• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حدچاہئے مخالفت میں سیاست کے واسطے
ایک بمقابلہ ایک، دو بمقابلہ دو تو درست مگر یہ ایک بمقابلہ تین غلط ہے، مگر ہمارے ہاں سیاست میں بھی ہوس مخالفت زوروں پر ہے، یہ افراط و تفریط سوائے انتشار و تفریق کے اور کیا لائے گی؟ ن لیگ تنہا اپنا سیاسی مورچہ سنبھالے ہوئے ہے اور دو بڑی جماعتیں بمعہ بیشمار نرسری جماعتیں یعنی پی پی، پی ٹی آئی اور وغیرہ وغیرہ سب ن لیگ کے مقابل اس طرح صف آرا ہیں کہ وہ اسے خالص بنا کر چھوڑیں گی اور خالص دودھ بمقابلہ ایک من ملاوٹ شدہ دودھ زیادہ بھاری ہوتا ہے، فصلی بٹیروں کا چنبہ اڈپڈ جائے گا، حیرانی ہے ایک چھٹی ہوئی اور دوسری چھوٹی ہوئی پارٹی اس پارٹی کو کیسے آئوٹ کر پائے گی جس نے کل بھی پاکستان بنایا تھا آج بھی بنانے میں جتی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن ایک نظریہ ہے، شخصیت نہیں، یہ چلتی رہے گی اور پاکستان مسلم لیگ کی صورت یاد دلاتی رہے گی کہ پاکستان مسلم لیگ نے بنایا تھا وہی سنوارے گی، یہ جو کچھ ہو رہا ہے ایک طرح سے مسلم لیگ کی تطہیر ہے اس کی نفی نہیں، حقائق خود کومنوا لیتے ہیں، اس لئے چندا فکر کی ضرورت نہیں، ہمارے برائیوں کے گراف اس ڈگری تک چلے گئے جہاں سے فزکس کے اصول کے مطابق گرنے کا عمل شروع ہوتا ہے، اور پریشان ہونے کی اس لئے بھی ضرورت نہیں کہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ ہی اس کثرت اور خلوص سے لگتا ہے کہ یہ دعائیہ نعرہ قبولیت پا چکا ہے اس لئے پاکستان ہماری غفلتوں کے باوجود قائم ہے، تنقید کیا ہے کسی کو کیا پتا ہے، البتہ دشنام کو صورت تنقید بدزم دیکھا، افسوس ہوا، یوں نہیں ہونا چاہئے تھا، پاکستان بارے فکر مند ہونے کے بجائے ہر پاکستانی اپنے اندر کے نیب میں اپنے عیب ڈھونڈے۔
٭٭٭٭
موٹر سائیکل اور سڑک
صد شکر ہے کہ آج سائیکل کی جگہ ہر ہم وطن کے پاس موٹر سائیکل ہے، یہ ترقی کی علامت ہے، اور اچھا ہے کہ موٹر سائیکل نے سائیکل کی جگہ لے لی ہے مگر یہ تو اچھا نہیں کہ ساری سڑک بھی موٹر سائیکل نے لے لی ہے، اور وہ اس قدر ’’ان پریڈ کٹ ایبل‘‘ ہو چکی ہے کہ کوئی بَر سڑک یہ نہیں جان سکتا کہ یہ کہاں سے نکلے کہاں جا کر ڈوبے گی، خود اپنے لئے خطرہ دوسروں کے لئے خطرہ اس پر تمام بائیکر حضرات ضرور غور کریں اور تاخیر نہ کریں، کسی بھی قوم کو اچھے سے اچھا قانون کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک وہ قانون پر از خود اپنی خوشی سے عمل نہ کرے، صراط مستقیم کا مطلب ہے کہ ہر شخص اپنے مقررہ ٹریک پر چلے، وہ خود کو یہ بتائیں کہ یہ سڑک ہے زندگی کی، موت کا کنواں نہیں اور نہ ہی دیگر لوگ تماشائی، منزل اعتدال پسندوں کو ملتی ہے انتہا پسندوں کو نہیں، جب بھی کوئی موٹر سائیکل سوار کٹ مارتا ہے خدانخواستہ کٹ جاتا ہے، یا کاٹ ڈالتا ہے، زندگی اور یہ دنیا اللہ کی نعمتیں ہیں ان کو دانستہ ضائع کرنا ناشکر اور ناشکرے مالک کو پسند نہیں، یہ سڑکیں خدا کی زمین پر بنتی ہیں، اور قرآن حکیم کہتا ہے:’’اور اللہ کے بندے وہ ہوتے ہیں جو زمین پر نرمی اور تحمل سے چلتے ہیں (چاہے وہ پیدل ہوں یا سوار)‘‘ ایک حدیث ہے کہ ’’جس راستے سے جاتے ہو اس سے واپس مت آیا کرو،‘‘ یہ ٹو وے ٹریفک کا تصور دیا گیا ہے، اس لئے کسی کی نہیں مانتے اپنے خدا اور اس کے رسول ﷺ کی تو مان لیں، اسی میں سب کا بھلا ہے، ایک بزرگ نے کہا میں مسجد جانے سے ڈرتا ہوں اس لئے کہ مجھے موٹر سائیکلوں سے ڈر لگتا ہے فٹ پاتھ یا سڑک کے ساتھ کچی جگہ پر پیدل چلنے والے ہوتے ہیں مگر ہم نے کیا سب نے دیکھا ہے کہ موٹر سائیکلیں پیدل چلنے والوں کے راستے پر بھی رواں دواں رہتے ہیں، رکنا ان کی لغت ہی میں نہیں، ایسے بائیکرز جن کی موٹر سائیکل پر پوری فیملی سوار ہوتی ہے وہ بھی کرتب دکھانے سے باز نہیں آتے، فارسی مثل ہے ’’اصیل زا شاہ کافی است‘‘ شریف کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے مگر ہمارے لئے اشارہ کافی نہیں تو ہم نے خود کو انسانوں کی کس کیٹیگری میں ڈال دیا اس کا فیصلہ ہم خود کر سکتے ہیں۔
٭٭٭٭
ہم سب اچھے ہیں
ہم سب اچھے ہیں، پھر ہم میں سے برا کون؟ اور اگر برے ہیں تو اچھا کون؟ یہ ہے وہ سوال جس کے در پر ہم سوالی بن کر کھڑے ہیں، جب ہمیں ڈیزائن کیا گیا تھا تو اچھی فطرت پر، پھر ماحول نے جو ہم خود ہیں، نے ہمیں وہاں کھڑا کر دیا جو کھڑے ہونے کی جگہ نہ تھی، خیر اس بات کو بھی چھوڑیئے اس پر غور کریں کہ آج ہم سب افلاطون ہیں، عقل کے نہیں اس فن کے کہ سادہ سی بات کو پیچیدہ کیسے بنایا جاتا ہے، خواتین پر طرح طرح کے تبصرے کئے جاتے ہیں صرف یہ بات چھپانے کے لئے کہ عورت ہی مرد کی بہترین مارکنگ کرتی ہے، مرد حضرات اس سے تو انکار نہیں کر سکتے کہ وہ عورت کے سامنے اپنے صحیح مقام پر آ جاتے ہیں یعنی اپنی اوقات میں آ جاتے ہیں، یہ بیماری بھی ہمارے معاشرے میں وائرل ہے کہ کوئی خود کو برا نہیں سمجھتا، عورت، عاجزی سے عقل کی بات کرتی ہے اس لئے اسے ناقص العقل کہا جاتا ہے، مرد بڑی مردانگی سے حماقت کرتا ہے، اسے مردِ دانا سمجھا جاتا ہے، تتلی، شاہین سے زیادہ موثر ہوتی ہے، مگر شاخوں پر بیٹھے چمن کے الو اسے کمزور گردانتے ہیں، ہم دراصل حسن کو کمزوری سمجھ کر اس پر جھپٹتے ہیں، حالانکہ حسن سے زیادہ طاقتور کوئی چیز نہیں، حسن کو اس کے ٹھکانوں سے نہ جانا جائے کیونکہ وہ پتھر سے شیشے تک، برائی سے اچھائی تک، عورت سے مرد تک الغرض زمین سے آسمان تک میں پایا جاتا ہے، اگر ہم اسے اس کے ٹھکانوں سے الگ دیکھیں تو مشاہدہ حقیقت کیا جا سکتا ہے، ہماری ان باتوں کو ہم سے منسوب نہ کیا جائے، یہ فقط باتیں ہیں، یہ بھی سوچیں کہ جب بھی بات کو کہنے والے سے نتھی کیا ہم نے دونوں کو کھو دیا، الغرض ہم سب اچھے ہیں اور اگر یہ سچ ہے پھر ہم میں سے ہی کوئی ایک دوسرے کو برا کیوں کہتا ہے، ہم سب اس لئے برے نہیں کہ ہمارے اندر اچھا بننے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔
٭٭٭٭
کیا یہ ملک جاگیر ہے؟
....Oزرداری:حکومت بنا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھوں گا،
بلاول! سنا آپ نے؟ آپ ہنوز ڈکی میں ہیں!
....Oبلاول:نواز شریف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر قومی اداروں پر حملے کر رہے ہیں،
اگر کوئی کہے اٹھو نماز پڑھو تو یہ کیا قومی اداروں پر حملہ ہو گا؟
....O سراج الحق:قائداعظم کے پاکستان پر خاص ٹولے نے قبضہ کر لیا ہے۔ آزاد کرائیں گے۔
یہ خاص ٹولہ بھی تو مقبوضہ ہے اسے بھی آزاد کرائیں۔
....Oمحمد علی درانی:وزیراعظم چاہتے ہیں عوام کے حقوق کی خلاف ورزی پر عدلیہ، منہ کو تالا لگا لے،
آپ بھولے بسرے گیت ہیں چاہتے ہیں کہ لوگ پھر سے سنیں، اس لئے الاپ کیا۔
٭٭٭٭
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین