• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیرون ملک اثاثے واپس لانے اور ظاہر کرنے کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر میں کئی کالم لکھ چکا ہوں جس میں، میں نے اس اسکیم کی ضرورت کی حمایت کی تھی۔ حکومت نے اب تک جتنی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی ہیں، وہ تمام پاکستان میں مقیم پاکستانیوں اور مقامی اثاثوں کیلئے تھیں لیکن پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں کو دستاویزی شکل دینے کیلئے اب تک کسی اسکیم کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، بھتہ کلچر اور اغوا برائے تاوان جیسے عوامل کے باعث پاکستانیوں نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرکے مختلف کاروباروں میں لگایا جس کی کئی دہائیوں بعد مالیت تقریباً 150 ارب ڈالر ہوچکی ہے۔ آف شور کمپنیوں کی تحقیقات اور منی لانڈرنگ کے نئے سخت قوانین کے باعث ان اثاثوں کو بیرون ملک رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے بھارت نے بھی بیرونی اثاثوں اور انکم کو قانونی بنانے کیلئے ایک ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تھا جس سے 64 ہزار افراد مجموعی 9.8 ارب ڈالر ظاہر کرکے اپنے اثاثے قانونی بناچکے ہیں۔ پاکستانی اسکیم (DRFA) جو انڈونیشین ماڈل سے لی گئی ہے، سے انڈونیشیا حکومت کو 100 ارب ڈالر حاصل ہوئے۔ اس کے علاوہ جنوبی افریقہ، روس اور کچھ یورپی ممالک میں بھی اس طرح کی اسکیمیں کامیاب رہی ہیں۔ بیرونی اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم کو فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
دنیا میں سخت بینکنگ قوانین اور ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے کے معاہدوں کے بعد پاکستانی سرمایہ کاروں کیلئے بیرون ملک اپنا سرمایہ رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ پاکستانیوں کے بیرونی اثاثوں کو واپس لانے یا ظاہر کرنے کی اسکیم کا سب سے پہلے مطالبہ بزنس کمیونٹی نے 2016ء میں ایف پی سی سی آئی کے اسلام آباد میں ایکسپورٹ ٹرافی ایوارڈ کی تقریب میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے کیا تھا۔ اسکے بعد نواز شریف کی گورنر ہائوس کراچی میں بزنس مینوں سے ایک ملاقات میں اس اسکیم پر تفصیل سے بحث ہوئی اور نواز شریف نے گورنر سندھ اور عارف حبیب کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں ممتاز بزنس مین، فیڈریشن اور اوورسیز چیمبر کے نمائندے شامل تھے جنہوں نے سفارشات حکومت کو بھیجیں۔ شاہد خاقان عباسی کے وزیراعظم بننے کے بعد گورنر ہائوس کراچی میں ممتاز بزنس مینوں سے پہلی ملاقات میں اس اسکیم پر دوبارہ بات چیت ہوئی۔ اس دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر، مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل سے بھی اس اسکیم کیلئے تجاویز زیر بحث آئیں۔ فیڈریشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ رکھنے کیلئے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، جہانگیر ترین، اسد عمر سے فیڈریشن کے دورے میں بیرون ملک اثاثوں کو ظاہر کرنے کی اسکیم پر تفصیلی گفتگو کی۔مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق کے فیڈریشن کے دورے پر بھی بزنس کمیونٹی نے انہیں بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم کی ضرورت پر زور دیا۔ ان تمام میٹنگز میں، میں بھی شریک تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے از خود نوٹس میں کہ اس اسکیم سے صرف مخصوص لوگ فائدہ نہ اٹھائیں، ایک ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی جس میں شبر زیدی اور ممتاز قانون داں محمود مانڈوی والا بھی شامل تھے جس کے بعد اس بات کے اب کم خدشات ہیں کہ اس اسکیم پر کوئی سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرےگا۔
وزیراعظم کی 5 نکاتی ٹیکس اسکیم میں قومی شناختی کارڈ کے حامل پاکستانی شہریوں کے بیرون ملک غیر ظاہر شدہ اثاثوں کو 2 فیصد اور ملکی غیر ظاہر شدہ اثاثوں کو 5 فیصد جرمانہ ٹیکس ادا کرکے قانونی بنایا جاسکتا ہے جبکہ بیرون ملک اکائونٹس سے رقوم 5 فیصد جرمانہ ٹیکس ادا کرکے ملک لائی جاسکتی ہیں جس کیلئے حکومت نے 5 سالہ ڈالر بانڈز 3 فیصد شرح سود پر آفر کی ہے جس کو ایک سال سے پہلے کیش نہیں کرایا جاسکے گا بصورت دیگر بیرون ملک اکائونٹس سے رقوم 5 فیصد جرمانے پرآفیشل ڈالر ریٹ سے پاکستانی روپے میں منتقل کرائی جاسکتی ہے۔ نئی اسکیم 30 جون 2018ء تک نافذ العمل رہے گی اور اسے قانونی تحفظ دینے کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری کیا جائے گا۔ اس اسکیم کے تحت سیاستدان، ان کی بیگمات اور اُن کے زیر کفیل بچے فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔ اس اسکیم کا اطلاق پاکستان میں مقیم افراد پر بھی ہوگا اور وہ بھی اپنے مقامی غیر ظاہر شدہ اثاثے جرمانہ ٹیکس ادا کرکے قانونی بناسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسکیم سے آف شور کمپنیوں کے اثاثوں کو بھی تحفظ ملے گا اور آف شور کمپنیوں کے اثاثوں کو بھی قانونی بنایا جاسکتا ہے۔وزیراعظم کے مطابق اس وقت صرف 12 لاکھ افراد ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں جن میں سے 5 لاکھ کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے اور صرف 7 لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ان میں سے 90 فیصد تنخواہ دار لوگ ہیں جن کا ٹیکس تنخواہ سے براہ راست کاٹ لیا جاتا ہے۔ اسکیم میں انکم ٹیکس سلیب کو 35 فیصد سے کم کرکے 15 فیصد کردیا گیا ہے اور ایک لاکھ روپے ماہانہ یعنی 12 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والے افراد پر ٹیکس ختم کردیا گیا ہے جبکہ 12 سے 24 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والوں پر 5 فیصد، 24 سے 48 لاکھ سالانہ آمدنی والوں پر 10 فیصد اور 48 لاکھ سے زائد سالانہ آمدنی والوں پر زیادہ سے زیادہ 15 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔ تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس میں کمی سے مڈل کلاس کو ریلیف ملے گا۔ اس اسکیم میں پراپرٹی کی رجسٹری کیلئے کم از کم ڈی سی ریٹ کا ٹیبل ختم کردیا گیا ہے اور اب یہ پراپرٹی مالک کی صوابدید ہے کہ وہ کس ویلیو پر اپنی پراپرٹی رجسٹرڈ کراتا ہے۔ جائیداد کی رجسٹریشن پر زیادہ سے زیادہ ایک فیصد پراپرٹی ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ وزیراعظم کے مطابق کالا دھن چھپانے کیلئے لوگ پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور جائیداد کی اصل قیمت ظاہر نہیں کی جاتی۔ اس عمل کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے نئی ایمنسٹی اسکیم کے تحت حکومت کم ڈکلیئرڈ ویلیو جائیدادوں کی 2018-19ء میں 100 فیصد زیادہ (دگنی) ادائیگی پر مالک سے جائیداد خریدنے کی مجاز ہوگی جبکہ 2019-20ء میں75 فیصد زیادہ اور 2020-21ء میں 50 فیصد زیادہ ادائیگی پر نہایت کم قیمت رجسٹرڈ کی گئیں جائیدادیں خریدی جاسکیں گی۔ اسی طرح کی اسکیم بھارت میں بھی نافذ العمل ہے لیکن اس پر عملدرآمد میں بے پناہ پیچیدگیاں اور مشکلات ہیں۔ فیڈریشن نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ پراپرٹی ویلیو ٹیبلز کے مطابق جائیدادوں کی رجسٹری کی جائے۔ اسکیم میں اعلان کیا گیا ہے کہ بیرون ملک سے ایک لاکھ ڈالر سالانہ تک ترسیلات زر پاکستان بھیجنے کے ذرائع کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔
ایمنسٹی اسکیم کے اعلان کے بعد جیو نیوز کے ایک پروگرام میں میرے ساتھ ماہرین معیشت اور سابق وزیر خزانہ نے امید ظاہر کی کہ ایمنسٹی اسکیم سے حکومت کو 5 ارب ڈالر سے زائد زرمبادلہ اور ٹیکس کی مد میں خطیر رقم حاصل ہوسکتی ہے۔فیڈریشن ہائوس میں ایمنسٹی اسکیم پر ایک پریس کانفرنس ہوئی جس میں فیڈریشن کے صدر غضنفر بلور، سینئر نائب صدر مظہر ناصر کے ساتھ میں نے بھی شرکت کی اور فیڈریشن کی جانب سے ایمنسٹی اسکیم اور ٹیکس اصلاحات کو سراہا کہ حکومت نے اس اسکیم کے تحت غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے اور انہیں وطن واپس لانے کیلئے ایک دروازہ کھولا ہے۔ جائیداد کی رجسٹری میں وفاق اور صوبوں کے ٹیکسوں میں ہم آہنگی ہونی چاہئے، جائیداد کی منتقلی پر ناقابل برداشت 8 فیصد ٹیکس ہی دراصل پراپرٹی کی اصل ویلیو ظاہر کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ یکم جولائی 2018ء سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کے عمل سے تقریباً 5 لاکھ 22 ہزار افراد ٹیکس نیٹ سے نکل جائیں گے اور تقریباً 100 ارب روپے سالانہ ٹیکس وصولی میں کمی ہوگی جو مالی خسارے میں اضافے کا سبب بنے گا۔حکومت کا شہریوں کے شناختی کارڈ (NIC) کو نیشنل ٹیکس نمبر (NTN) تصور کرنے کے اعلان سے امید ہے کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوگا۔ فیڈریشن نے تجویز دی کہ باہر سے آنے والے پیسوں کی صنعتکاری میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ ملک میں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوسکیں۔ بزنس کمیونٹی کو معمولی ٹیکس ادا کرکے اپنے بیرونی اثاثوں کو قانونی بنانے کا یہ نادر موقع ملا ہے جس سے انہیں فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ ان کے پیسے پاکستان میں زیادہ محفوظ ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین