• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب عدالت میں پیشی کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف نے قومی احتساب بیورو اور احتساب کے رائج قانون کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نگراں حکومت کے قیام سے نئی حکومت بننے تک اسے معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں وہ وزیر اعظم کو تجویز پیش کریں گے کہ وہ نیب قوانین کو معطل کریں یا آرڈیننس جاری کریں۔ انہوں نے تحفظات ظاہر کئے کہ نیب قانون کا آئندہ عام انتخابات میں غلط استعمال ہو سکتا ہے اور جو بھی طاقتیں ہیں وہ اس کا غلط استعمال کریں گی۔ انہوں نے نیب پر الزام عائد کرتے کہا کہ اس نے ابھی سے مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے،انہوں نے خیبر پختونخوا کے پارٹی صدر امیر مقام کا حوالہ بھی دیا کہ الیکشن سے پہلے ایسے لوگوں پر مقدمات بنائے جا رہے ہیں،سابق وزیر اعظم نے چیف جسٹس سے بھی نیب کے خلاف سو موٹو نوٹس لینے کا مطالبہ کیااورنیب قانون کو ڈکٹیٹر کا بنایا ہواکالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مشرف نے ان کے خلاف انتقامی کاروائی کیلئے بنایا تھا اور اس کالے قانون کو ختم کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔اطلاعات کے مطابق ہفتہ کو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے جاتی امرا میں ہونے والی اہم ملاقات میں نیب قانون کو معطل کرنے کے حوالے سے تفصیلی صلاح مشورہ بھی ہوا ہے اور سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے اس ضمن میں پائی جانے والی آئینی پیچیدگیوں پر بھی روشنی ڈالی ہے اور جناب نواز شریف کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب قانون کو معطل کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے جیسے وہ تصور کر رہے ہیں۔
اس اہم ملاقات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف بھی موجود تھے جنہوں نے اپنے قائد اور بڑے بھائی نواز شریف کی نیب کے بارے میں مذکورہ تنقید سے صرف ایک روز قبل ہی نیب کے احتساب کے عمل کو پاکستان کیلئے ’رحمت‘قرار دیا تھا۔ شہباز شریف نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر سیاسی وجوہات کے باعث احتساب کے عمل کوترک کر دیا گیا تو یہ ملک کا بہت بڑا نقصان ہو گا،انہوں نے نیب پر بلا امتیاز اوربغیر کسی انتقامی کارروائی کے احتساب کے عمل کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے یہاں تک کہا تھا کہ مسلم لیگ ن ہو،پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کسی کو احتساب کی آڑ میں سیاست نہیں کرنی چاہئے۔ یہ امر بھی کسی دلچسپی سے خالی نہیں کہ یہی شہباز شریف حال ہی میں آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کی تحقیقات کے ضمن میں نیب کی طرف سے طلب کئے جانے اورپوچھ گچھ پر اتنے برہم ہوئے تھے کہ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ نہ صرف نیب کا اصل چہرہ قوم کو دکھائیں گے بلکہ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی ان کے ساتھ اتنی محبت کی وجوہات سے بھی آگاہ کریں گے۔ اسی نیب کے بارے میں تب ان کا ارشاد تھا کہ عوام کے لوٹے ہوئے پیسے نکلوانا اس ادارے کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ حالیہ خصوصی ملاقاتوں کا نتیجہ ہے یا مفاہمتی پالیسی کا اثر کہ صرف چند دنوں میں وہی نیب خادم اعلیٰ کیلئے اتنا معتبر ہو گیا کہ وہ اپنے قائد کے نقطہ نظر سے واضح اختلاف رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔ قائد مسلم لیگ نواز شریف کے نیب سےمتعلق خیالات وزارت عظمی سے ہٹائے جانے سے پہلے بھی کچھ زیادہ مثبت نہیں تھے بلکہ بطور وزیر اعظم انہوں نے فروری 2016 ءمیں اس وقت بھی نیب پر سخت تنقید کی تھی جب انہیں ایل این جی کی درآمد اور دیگر معاملات میں نیب کی طرف سے مداخلت اور سرکاری افسران پر دباو ڈالے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں،تب انہوں نے اپنے ہاتھوں سے تعینات لئے گئے چیئرمین نیب کو وارننگ دی تھی کہ نیب سرکاری افسران کو ڈرانا ،دھمکانا اور ان کی عزتوں کو اچھالنا بند کر دے کیونکہ یہ وطیرہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے تھوڑا پیچھے جائیں تو جولائی 2015ءمیں جب سپریم کورٹ کے احکامات پرقومی احتساب بیورو نے 150 میگا کرپشن اسکینڈل کی فہرست جمع کرائی تھی تو تب بھی وفاقی حکومت اور اس کے چند وزرا نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیب کو آڑے ہاتھوں لیا تھا کیونکہ اس فہرست میں نواز شریف اور شہباز شریف کا نام بھی شامل تھا۔ تب بھی وزیر ا علیٰ پنجاب نے ایک طویل پریس کانفرنس کے ذریعے کاغذات کے پلندے لہرا کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ نیب کی حالیہ کارروائیوں اورملکی تاریخ کے تناظر میں سابق وزیر اعظم نوازشریف کو خدشات لاحق ہیں کہ عام انتخابات سے قبل بالخصوص نگراں دور حکومت میں مسلم لیگ ن کے رہنماوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی ایک جامع کوشش کی جائے گی اور بد عنوانی کے خاتمے کے نام پرخوفناک انتقام کا ایسا سلسلہ شروع کیا جائیگا جسکے نتیجے میں ایک بار پھر ق لیگ اور پیٹریاٹ تخلیق کئے جا سکتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف سے لے کر خواجہ سعد رفیق تک سب نیب قانون کو ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا کالا قانون قرار دیتے ہیں جس کا مقصد ہی سیاست دانوں کو اپنی پسندکی راہ پر چلانا مقصود ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ احتساب کے نام پرانتقام کی اس روش کی ایجاد کا سہرا بھی انہی کے سر ہے جنہوں نے مئی 1997 ء میں احتساب ایکٹ کی منظوری سے اس گھنائونے کھیل کو شروع کیا تھا۔ پھر یہ بھی تاریخ کا حصہ بن چکا کہ احتساب کے نام پر بد ترین انتقامی کارروائیاں کرنے والے اسی احتساب سیل کے سربراہ سیف الرحمان کو آصف زرداری سے معافی مانگنا پڑی۔
احتساب کے نام پر مخالفین کو سبق سکھانے کی اسی روایت کو آمر پرویز مشرف نے قومی احتساب آرڈیننس 1999کے ذریعے اس بام عروج تک پہنچا دیا کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔ اس کے بعد میثاق جمہوریت ہوا،مسلم لیگ ن کا منشور یا بطور اپوزیشن رہنما نواز شریف کا دس نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا، قومی احتساب بیورو کا خاتمہ اور اس کی جگہ آزاد غیر جانبدار اور خودمختار احتساب کمیشن کا قیام ان کی ترجیحاتی فہرست میں شامل رہا۔ سابق صدر آصف زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران احتساب کے آزاد ادارے کے قیام کیلئے مسلم لیگ ن انتہائی سنجیدہ نظر آئی لیکن تب سب پر بھاری رہنما کی ترجیحات تبدیل ہو چکی تھیں۔ انہوں نے اس ادارے کو بغل بچہ بنانے کیلئے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب کے اختیارات کو وفاقی وزارت قانون و انصاف کے ماتحت کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی تقریباً ساڑھے تین سال تک قائمہ کمیٹی میں احتساب بل پر اتفاق رائے پیدا کی کوشش کرتے رہے لیکن حکومت کی مدت پوری ہو گئی اس’کالے‘ قانون کو ختم نہ کیا جا سکا۔ اس سے بڑی غفلت اور لاپروائی کیا ہوگی کہ جون 2013 ءمیں حکومت سنبھالنے کے باوجود مسلم لیگ ن نے احتساب کے آزاد ادارے کے قیام پر ابتدائی ساڑھے تین سال تک آنکھیں بند کئے رکھیں۔ کوتاہی کے ساتھ اس کی ایک وجہ نیب کی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے خلاف کاروائیاں بھی تھیں چنانچہ تماشا دیکھنے پر ہی اکتفا کیا گیا لیکن جب تپش اپنے آنگن تک پہنچی تو جنوری 2017ءمیں اسپیکر قومی اسمبلی نے نیب کے نئے قانون کی تیاری کیلئے بیس رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم کر دی۔ پارلیمانی کمیٹی کو چھ ماہ میں مسودہ قانون ایوان میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن گیارہ ماہ میں بیس اجلاس منعقد کرنے کے باوجود سیاسی جماعتیں شفاف احتساب کیلئے غیر جانب دار ادارے کے قیام کے قانون پر متفق نہ ہو سکیں۔ پارلیمانی کمیٹی کا آخری اجلاس گزشتہ سال نومبر میں منعقد ہوا تھا اورعین اس موقع پر جب قومی احتساب کمیشن کے نام سے نئے ادارے کے قیام کے قانون کی کمیٹی میں متفقہ منظوری کا عمل شروع ہونے جا رہا تھا تب پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اچانک اس کی مخالفت کا اعلان کر کے موجودہ احتساب آرڈیننس کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کر دیا۔اس سے قبل ایم کیو ایم بھی نئے قانون کے مسودے کی مخالفت کر چکی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی ججز اور جرنیلوں کو احتساب کے دائرے میں لانے کی تجویز ان کی اپنی جماعت کی طرف سے مسترد کر دی گئی کیونکہ موجودہ ملکی حالات میں اب تماشادیکھنے کی باری پیپلز پارٹی کی تھی اس لئے اس نے ن لیگ کے ساتھ پس پردہ اس شق کو نئے قانون میں شامل کرنے پر اتفاق کے باوجود پائوں پیچھے کھسکا لئے۔ جبکہ فیض آباد دھرنے کے نتیجے میں پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر قانون زاہدحامد کوبھی استعفی دینا پڑا جس کے بعد کوئی اجلاس منعقد نہ ہو سکا اور یوں احتساب کمیشن کے قیام کا معاملہ ایک بار پھر ٹھپ ہو گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد اب پاکستان مسلم لیگ ن کی جمہوری حکومت کی مدت بھی ختم ہونے جا رہی ہے لیکن آمر کا کالا قانون بدستور برقرار ہے جس کی زد میں پیپلز پارٹی کے بعد اب مسلم لیگ ن ہے جس کی قیادت کے پاس اب سوائے پچھتانے کے کوئی چارہ نہیں،کیونکہ ہے جرم ضیعفی کی سزا مرگ مفاجات۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین