• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگلی حیات قدرت کا انمول تحفہ ، سرزمین پاکستان کا قیمتی سرمایہ اور حسن ہے۔ سیاحت کے شعبے کی ترقی میں بھی یہ بہت معاون ہے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، شمالی علاقہ جات اور کشمیر کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جو مخصوص جنگلی حیات کی وجہ سے اپنی پہچان نہ رکھتا ہو۔ دنیا بھر میں جنگلی حیات کی حفاظت وہاں کے مقامی باشندے خود کرتے ہیں جس کی وجہ سے قانون ہوتے ہوئے بھی اس کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ وطن عزیز میں قانون کی موجودگی میں نایاب جنگلی جانور شکاریوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ تھر میں پابندی کے باوجود شکاریوں کی گولی سے دو چنکارا ہرنوں کا نقصان اس لحاظ سے زیادہ تکلیف دہ ہے کہ اس کمیاب جانور کی نسل معدوم ہو رہی ہے۔ اگرچہ وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت مقامی لوگوں کی شکایت پر مقدمہ درج کر کے ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن بہتر ہوتا کہ محکمہ جنگلات کے ڈیوٹی پر مامور اہل کا را ن کی حفاظت یقینی بناتے اور یہ نقصان ہی نہ ہوتا یہ تو فقط ایک واقعہ ہے جس میں ملزمان پر ہاتھ ڈالا گیا ہے ورنہ ملک بھر میں سیکڑوں مقامات کو لوگوں نے شکار گاہیں بنا رکھا ہے اور روزانہ کتنے ہی نایاب جنگلی جانور ان کی گولی کا نشانہ بنتے ہیں لیکن اہل کاروں کی چشم پوشی غیر قانونی شکار کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہی ہے۔ محکمہ جنگلات کے مطابق اس ہرن کے شکار پر ایک سے ڈھائی لاکھ روپے کا جرمانہ مقرر ہے۔ اگر شکاری اس کے باوجود باز نہیں آتے تو حکومت کو قانون میں مزید سختی لانی چاہئے۔ محکمہ جنگلات سے بدعنوانی کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کو قومی معیشت کی ترقی کا ذریعہ بنانے والے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی اس کی افزائش کے خاطر خواہ اقدامات ہونے چاہئیں۔ جنگلی حیات اور اس کی حفاظت کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے تشہیری مہم بھی باقاعدگی سے چلائی جانی چاہئے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین