سنتے رہتے ہیں کہ وائٹ بریڈ ، مکھن، انڈے، گوشت ، کافی اور دودھ وغیرہ کا اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں کہ وہ ہمارے جسم پر حملہ کرکے ہمیں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائیں۔ اس سلسلے میں آپ سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ’’آپ اپنے دشمنوں سے نمٹنے کیلئے کیا رویہ اختیار کریں گے؟ اسے نظرانداز کریںگے، اس سے جنگ کریں گے یا پھر اسے بہلا پھسلا کر رام کریں گے؟ اس کے علاوہ مجھے تو کوئی اور راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ آپ کو نظر آتا ہو تو دوسری بات ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین