• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’امریکہ اور چین میں تجارتی جنگ ابھی پوری طرح شروع نہیں ہوئی تاہم سرمایہ کاروں نے صدر ٹرمپ کی چینی مصنوعات پر تجارتی بند شیں عائد کرنے کی دھمکیوں کے بعد امریکی حصص بازاروں سے نکلنا شروع کر دیا ہے‘‘ ایک تازہ اخباری رپورٹ کی یہ تمہید بین الاقوامی حالات میں تیزی سے رونما ہوتی ہوئی تبدیلیوں کی عکاس ہے اور ہوشمندی کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے حکمراں، ماہرین اقتصادیات اور کاروباری حلقے ابھی سے پاکستان پر اس جنگ کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لے کر مناسب حکمت عملی کی تیاری شروع کردیں ۔چین کے خلاف تجارتی جنگ کا آغاز امریکی صدر نے گزشتہ ماہ کے آخری عشرے میں چینی مصنوعات کی امریکہ میں درآمد پر پچاس ارب ڈالر کے بھاری اضافی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کرکے کیا تھا ۔ چین نے اس کا جواب ماہ رواں کی چار تاریخ کو ایک سو چھ امریکی مصنوعات پر نیا ٹیرف عائد کرنے کی شکل میں دیا۔ ایک روز بعد ٹرمپ نے امریکی تجارتی نمائندوں کو چین کے خلاف سوارب ڈالر کے اضافی ٹیرف پر غور کے لیے کہا۔بیجنگ نے اس کے جواب میںواضح کیا کہ وہ آخرتک اس کا مقابلہ کرے گااورکوئی قیمت ادا کرنے سے نہیں ہچکچائے گا۔ برطانوی اخبار دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق چین ممکنہ امریکی اقدامات کے ردعمل میں جوابی حملے اور نئے جامع اقدامات کیلئے پر عزم ہے۔وائس آف امریکہ کے مطابق امریکی کارروائی کا جواب چین نے صرف گیارہ گھنٹے میں امریکی درآمدات بشمول گاڑیوں، سویا بین اور کیمیکلز وغیرہ پر پچیس فی صد اضافی ڈیوٹی لگا کر دے دیا، جبکہ صدر ٹرمپ نے اس کے فوراً بعد بظاہر پسپائی اختیار کرتے ہوئے ٹویٹ کیاکہ ’’ ہم چین کے ساتھ تجارتی جنگ نہیں لڑرہے،یہ جنگ امریکہ اپنے کچھ احمق اور نااہل لوگوں کی وجہ سے برسوں پہلے ہی ہارچکا ہے ‘‘ جہاں تک پاکستان اور امریکہ کے باہمی روابط کی موجودہ کیفیت کا تعلق ہے تو وہ پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہے۔ گزشتہ سال دونوں ملکوں میں باہمی تجارت کا حجم صرف چھ ارب ڈالر تھا جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات کے سبب پاک امریکہ تعلقات تاریخ کی پست ترین سطح تک گر چکے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس کا ہدف پاکستان خطے میں امریکی پالیسیوں کا ساتھ دینے ہی کے نتیجے میں بنا، ہماری مثالی جدوجہد ، کامیابیوں اور سب سے زیادہ قربانیوں کے باوجود امریکی قیادت اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے اور ڈومور کی رٹ لگائے رکھنے کی قطعی غیرمعقول حکمت عملی پر کاربند ہے۔ امریکی کوششوں ہی کے باعث پاکستان دہشت گرد تنظیموں کی مالی امداد روکنے میں کامیاب نہ ہونے والے ملکوں کی گرے لسٹ میں شامل کیا جانے والا ہے۔ تاہم فی الحقیقت امریکی قیادت کی پاکستان سے ناراضگی کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے چین سے گہرے روابط ہیں ، پاک چین اقتصادی راہداری کی شکل میں بین الاقوامی اقتصادی میدان میں چین کی غیر معمولی پیش قدمی کے امکانات نے امریکہ کو ہوش ربا خدشات میں مبتلا کررکھا ہے اور چین کا راستہ روکنے یا کم از کم اس کی پیش قدمی میں رکاوٹیں ڈالنے اور رفتار کم کرنے کا آسان نسخہ امریکہ کے پاس پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی شکل میں موجود ہے۔نیز چین کے خلاف تجارت کے شعبے میں امریکہ کے مزید اقدامات سی پیک اور پاکستان میں چین کے تعاون سے جاری ترقیاتی منصوبوں کو بھی متاثر کرسکتے ہیں۔ امریکہ میں برسرروزگار پاکستانیوں کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں جبکہ خلیجی ریاستوں سے بھی پاکستانی کارکنوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ترسیلات زر کا متاثر ہونا یقینی ہے لیکن دانش مندانہ حکمت عملی سے ان مشکلات کو مواقع میںبدلا جاسکتا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی وسائل بھی رکھتے ہیں اور مختلف شعبوں میں مہارت اور تجربہ بھی، قابل عمل زرعی اور صنعتی منصوبے شروع کرنے کے لیے ان کی مناسب رہنمائی اور تعاون اور بین الاقوامی اقتصادیات میں متبادل شرکاء کی تلاش کے ذریعے ملک وقوم کے لیے فلاح و ترقی کی نئی راہیں کھولی جاسکتی ہیں۔

تازہ ترین