• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوم کے ساتھ اس سے بڑھ کر بھی کوئی حکومتی مذاق ہو سکتا ہے؟کہ حکمران گورننس کو قومی خزانے کی مکمل دیدہ دلیری سے لوٹ مار کا ذریعہ بنا لیں؟ سرکاری اداروں پر مسلط کئے گئے ان کے درباری حواری کھلم کھلا اپنے اللے تللوں اور عیاشیوں کو کروڑوں اور اربوں کی بدعنوانیوں کی شکل دے دیں۔ کل قومی معیشت عالمی مالیاتی اداروں کے تباہ کن قرضوں اور نوٹ چھپائی پر چلائی جائے، حکمران اور سیاست دان چلتی صنعتوں اور بھاری منافع کی تجارت پر اپنی اجارہ داری قائم کرلیں۔ حکمرانی کو تجارت بنا دیں ۔ بڑے بڑے سرمایہ دار اپنے اتحاد سے ٹیکس کے منکر ہو جائیں یا وصولی والے بابو چوری میں شریک جرم بن جائیں۔ پھر جب ملک دیوالیہ ہونے لگے باہر ٹھکانے لگائے اور اندرون ملک فرنٹ مینوں کی حفاظت میں محفوظ کالے دھن کو قانوناً جائز بنانے کے لئے معمولی شرائط پر عام معافی کا اعلان کر دیا جائے۔یہ سب کچھ آئین پاکستان کی روح سے متصادم نہیں؟
قارئین کرام!آپ آگاہ ہو ہی چکے کہ ماضی کے برعکس گنجائش یکسر نہ ہونے کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عوامی اور ملکی مفاد سے متصادم یہ واردات پھر ہو گئی ۔ وزارت عظمیٰ کا منصب سنھبالےمگر اسے کسی کی ذاتی چاکری جانتے ہوئے منصب سے گریزاں ہمارے وزیر اعظم نے بالآخر احتسابی عمل کے بڑے نتائج جلد آنے کے امکان پر’’ 5نکاتی ٹیکس ایمنسٹی ا سکیم‘‘کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پانچواں اعلان ہے، لیکن اس مرتبہ قوم اسے با آسانی ہضم کرتی معلوم نہیں دے رہی۔ پی ٹی آئی نے تو اپنے فوری رد عمل میں اسے قوم کے ساتھ بڑا فراڈ قرار دیتے ہوئےیکسر مسترد کر دیا ہے۔ حکومت اور سیاسی جماعتوں کے اثرات سے آزاد بہت سنجیدہ اور نرم گو ماہرین اقتصادیات نے میڈیا کے ساتھ اپنے تجزیوں میں بہت سخت الفاظ میں وزیر اعظم کے اس اعلان کو قومی معیشت پر دوررس اور فوری نتائج کے حوالے سے مہلک قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق بڑے بڑے وائٹ کالر مجرموںاور عوام الناس کے مفادات کے حوالے سے اعلان کردہ ایمنسٹی کا موازنہ کیا جائے تو یہ مجرموں کو غیر معمولی رعایت اور ٹیکس گزار پابند عوام کے ساتھ کھلی نا انصافی ہے جو ہر شہری کو سماجی انصاف کی آئینی ضمانتوں سے متصادم ہے۔
ٹیکس ایمنسٹی ، ٹیکس چوری اور اسٹیٹس کو کے حکمرانوں کی مچائی بے پناہ کرپشن کے لئے ڈھال کا ذریعہ ہی نہیں ہے یہ سرکاری بلیک میلنگ اور نا اہل حکمرانی کی بھی انتہائی شکل ہے ۔ ایسے کہ وزیر اعظم کا یہ اقدام اپوزیشن ، میڈیارپورٹس اور دل جلے رائے سازوں اور تجزیہ نگاروں کی اس مسلسل اور شدید تنقید اور یقین کی تصدیق بھی ہے کہ ملک ہزارہا ارب کاسرمایہ فقط ٹیکس چوری بچانے کے لئے ہی نہیں بلکہ بھاری بھرکم ملکی سرمایہ کی فقط منی لانڈرنگ کہیں زیادہ ہوئی ہے لیکن حکمران انکاری ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اور ان کی حکمرانی گویا دودھ کی دھلی ہے ان کی حکومت میں ایک پائی کی کرپشن نہیں ہوئی۔ حکومتی بلیک میلنگ کا پہلو بھی یوں واضح ہے کہ حکومتی وکلاء تاثر دے رہے ہیں کہ اگر وزیر اعظم کی اعلان کردہ ایمنسٹی کو قوم نے ہضم نہ کیا اور اس میں رکاوٹیں ڈالیں تو ملک کی مکمل بے نقاب اور تشویشناک اقتصادی صورت سنبھل نہ پائے گی۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ کالے دھن والے ہمارے سرمایہ دار جو ’’الحمدللہ‘‘ بیرون ملک سرمایہ کاری میں اپنی حیران کن صلاحیتوں کا جوہر دکھا چکے ہیں کیا وہ بھی ایمنسٹی کا فائدہ اٹھا کر چلو سارا نہیں کچھ سرمایہ پاکستان بھی منتقل کرتے ہیں یا یہ ان کے لئے فقط ناجائز سرمائے کا ذریعہ ہی ہے جائز سرمایہ کاری کا نہیں؟
تیسری مرتبہ وفاقی اقتدار میں آنے والی ن لیگی حکومت ٹیکس اصلاحات تو کیا کرتی، اس حساس ترین موضوع کو تو اس نے اپنی ’’پاور بیس‘‘ کی حساسیت کے باعث سنجیدگی یا دکھاوے کے لئے بھی ایڈریس نہیں کیا۔ نہ اس لوٹی یا ناجائز طور پر چھپائی سوئس بینکوں میں موجود 200بلین ڈالر کی رقوم کو ، جس کی تصدیق خود ہمارے ’’ماہر بحالی قومی معیشت‘‘ وزیر خزانہ نے اسمبلی فورم پر کی۔ واضح رہے کہ اگست 2014 میں ڈار صاحب نے اعلان کیا تھا کہ ہم سوئس بینکوں سے پاکستانیوں کے یہ 200بلین ڈالر واپس لائیں گے۔ گویا یہ رقوم واضح طور پر وہاں موجود ہیں جبکہ حالات بھی سازگار کہ سوئیزر لینڈ کی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے جو قانون سازی کی ہے اس میں منی لانڈرنگ اور سرکاری خزانے کی لوٹ مار سے متاثرہ ممالک کے لئے ممکن ہو گیا ہے کہ ان کی حکومتیں سوئس حکومت سے اس کالے دھن کی واپسی کے لئے رجوع کر سکتی ہیں۔ لیبیا جیسے نحیف ملک کی حکومت نےسوئس بینکوں سے ناجائز دولت کا ایک حصہ وصول کر لیا ہے۔
پاکستان ایک تو عشروں سے اقتصادی بحرانی کیفیت سے نکل ہی نہیں پا رہا۔ افغانستان میں روسی افواج کی ناجائز موجودگی اور اسے نکالنے کی بین الاقوامی کوششوں میں وہ ماحول بن گیا تھا کہ ہم خود کچھ کئے بغیر افغان جنگ کا بیس کیمپ بننے سے اقتصادی دبائو سے آزاد ہو گئے، دوسری صورت پھر 9/11 کے حادثے سے پیدا ہوئی کہ پاکستان جس میں فوجی ، سول حکومت امریکن اینگلو بلاک کو ہضم نہیں ہو رہی تھی، ’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘‘ کے تناظر میں پاکستان ایک بار پھر اس جنگ کا فرنٹ لائن پارٹنر بن گیا ۔ اور بڑھتے داخلی اقتصادی دبائو سے بھی آزاد ہو گیا تھا۔
جہاں تک معاملہ منتخب جمہوری حکومتوں کا رہا بھٹوتاموجود ہ عباسی حکومت ان کے ادوار اقتصادی بحران میں ہی گزرے، اوپر سے کرپشن ، نا اہلی اور حکمرانوں کی ہوس اور عیاشیاں، ناکوئی اقتصادی منصوبہ بندی پالیسی نہ حکمت اس کے برعکس ، مہلک نیشلائزیشن اور ایسی ہی نجکاری ، صنعت سیاسی خاندانوںکی لونڈی بنی اور تجارت سیاسی اور سیاست تجارت ہوتی گئی۔اس سارے پس منظر میں قومی معیشت کو چلانے کے لئے جو تباہ کن ماڈل اور اپروچ اختیار کی گئی، اس سے پیدا ہونے والی مکمل امکانی تباہی کو سنبھالا دینے کے لئے سب سے بڑا انحصار تو آئین کی روح کے خلاف عوام پر ہی ٹیکسز کا زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالا گیا۔ کروڑہا پر مشتمل عوامی طبقہ اپنے پر ناجائز اور بلاوجہ ٹیکسوں کی بھرمار اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کا سامنا کر کے شدید قومی اکنامک ڈس آرڈر کی امکانی تباہی کو کنٹرول کرتا رہا۔
اب پھر دو منتخب جمہوری حکومتوں کا ایک عشرہ ، اسی صورت پر اختتام پذیر ہے کہ’’ قرضبر قرض پر بیس کرتی قومی معیشت کے لئے حکومت نے اپنا دور ختم ہونے سے ڈیڑھ ماہ پہلے جو اقدام کیا ہے وہ آئینی ضمانتوں کے برعکس عوام سے نا انصافی اور آئین کی روح سے متصادم ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین