• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر میں سرکاری تشدد کی نئی لہر میں درجنوں افراد جاںبحق اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ نوجوانوں کو پھر سے جنگلی جانوروں کا شکار کرنے والی چھرے والی بندوقوں سے نشانہ بناکر ان کی بینائی چھین لی گئی۔ اب یہ اطلاعات آرہی رہی ہیں کہ انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ حالات گمبھیر ہیں۔اس کے ساتھ ہی سڑکوں پر سامان حرب سے لیس افواج نمودار ہوگئی ہیں جس سے غیر معمولی تنائو اور گھیرائو کی کیفیت ہے، اس دوران سڑکوں پر یا تو فوجی گاڑیوں کی آمد و رفت رہی یا چیختی ایمبیولنسوں کی۔بھارتی فوجیوں نے تمام ضابطوں اور قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے زخمیوں، ایمبیولنسوں، ڈاکٹروں حتٰی کہ اسپتالوں پر بھی حملے کئے، پولیس نے لاشیں چھیننے کی بھی کوشش کی اور جنازوں میں شرکت کرنے والوں پر فائرنگ بھی کی ،میری پیڑھی کی زندگیوں کا لگ بھگ دو تہائی حصہ سوگ میں گزرا ہے، میں نے ہر ایک کو کسی نہ کسی شکل میں جبروتشدد کا نشانہ بنتے دیکھا ہے جن میں رشتہ دار، دوست، ہمسائے، واقفکار اوراجنبی سبھی شامل ہیں، اپنی نوجوانی کے دنوں میں بحثیت صحافی میں نے سینکڑوں خبروں اور تجزیوں کے ذریعے مرنے والوں اور ان کے لواحقین کے کرب اور الجھنوں کو بے جان اور افسردہ اصطلاحوں میں قید کرنے کی سعئی ناکام کی ہے،دیگر کشمیریوں کی طرح میں نے بھی ظلم اور جبر کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے،1990کے اوائل میں رمضان میں ہمارے علاقے میں پہلا فوجی محاصرہ ہوا جس میں ہماری لائبریری کو تہس نہس کرکے میرے والد صاحب اور چھوٹے بھائی کو دن بھر غیر قانونی حراست میں رکھا گیا اور ذہنی اذیّت کا نشانہ بنایا گیا، ایک فوجی افسر نے لائبریری میں موجود پاکستان میں شائع ہونے والی کتابوں کی موجودگی پر سخت غصّے کا اظہار کیا اور اس ضمن میں بار بار استفسار کیا۔اس کے بعد فوجی محاصرے معمول بن گئے، یونیورسٹی میں دوران تعلیم کئی بار غیر قانونی حراست، تشدد اور گالم گلوچ کا نشانہ بننا پڑا، یہ سلسلہ راہ چلتے پیدل یا گاڑی سے اتارکر یا گھر کے اندر سے زبردستی نکال کر انجام دیا جاتا تھا، بالآخر ایک دن میں پھٹ پڑا اور گالیوں کے جواب میں زبان و ادب کے چنندہ استعارات کا وہ استعمال کیا کہ سننے والے ظالم اور مظلوم دونوں حیرت میں جیسے سن ہوکر رہ گئے، اس کے جواب میں میری وہ درگت بنائی گئی کہ اللہ کی پناہ مگر میں خوف سے یکدم آزاد ہوگیا،اس کے بعد کئی موقعوں پر مار کھائی جس میں میرا سر بری طرح مجروع ہوگیا اور میری داہنی ہاتھ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی مگر میں اپنی دانست میں غلاموں والی فرمانبرداری سے یکسر بری ہوگیا تھا۔
مگر حالات و واقعات سے قلب و ذہن پر پڑنے والے زخم ہر نئے واقعے سے مزید گہرے ہوتے گئے، مجھے اب بھی اپنے پڑوسی نثار ثنااللہ یاد ہیں جنہیں اپریل 1995 کے اوائل سے عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد مسجد کے باہر فوجیوں نے دھر لیا جو ہنوز لاپتہ ہیں، ایک اور پڑوسی احمداللہ کو فوج کے حمایت یافتہ بندوق برداروں نے گھر سے اغوا کیا اور دوسرے دن ان کی تشدد زدہ لاش نزدیکی کھیتوں سے ملی20 جولائی 1992ء کو میں سرینگر کے امیرا کدل علاقے میں