• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قندوز کے شہید میڈیا کے کیمرہ سے اوجھل کیوں؟؟

جنوری 2015 میں فرانس کے میگزین چارلی ایبڈو (جو گستاخانہ خاکے شائع کرنے کی وجہ سے مشہور تھا) کے دفتر پر ایک دہشتگرد حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک ہوئے ۔ اس واقعہ کی عالمی میڈیا نے اس انداز میں کوریج کی کہ پوری دنیا اس واقعہ کی مذمت کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ یہاں تک کے پاکستان کے صدر ممنوں حسین نے ایک تعزیتی خط فرانسیسی حکومت کو فوری لکھ دیا، ہمارے دفتر خارجہ نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی، کئی سیاستدانوں نے بھی اپنا اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، ہمارا میڈیا بھی عالمی میڈیا کے زیر اثر اس واقعہ کو خوب فوکس کرتا رہااور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے بہت سے سیکولرز اور لبرلز نے سوشل میڈیا کے ذریعے فرانس اور چارلی ایبڈو کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور کئی روز تک سوشل میڈیا بشمول ٹویٹر کے ذریعے "I am Charlie Hebdo" (میں چارلی ہیبڈو ہوں) کی عالمی مہم کا حصہ بنے رہے۔ گزشتہ ہفتہ افغانستان کے علاقہ قندوز میں ایک مدرسہ پر فضائی حملہ کیا گیا جس میں ڈیڑھ سو سے افراد جن میں اکثریت بچوں کی تھی کو شہید کیا گیا۔ ابتدا میں میڈیا کے ذریعے کہا گیا کہ حملہ دہشتگردوں پر کیا گیا لیکن جب حقیقت کھلی کہ اس بربریت کا شکار معصوم بچے تھے جو قرآن پاک کاحفظ مکمل ہونے پر وہاں دستاربندی کے لیے جمع ہوے تھے تو میڈیا پر خاموشی طاری ہو گئی۔ شہادت پانے والے بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھیں تو دل دہل گئے کہ اتنا بڑا ظلم لیکن دوسری طرف مجرمانہ خاموشی۔ عالمی میڈیا سے تو کوئی توقع رکھنا ہی فضول تھا، ہمارے لوکل میڈیا نے بھی اس ظلم و بربریت پر کوئی توجہ نہ دی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ویسے سب کو خبر تو مل گئی کہ فضائی حملہ میں معصوم حفاظ کرام شہید ہوئے لیکن نہ تو صدر پاکستان کی طرف سے اس سانحہ پر کوئی مذمتی بیان جاری ہوا، نہ ہی کوئی دوسرا حکومتی یا ریاستی ذمہ دار بولا۔ وزارت خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نے جب اس ظلم پر کوئی بات نہ کی تو ایک صحافی نے سوال کیا کہ ویسے تو دفتر خارجہ افغانستان میں کسی بھی دہشتگردی کے واقعہ پر فوری مذمتی بیان جاری کرتا ہے لیکن قندوز سانحہ پر کیوں خاموش ہے؟؟اس کے جواب میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کچھ رسمی مذمتی الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ ہم دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات پر بات نہیں کرتے۔ کیا خوب پالیسی ہے ہماری؟؟؟ اور کیسا امتیازی سلوک ساری دنیا قندوز سانحہ جیسے شہداء کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے؟؟ یعنی اگر دہشتگردی کسی فرد نے کی یا کسی پرائیویٹ گروہ نے تو پھر تو اس پر مذمت کی جائے گی اور اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی جائے گی۔ لیکن اگر دہشتگردی ریاست کی طرف سے کی جائے اور مرنے والوں کی تعداد چاہیے سینکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں تک بھی پہنچ جائے تو نہ کوئی مذمت، نہ کوئی احتجاج، نہ کوئی افسوس اور نہ کوئی معافی اور یہی ہم افغانستان، عراق، شام، کشمیر، فلسطین،یمن اور دوسرے کئی اسلامی ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ انصاف نام کی کو ئی چیز نہیں، جب لگتا ہے کہ ضمیر مر چکے ہیں۔ 9/11 کے بعداس ریاستی دھشتگردی کو کھلی چھٹی دے دی گئی جس کے لیے شرط صرف ایک ہی رہی اور وہ یہ کہ ریاستی دہشتگردی کا نشانہ صرف مسلمانوں کو ہی ہونا چاہیے۔ مغرب سے یا اُن کے میڈیا سے کوئی کیا گلہ کرے، دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم مسلمان، ہماری حکومتیں اور ہمارا میڈیا بھی وہی کرتا ہے جو امریکا کی پالیسی ہے۔ہمارے ٹی وی چینلز کو ہی دیکھ لیجیے جنہوں نے پاکستانی قوم کو بھارتی فلمی اداکارہ سری دیوی کی موت پر دن رات کوریج کر کے گھنٹوں سوگ منایا اور ایک وقت تو یہ ڈر پیدا ہو گیا کہ ہمارا میڈیا کہیں سری دیوی کو شہید کا درجہ ہی نہ دے دے۔ گزشتہ ہفتہ ایک اور بھارتی اداکار سلمان خان کو پانچ سال سزا ملنے پر ہمارے چینلز نے اسے پاکستانیوں کا بہت بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا لیکن افسوس کہ انہی چینلز کو قندوز مدرسے میں شہید کیے جانے والے معصوم بچوں کے نہ توچہرے نظر آئے نہ ہی اُنہیں ان بچوں کے والدین پر جو گزری اُس کی فکر تھی۔ سوشل میڈیا اور ٹیوٹر پر بھی میڈیا سے تعلق رکھنے والے اور دوسرے وہ سیکولرز اور لبرلز جو فرانس حملہ پر 12 افراد کی ہلاکت پر کئی روز افسوس کا اظہار کرتے رہے، کی اکثریت کے پاس بھی ان ڈیڑھ سو سے زائد حفاظ کرام کی شہادت پر افسوس اور اس ظلم کی مذمت کے لیے کچھ بھی کہنے کا وقت نہیں تھا۔ کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ ان معصوم بچوں کا آخر قصور کیا تھا؟ یہ بچے تو حافظ قرآن تھے جو ایک بہت بڑی سعادت کی بات تھی لیکن ایسے معصوموں کی شہادت پر ماسوائے پاکستان کے مذہبی ر ہنماوں کے کسی صف اول کے سیاسی رہنما کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ اس معاملہ پر بات کرے اور ان انسان دشمن عمل کی مذمت کرے۔ کیا داڑھی والوں اور مدرسے میں پڑھنے والوں کی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں؟؟ اُنہیں جو چاہے مار دے!!! ظلم ظلم ہے چاہے اس کا شکار کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ قندوز سانحہ ریاستی دہشتگردی کا ایک سنگین واقعہ ہے۔ اس ظلم کو اجاگر کرنے اور اس کے خلاف بیداری پیدا کرنے کے لیے میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ وہی میڈیا جو ہمیں رلاتا بھی ہے اور ہنساتا بھی ہے ، وہی میڈیاجس کا اب یہ دائرہ اختیار بنا دیا گیا ہے کہ کس کو ظالم اور کس کو مظلوم بنا کر دکھائے۔ یہ میڈیا ہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس واقعہ پر ہمیں افسردہ کرے، کہاں رلائے اور کس واقعہ کو چاہے وہ کتنا ہی بڑا سانحہ ہو اُسے کوئی اہمیت نہ دے۔ افغانستان پر حملہ کرنا مقصود تھا تو اس کا راستہ میڈیا ہی کے ذریعے ہموار کیا گیا۔ عراق کو تباہ و برباد کرنا تھا تو مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹ میڈیا ہی کے ذریعے بیچا گیا۔ لیبیا پر حملہ کرنا تھا تو کرنل قدافی کو ولن کے طور پر میڈیا ہی کے ذریعے پیش کیا گیا۔ میری درخواست مسلمان ممالک کے میڈیا سے ہے کہ مہربانی کر کے ایک لمحہ کے لیے سوچیں کہ مغرب اور مغربی میڈیا کی نقالی میں ہم بھی کہیں معصوم مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ تو نہیں رنگ رہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس اپ رائےدیں 00923004647998)

تازہ ترین