• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


شام کے شہر روما میں مبینہ طور پر زہریلی گیس کے حملے میں کم از کم 100افراد جاں بحق ہوگئے، جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی۔ ٹرمپ نے ٹویٹ پر شامی اتحادیوں روس اورایران کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مذکورہ حملے میں ذمہ دار قرار دیا۔ برطانیہ نے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی جواز نہیں۔ یورپی یونین نے روس اور ایران پر زور دیا ہے کہ وہ شامی حکومت کو روکیں۔ دوسری جانب شامی حکومت اور روس نے کیمیائی حملے کی خبروں کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیا ہے، ماسکو نے اس ضمن میں خبردار کیا ہے کہ جھوٹی رپورٹوں کو شام پر حملے کے لئے جواز نہیں بننے دیں گے، شام میں امریکہ کی عسکری مداخلت کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔ سرزمین شام پر شب ظلمت کے اندھیرے گہرے اور خون مسلم کی ارزانی بڑھتی چلی جارہی ہے تو اس کی بنیادی وجہ دنیا کی مختلف قوتوں کے شام سے وابستہ مفادات ہیں۔ عرب دنیا میں 18دسمبر 2010ء کو تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی لہر نے خطے کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، مصر، یمن، لیبیا، عراق اور شام میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ تیونس، مصر، لیبیااور یمن میں حکمرانوں کیخلاف احتجاجی تحریکیں کامیاب ہوگئیں تو اسے ’’عرب بہار‘‘ قرار دیا گیا کہ عوام کو موروثی بادشاہتوں اور فوجی آمریتوں کے تسلط سے آزادی مل رہی تھی،لیکن بدقسمتی سے ان عوامی تحریکوں کو ناکام بنانے اور مسلم دنیا میں خانہ جنگی شروع کرانے کی خواہشمند طاقتیں اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوگئیں اور ملک شام اس خوں ریزی کا سب سے بڑھ کر نشانہ بنا۔2011ء کے اوائل میں بشار الاسد کے خلاف مسلح بغاوت ہوئی جس میں باغیوں کو بڑی برق رفتاری سے کامیابیاں ملیں، دمشق پر باغی حملہ زن ہوا ہی چاہتے تھے کہ شام کو ایران کی مدد حاصل ہوگئی، باغیوں کے قدم رک گئے تو دنیا میں وحشت و بربریت کی علامت داعش اس قضیے میں کود پڑی۔ شام کے ساتھ روس، چین، ترکی اور امریکہ سمیت بہت سے ممالک کے مفادات و تحفظات تھے، یوں ان سب ممالک کی لڑائی کا میدان سرزمین شام بن گئی، جس میں ایک اندازے کے مطابق پچھلے سات برس میں ایک تہائی شامی لقمہ اجل بنے۔ بشار الاسد کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ باغیوں کی کامیابی ان کے صنعتی و تجارتی مفادات کے لئے خطرہ ہے چنانچہ وہ خم ٹھونک کر اس کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ کاش اس خانہ جنگی کے آغاز میں ہی یہ معاملہ اندرون ملک ہی مذاکرات سے طے کر لیا جاتا، بیرونی مداخلت کی راہیں مسدود کردی جاتیں تو یہ قیامت شام پر نازل نہ ہوتی لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ جس کی ذمہ داری بشار الاسد پر ہے تو باغی بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔ اس المناکی پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عالمی طاقتیں اور خطے کے چیدہ ممالک سر جوڑ کر بیٹھتے اور اس مسئلے کاکوئی مستقل حل نکالتے لیکن صدحیف کہ صورتحال اس کے برعکس رہی اور اب بھی جوں کی توں ہے، عالمی طاقتیں اور خطے کے ممالک جنگ بندی میں کردار ادا کرنے کے بجائے خود اس جنگ کا حصہ بن کر شامیوں کے قتل عام میں شریک دکھائی دیتے ہیں۔ یہ امر قابل غور ہے کہ کہ شامیوں کی آزمائش کے دن ختم ہونے میں کیوں نہیں آرہے؟ اس کا جواب ہے کہ عالمی طاقتیں فی الحقیقت اس ملک میں اپنی جنگ لڑ رہی ہیں۔ اس کا ثبوت مذکورہ حملے کے بعد امریکہ اور روس کے بیانات ہیں۔ ایسا ہے تو پھر یہ اقوام متحدہ، عرب لیگ اور او آئی سی کس مرض کی دوا ہیں؟ کیا یہ محض کاغذی تنظیمیں یا ادارے ہیں؟ عرب لیگ اور او آئی سی جیسے مردہ گھوڑوں سے تو خیر کوئی توقع ہی عبث ہے، کیا وجہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسے ادارے کو اکیسویں صدی کا سب سے بڑا المیہ دکھائی نہیں دے رہا؟ کیا اس لئے کہ اس میں امریکہ بھی ایک فریق ہے؟ اگر ایسا ہے تو دنیا میں جنگوں کو روکنا ممکن نہ ہوگا۔ عالمی برادری، برطانیہ اور یورپی یونین اس جنگ میں شریک ممالک کی بجائے اقوام متحدہ کو شام کا مسئلہ فوری طور پر حل کرنے پر قائل کریں، ورنہ یہاں سے اٹھنے والے شعلے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔

تازہ ترین