تھا کہ اچانک کسی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا جس کے جواب میں نیم فوجی بارڈر سیکورٹی فورس نے چھ راہگیروں کو قتل اور درجنوں کو زخمی کردیا، اگرچہ میں بھی زد پر تھا مگر مشیت الٰہی سے میں بچ گیا البتہ میرے سامنے دو افراد لقمہ اجل بن گئے، اس کے بعد میں کافی دیر تک ذہنی دباؤ اور صدمے کا شکار رہا، اس واقعے کے سوا سال بعد اکتوبر 1993 میں فوج نے میرے آبائی قصبے بجبھارا میں پچاس سے زائد شہریوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کردیا، میں نے بیسیوں افراد کو تڑپتے ہوئے مرتے دیکھا اور ہمارے گلی کوچے خون سےلال ہوگئے ڈیڑھ ماہ بعد اوائل دسمبر میں میرے دوست اور انسانی حقوق کے کارکن فاروق احمد بٹ کو فوج نے دن دھاڑے ان کی دکان سے گرفتار کرلیااور وہ اب تک لاپتہ ہیں، تین ہفتوں بعد 27 دسمبر کو فوج نے میرے کزن نورالامین کو فائرنگ کرکے قتل کردیا، مارچ 2000ء میں فوجیوں نے میری ممانی کے کزن تیئس سالہ ظہور احمد کو گھر سے باہر شام کو چہل قدمی کرتے ہوئے اغوا کرلیا. اسے تین اور شہریوں کے ساتھ ایک پہاڑی علاقے میں لے جاکر قتل کرکے لاشوں کو جلاکر ناقابل شناخت بنادیا بعد میں فوج نے دعویٰ کیا کہ یہ لشکر طیبہ کے پاکستانی مجاہدین تھے جو حال ہی میں ہوئے سکھوں کے قتل عام میں ملوث تھے، جولائی2017 کو برہان وانی کے جاں بحق ہونے کے بعد قتل و غارتگری کی نئی تاریخ رقم کی گئی جس میں سینکڑوں نوجوانوں کو بڑی بیدردی سے قتل کیا گیا اور ہزاروں افراد بشمول بچوں اور نوجوانوں کی آنکھوں کو دانستہ زخمی کرکے انہیں نابینا بنادیا گیا، ان حالات و واقعات پر لکھنے کی پاداش میں ہمارے گھر پر فوج اور نیم فوجی دستوں کے ذریعے تین حملے کرائے گئے جس سے کافی تباہی پھیلائی گئی،پھر ہم لوگ بھاگ کر لگ بھگ ایک سال تک گھر سے باہر رہے، دو سال گزرنے کے باوجود اب تک ہم نے اپنے گھرکی مرمت نہیں کی کہ مبادا پھر سے مزید تباہی مچادی جائے، بے تحاشہ جبر و کرب کو دیکھ کر اور محسوس کرکے میں سخت ٹراما کا شکار ہوگیا جس کی وجہ سے اب میں مستقل ادویات لینے پر مجبور ہوگیا ہوں، مسلسل اور مستقل بے بسی کی اس حالت میں اپنے زندہ رہنے پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے، اس صورتحال کو میں نے اپنی ایک نظم میں یوں قید کیا ہے:
آؤ ماتم کریں کہ زندہ ہیں
اپنے اس شہر میں کہ جسمیں اب
نحس روحوں کا راج چلتا ہے
ذرے ذرے سے ہول آتا ہے
گھر ہیں تابوت کی طرح وحشی
جن میں رہنے سے خوف آتا ہے
آرزؤں کی بات کیا کرنا؟
دل ہیں ویران کھنڈروں کی طرح
چار جانب اندھیر نگری ہے
جس پہ ہر دم ہے سایہ آفات
جسمیں چمگادڑوں کا ڈیرہ ہے
جسمیں عفریت اپنا منہ کھولے
سعد روحوں کا خون پیتے ہیں
کالے جادو کا سحر ہے جس پر
اور آسیب کی حکومت ہے
جو اجل کی طرح بھیانک ہے
مکڑیوں کی طرح یاس زدہ
بد روحوں کا ہے ایک میلہ سا
جن کو دیکھیں تو دم سا گھٹتا ہے-
کیا بتاؤں کہ زندگی کیا ہے؟
زندہ رہ کے بھی زندگانی سے
ہم کو رہ رہ کے خوف آتا ہے
زیست رقصاں ہے خون کی لے پر
سب کو آسیب نے چبا ڈالا
سب کو آسیب نے نگل ڈالا
موت بہتر ہے ایسی دنیا سے
آ ؤ مرنے کی ہم دعا مانگیں
اور ماتم کریں کہ زندہ ہیں
اپنے اس شہر میں کہ جسمیں اب
نحس روحوں کا راج چلتا ہے
ذرے ذرے سے ہول آتا ہے.
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین