• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ خاتون نہایت ذہین، پڑھی لکھی اور سابق رکن اسمبلی ہیں۔ سابق رکن اسمبلی کی حیثیت سے وہ عہد رفتہ کی چلتی پھرتی تاریخ ہیں۔ یوں بھی انسان بڑھاپے کی حدود میں داخل ہو جائے تو وہ چلتی پھرتی تاریخ ہی ہوتا ہے لیکن اگر کبھی اتفاق سے کوئے سیاست سے بھی تعلق رہا ہو، رکن اسمبلی بھی منتخب ہوا ہو، حافظہ بھی اچھا ہو اور سب سے بڑھ کر اگر خاتون بھی ہو اور باتیں کرنے کا شوق مزاج کی مجبوری ہو تو سمجھ لیجئے کہ وہ زندہ تاریخ کے ساتھ ساتھ ابلتی تاریخ ہے۔ جہاں بیٹھے تاریخی واقعات اور مشاہدات ابل کر باہر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔
مدت ہوئی چائے کی ایک محفل میں انہیں سننے کا موقع ملا۔ موضوع تو یہ نہیں تھا لیکن وہ موضوع کو کھینچ کر عہد رفتہ کی جانب لے گئیں اور اپنی ’’ممبری‘‘ کے زمانے کا ذکر چھیڑ کر اہل محفل کا دل لبھانے لگیں۔ وہ فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں یا منتخب کروائی گئی تھیں۔ یہ ان انتخابات کا ذکر ہے جو جنرل ضیاء الحق نے 1985ء میں پارٹیوں کے بغیر یعنی (Partyless) کروائے تھے اور جس میں اراکین پارٹی ٹکٹ کے بجائے اپنے زور پر منتخب ہوئے تھے۔ اپنے زور پر منتخب ہونے والے ہیرے ہوتے ہیں اور اکثر منہ زور ہوتے ہیں۔ انہیں قابو کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے اور قابو رکھنے کے لئے بہت سے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں جن کا میں سرکاری ملازمت میں عینی شاہد ہوں اور کبھی کبھار ان یادوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
زندہ تاریخ خاتون چونکہ رکن اسمبلی منتخب ہوگئی تھیں اوراسمبلی میں پہنچنے سے پہلے بعض طاقتور جرنیلوں سے خاندانی مراسم استوار کر چکی تھیں اس لئے ان کی گورنر پنجاب جنرل جیلانی مرحوم سے بھی سیاسی دوستی تھی۔ بقول ان کے کہ اسمبلیاں منتخب ہوچکی تھیںاور وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کا انتخاب ہونے والا تھا۔ وہ ایک صبح گورنر جیلانی کے دربار میں موجود تھیں جو اس وقت کے نہایت طاقتور جرنیل اور حکمران تھے۔ اس دربار میں کئی اراکین اسمبلی اور کچھ معززین تشریف فرما تھے جن میں میاں نوازشریف بھی شامل تھے۔ میاں نوازشریف اس سے قبل صوبائی وزیر خزانہ رہے تھے اور اب پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے تھے۔ خوبرو میاں نوازشریف نہایت ملائم، مودب اور کچھ شرمیلے سے تھے۔ انہی دنوں گورنر جیلانی صدر ضیاء الحق سے خفیہ طور پر میاں نوازشریف کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی منظوری لے چکے تھے لیکن فی الحال اسے خفیہ رکھا گیا تھا۔ جنرل جیلانی اراکین سے مل کر نہ صرف ان کی (نبضیں) ٹٹول رہے تھے بلکہ وعدے وعید بھی جاری تھے۔ دربار سجا تھا۔ میاں نوازشریف جنرل جیلانی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اتنے میں گورنر ہائوس کے دو ویٹر نہایت صاف ستھرے یونیفارم میں ملبوس پگڑیاں سروں پر سجائے چائے کے ٹرے اٹھائے داخل ہوئے۔ وہ جھک جھک کر سب کی خدمت میں چائے اور کیک بسکٹ وغیرہ پیش کررہے تھے۔ گورنر صاحب نے اپنی چائے کا پیالہ اٹھایا تو ویٹرمیاں نوازشریف کے سامنے جھک گیا۔ آناً فاناً آنکھ جھپکنے میں جنرل جیلانی نے جھکے ہوئے بہرے کےسر سے پگڑی اتاری اور فوراً میاں نوازشریف کے سر پر سجا دی۔ حاضرین مجلس چونکے اور میاں صاحب کو وزارت اعلیٰ کی مبارکیں دینے لگے۔ جرنیل حکمرانوں کے اشارے سمجھنے اور ان اشاروں پر سر جھکانے والوں کے لئے یہ ایک واضح پیغام تھا۔ آپ اس ادا پر بالکل حیران یا پریشان نہ ہوں کیونکہ میں نے تمام فوجی آمریتوں میں وزراء اعظم اور وزراء اعلیٰ اسی طرح بنتے دیکھے ہیں اور بنانے والے انہیں یہی مقام دیتے ہیں لیکن پھر اس کے بعد ان کی اپنی محنت، کارکردگی، صلاحیت اور مقدر پہ منحصر ہے کہ کون کامیاب ہوتا اور سیاست میں مقام پیدا کرتا ہے۔ سیاسی میدان میں قوت بن کر ووٹ بینک بنانے میں کامیاب ہونا نہایت کٹھن منزل ہے۔ فوجی سرپرستی کی چھتری بہرحال اتر جاتی ہے اور کڑی دھوپ میں کھڑا کر جاتی ہے۔
محترم خاتون نے یہ قصہ یا زندہ تاریخ کا ایک ورق سنا کر قہقہہ لگایا اور مجھے قدرے غور سے دیکھا کیونکہ میں قہقہے میں شریک نہیں ہوا تھا۔ وہ خاموش ہوئیں تو میں نے پوچھا کہ محترمہ جنرل ضیاء الحق نے ان ’’بے پارٹی‘‘ انتخابات کے بعد جناب محمد خان جونیجو کووزیراعظم، میاں نوازشریف کو وزیراعلیٰ پنجاب، سید غوث علی شاہ کو وزیراعلیٰ سندھ، جناب غلام قادر کو وزیراعلیٰ بلوچستان اور ارباب جہانگیر کو وزیراعلیٰ سابق صوبہ سرحد بنایا تھا۔ ان میں کتنے حضرات جنرل ضیاء الحق کے انتقال کے بعد اپنے زور پر وزیراعلیٰ بنے اور پھر وزیراعظم منتخب ہوئے؟ میری بات سن کر وہ جھینپ گئیں اور چند لمحے سوچ کر فرمانے لگیں کہ کوئی بھی نہیں۔ میں نے پھر پوچھا ’’جب میاں نوازشریف کو جنرل جیلانی نے وزیراعلیٰ بنایا تو پنجاب کے کتنے روایتی سیاسی خاندان وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے؟ ملک الہ یار اور چودھری پرویز الٰہی تو بہرحال میدان میں موجود تھے؟ وہ سوال سن کر سنجیدہ ہوگئیں تو میں نے عرض کیا کہ بعد کے انتخابات میں صرف میاں نوازشریف وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اور پھر ان کے نامزد غلام حیدر وائیں مرحوم اور پھر ان کے بھائی شہباز شریف وزیراعلیٰ بنے۔ روایتی سیاسی گھرانوں کو بھی مقتدر قوتوں کی حمایت حاصل تھی لیکن وہ اس مقام تک نہ پہنچ سکے۔ چودھری پرویز الٰہی بعدازاں ضرور وزیراعلیٰ بنے لیکن جنرل مشرف کی خدمت کر کے۔ 1988ء کے انتخابات میں وہ اپنا خواب پورا نہ کرسکے۔ میرے سوالات سن کر انہوں نے استفسار کیا ’’ڈاکٹر صاحب آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ حضور آپ کی طرح بہت سے تجزیہ نگار، دانشور اور ٹیلی ویژن پلیئر (کھلاڑی) بار بار کہتے ہیں کہ میاں صاحب کو بھٹو صاحب کی مانند فوج نے اقتدار دیا۔ بلاشبہ یہ سچ ہے اور تاریخ کا حصہ ہے لیکن قابل غور بات صرف اتنی سی ہے کہ جب جرنیلوں کی چھتری اتر گئی اور انتخابات ہوئے تو کون پارٹی کو مستحکم بنا کر اور ووٹ بینک تعمیر کر کے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوا۔ فوج کی نامزدگی کا طعنہ دینے والوں کو ان کی اپنی قائدانہ صلاحیتوں، محنت، ووٹ بینک بنانے کی حکمت عملی اور کامیابیوں کا کریڈٹ بھی دینا چاہئے اور انہیں تسلیم بھی کرنا چاہئے۔زندگی کی دوڑ اورمقابلوں میں بیک وقت کتنے ہی لوگ شریک ہوتے ہیں لیکن منزل پر کون پہنچتا ہے یہ اس کی محنت، کامیاب حکمت عملی اور سب سے بڑھ کر مقدر کی دین ہوتا ہے۔ مقدر ساتھ دے تو بظاہر اپنے سے بہتر مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن محنت شرط ہے۔
اتنے عروج کے بعد آج کل میاں صاحب زوال کا شکار ہیں لیکن عروج و زوال اقتدار کی سیاست کا لازمی حصہ ہیں۔ کل کیا ہو یہ میرا رب جانتا ہے لیکن میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کئی کمزوریوں کے باوجود میاں نوازشریف مقدر کے سکندر ہیں۔ یہ میری رائے ہے جس سے آپ کو اختلاف کا پورا حق ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین