• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ برس بائیس جون 2017ءکو برادر محترم نے ایک موقر معاصر میں کالم لکھا۔ عنوان تھا، پارٹی از اوور۔ اس کالم میں خبر دی گئی تھی کہ فیصلہ کرنے والوں نے مئی 2013 میں بچھنے والی بساط لپیٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اگست 2017ء میں کسی بھی وقت کوچ کا نقارہ بجا دیا جائے گا۔ اس کالم پر بہت لے دے ہوئی۔ صحافی کو اپنی خواہشیں بیان کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ واقعہ خوش گوار ہو یا بدشگونی کی بات ہو، صحافی کو خبر دینا ہوتی ہے۔ برادر محترم نے پیشہ ورانہ فرض ادا کیا تھا۔ چند روز بعد آمنا سامنا ہونے پر میاں نواز شریف نے بھی کالم نویس سے یہی کہا کہ ان کی خبر درست نہیں۔ میاں صاحب اگر ایسا نہ کہتے تو کیا کہتے؟ صحافی کی خبر درست ثابت ہوئی۔ 28جولائی کی دوپہر وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا البتہ اس کے بعدا سکرپٹ سے ہٹ کر بھی کچھ مکالمے سامنے آئے۔ نواز شریف نے خواجہ ناظم الدین، فیروز خان نون، محمد خان جونیجو اور ظفر اللہ جمالی کے برعکس خاموشی سے گمنامی کے اندھیرے میں اترنے سے انکار کر دیا۔ یہ وہ راستہ ہے جو آٹھ اگست 1977کو بھٹو صاحب نے چنا تھا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی ہو گئی تھی۔ پیپلز پارٹی اپنی افتاد میں مزاحمتی جماعت ہے۔ گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں قبروں کی تعداد محض پانچ نہیں، خود سوزی کرنے والے کارکن یعقوب مسیح اور نعرے بلند کرتے ہوئے دار پر چڑھنے والے عثمان طوطی کی نظر نہ آنے والی قبریں بھی اسی گنبد کے نیچے موجود ہیں۔ سیاسی کارکنوں کو جس ٹکٹکی پہ باندھ کر ساٹھ ہزار کوڑے لگائے گئے، لوہے کا وہ بے جان ڈھانچہ بھی یہیں رکھا ہے۔ اگر کبھی سائنسی ترقی کی مدد سے ماضی کا کہا سنا ضبط سماعت میں لایا جا سکا تو لاہور، اٹک، بالاحصار اور سکھر جیل کے عقوبت خانوں کی چیخیں بھی اسی گنبد میں سنائی دیں گی۔ اسلام آباد کی مسجد میں بھی ایک مقبرہ موجود ہے، دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے… دیکھنا یہ ہے کہ 2018میں پارٹی ختم ہوتی ہے یا ایک نیا باب لکھا جاتا ہے؟
پارٹی ختم ہونے کا یہ استعارہ ہماری تاریخ میں اکتالیس برس پہلے 1977ءکے موسم گرما میں شامل ہوا۔ کراچی میں امریکی قونصل خانے کے سربراہ رابرٹ مور نے اسلام آباد میں سفارت خانے کے سیاسی مشیر ہاورڈ بی شیفر کوفون پر کوڈ ورڈ میں کہا تھا ‘‘دا مین از فنشڈ، پارٹی از اوور’’ (بھٹو کا قصہ ختم ہو گیا۔ اس کی سیاست دفن کرنے کا بندوبست کر لیا گیا ہے)۔ بھٹو صاحب نے اگلے روز قومی اسمبلی میں دندناتے ہوئے اعلان کیا کہ پارٹی از ناٹ اوور۔ اب مڑ کر دیکھیں تو چار اپریل 1979 ءکو امریکی قونصل جنرل کا قول صحیح نظر آ رہا تھا لیکن 16 نومبر 1988ءکی شام معلوم ہوا کہ پارٹی ختم نہیں ہوئی۔ 2017ء میں سہیل وڑائچ کی پیش گوئی صرف پانچ ہفتے میں زمینی حقیقت بن گئی مشکل مگر یہ ہے کہ یہ زمین کا جھگڑا نہیں، اصول کی جنگ ہے۔ اس میں پارٹیاں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ چہرے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ لڑائیاں ہاری جاتی ہیں۔ پسپائی بھی ہوتی ہے۔ جنگ ختم نہیں ہوتی۔
28 جولائی 2017 ءکے بعد ان گنت مرتبہ یہ جملہ دہرایا گیا کہ نواز شریف کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ ایک سے زیادہ باخبر صحافی خانقاہوں اور حرم سراؤں سے یہی خبر لائے تھے۔ مگر پھر بیچ میں جی ٹی روڈ کا ایک سفر آتا ہے، کچھ ضمنی انتخاب ہوتے ہیں، عدالت کی کارروائی آگے بڑھتی ہے، بلوچستان حکومت تبدیل ہوتی ہے، سینیٹ انتخابات سے "مثبت نتائج" برآمد ہوتے ہیں، عامر لیاقت حسین، رضا حیات ہراج، رمیش کمار اور بھون داس سیاسی وفاداریاں بدلتے ہیں۔ اگر سامری جادوگر نے اپنا جال پھیلایا ہے تو دریا کی موج بھی اپنی روانی میں ہے۔ اب سے چالیس برس بعد اس ملک کا مورخ زیادہ واضح لفظوں میں لکھے گا کہ یہ بدعنوانی یا احتساب کا قضیہ ہی نہیں تھا۔ یہ سازش اور جمہوریت کی کشمکش تھی۔ اس میں چھوٹے موٹے معرکوں کی ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ مولوی تمیز الدین 1954 میں مقدمہ ہار گئے لیکن جنگ نہیں ہارے۔ عبدالرب نشتر قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ کا معرکہ جیتنے سے فضل الٰہی چوہدری کو نہیں روک سکے مگر جنگ نہیں ہارے۔ فاطمہ جناح 2 جنوری 1965 کا الیکشن ہار گئیں لیکن ایوب آمریت جنگ نہیں جیت سکی۔ این اے رضوی اور جنرل عمر نے شوکت اسلام کا جلوس کامیاب کر لیا، عوام کی حاکمیت کا راستہ نہیں روک سکے۔ بھٹو صاحب پھانسی پہ جھول گئے مگر پارٹی ختم نہیں ہوئی۔ بے نظیر بھٹو جلاوطن بھی ہوئیں اور شہید بھی کی گئیں، جنگ ختم نہیں ہوئی۔ ضیاالحق اور ان کے طائفے نے سوویت افواج کو افغانستان سے نکال باہر کیا، افغان جنگ نہیں جیت سکے۔ سعودی ولی عہد نے مسلم دنیا میں بنیاد پرستی کے پروجیکٹ کا محرک بتا دیا ہے، اب زبیدہ جلال سے پوچھنا چاہئے کہ محترمہ کیا آپ اب بھی خود کو بنیاد پرست قرار دیتی ہیں۔ شیخ رشید سے پوچھنا چاہئے کہ وہ راولپنڈی کے تربیتی کیمپوں والا بیان ابھی باقی ہے یا اس کا سیاق و سباق بدل گیا ہے؟ عمران خان سے پوچھنا چاہیے کہ سرکار اب تو آپ کی صوبائی حکومت کے دن پورے ہو رہے ہیں، وہ طالبان کے دفاتر کھولنے والا ارادہ کیا بدل لیا آپ نے؟ اب جب کہ ایم کیو ایم کا شیرازہ بکھر چکا ہے، 1984ء میں ایم آر ڈی کے مقابلے میں لسانی عصبیت کا طوفان کھڑا کرنے کی تجویز دینے والے سے کچھ کچہری کرنی چاہیے۔ وساوے والا اور چکوال میں فرقہ پرستی کی کان کنی کرنے والوں سے پوچھنا چاہیے کہ صاحب کیا اب معدنیات کے ذخائر کیمبل پور کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔ 2015 میں اپیکس کمیٹیاں تشکیل پائی تھیں، بہت دن ہوئے، ان کی خبر نہیں آئی۔ کیا وہ قصہ لپیٹ لیا گیا؟ تاریخ امیر علی ٹھگ کے ساتھیوں کا شبینہ جشن نہیں، انسانی قافلے کی پیش قدمی کی مسلسل ضیافت ہے۔ اس میں مزاحمت کا جھنڈا کبھی کبھار لڑکھڑاتا ضرور ہے، لیکن اسے تھامنے والے ہاتھوں کی قطار ختم نہیں ہوتی…
تو مرے دست بریدہ کا کنایہ تو سمجھ
یعنی تجھ کو مری بیعت نہیں ملنے والی
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کس سادگی سے فرما دیا کہ ٹیکس ایمنسٹی کا اطلاق سیاست دانوں پہ نہیں ہو گا۔ حضور ستر برس تک جو لوگ سرکاری ملازمت کے باوصف صدر، گورنر اور وزیر رہے، انہیں سیاستدان شمار کیا جائے گا یا نہیں؟ آئین میں جہاں شہریوں کو بالغ حق رائے دہی کا حق دیا گیا ہے، وہاں سیاست دان کے لئے کسی خاص قبیلے یا انتظامی ادارے کی تخصیص کی گئی ہے؟ کیا بیلٹ باکس میں ووٹ ڈالنے والا سیاسی عمل میں شریک نہیں ہوتا؟ زمینوں کی خرید و فروخت کے دھندے سے سیاست دانوں اور دیگر رفقائے کار کی مالی سرپرستی کرنے والا کیا سیاست دان شمار نہیں کیا جائے گا؟ وزیر اعظم نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں سیاست دان کا لفظ استعمال کر کے اس بیانیے کو تقویت دی ہے جو اس ملک میں جمہوری شعور کا دشمن ہے۔
آئندہ چند ماہ میں عام انتخابات ہونا ہیں۔ اس انتخابی مشق کو التوا میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ البتہ 1997 کی طرح تانگے کے نشان والے بہت سے آزاد امیدوار سامنے آ سکتے ہیں۔ ایسے لوگ نہایت پاک باطن اور اہل ضمیر ہوتے ہیں چنانچہ آئندہ پارلیمنٹ میں واضح مینڈیٹ کا وہ خطرہ شاید باقی نہ رہے جس کے خوف سے پچھلے دس برس سے چائنا کٹنگ، سول انجینئرنگ، عبوری بائی پاس اور نادیدہ انڈر پاس بنانے کی ایک طویل مشق کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سندھ کی معروف ثقافتی علامت رلی کی طرح رنگ برنگے چیتھڑوں سے بنی ہوئی یہ چادر پارلیمنٹ میں بچھائی جائے گی تو اگلا مرحلہ کیا ہو گا؟ تاریخ ایک رات کی پارٹی نہیں اور اس کا خمار ایک دن میں ختم نہیں ہوتا۔ پارٹی کو بہت دفعہ ختم کیا جا چکا ہے، ہر بار معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی از ناٹ اوور اور مشکل یہ ہے کہ پارٹی ختم ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ یہ ٹیکری نمبر چار سو اٹھارہ کا معرکہ نہیں، آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر پہ بسنے والے اکیس کروڑ لوگوں کے حق حکمرانی کی لڑائی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین