• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں غذائی اجناس کی قیمتیں عموماً آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ سبزی، دال اور گوشت تو ایک طرف کبھی آٹے اور چاول کی قیمتیں بھی کنٹرول میں نہیں آئیں۔جس کی وجہ سے غربت اور مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کو بمشکل دو وقت کی روٹی میسر آتی ہے۔حکومت گندم اور چاول کی ہر نئی فصل پر نئی اور مناسب قیمتوں کا اعلان تو کرتی ہے ، مگر اُن قیمتوں کا صحیح معنوں میں اطلاق نہیں ہو پاتا۔ اس سال بھی اوپن مارکیٹ میں گندم کی نئی فصل آنے پر آٹے اور گندم کی فی کلو قیمت میں 3روپے کی نمایاں کمی آئی ہے۔مارکیٹ ذرائع کے مطابق اس سال گندم کی بمپر فصل پیدا ہونے کی وجہ سے گندم کی 102کلو بوری کی قیمت میں 75روپے، آٹے کی 50کلو بوری کی قیمت میں 150روپے جبکہ فی کلو آٹے کی تھوک قیمت میں 3روپے کمی واقع ہوئی ہے۔گندم اور آٹے کی قیمت میں کمی ،کم آمدن والے طبقے کیلئے نہایت خوش کن امر ہے، مگر سابقہ تجربات کی روشنی میں امکان یہ ہے کہ نرخ میں اس کمی کا اطلاق محض گندم کی بڑے پیمانے پر ہونے والی خرید وفروخت تک محدود رہے گا اور عام لوگ جو کلو کے حساب ہی سے آٹا خریدنے کی سکت رکھتے ہیں ، اس سے محروم رہیں گے، کیونکہ ہمارے ملک میں اشیائے ضروریہ کی تھوک قیمتیں بڑھنے پر توپرعام مارکیٹ میں بلا تاخیر ان کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں جبکہ قیمتیں کم ہونے پر خوردہ فروش نرخ گھٹانے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں جس کی وجہ سے عوام تک قیمتوں میں کمی کا فائدہ نہیں پہنچ پاتا۔ ہمارے ہاں آٹے اور روٹی کا سیاسی نعرے کے طور پر استعمال عام ہے مگر ہمارے سیاسی رہنما اپنی فلور ملوں کا آٹا مہنگا بیچنے کیلئے مصنوعی حربے استعمال کرتے رہے ہیں جن پر سپریم کورٹ کی جانب سے سے ازخود نوٹس بھی لیا جاتا رہا ہے۔ بلا شبہ گندم کی اچھی فصل بڑی کامیابی ہے ، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ قیمتوں میں کمی کا فائدہ نچلی سطح تک بھی پہنچایا جا ئے اور محض آٹے ہی کی نہیں بلکہ تنوروں پر ملنے والی روٹی اور بیکری اشیاء سمیت تمام متعلقہ چیزوں کی قیمتوں میں کمی بھی یقینی بنائی جائے۔

تازہ ترین