• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہار کا موسم رنگینیاں بکھیرنے کے بعد رواں ہے، موسم گرما کی آمد آمد ہے، وطن عزیز میں یہ الیکشن کا سال ہے اسی لئے سیاسی میدان بھی ابھی سے گرم ہوچکا ہے، کارزار سیاست میں جماعتوں کے درمیان بیانیہ کا مقابلہ چل نکلا ہے، پیپلزپارٹی روایتی نعرے روٹی کپڑا اور مکان، ن لیگ ترقی اور ووٹ کو عزت دو جبکہ تحریک انصاف پاک اور شفاف یعنی ’’صداقت وامانت‘‘ کا نعرہ لگا کر انتخابی میدان میں اترنے کے لئے تیار ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ سیاسی واحتسابی صورت حال میں عام انتخابات بروقت ہوسکیں گے، ایسے میں جب انتخابی اصلاحات ادھوری ہیں، نئی حلقہ بندیوں پر خود حکومتی اعتراضات اٹھ چکے ہیں، شفاف و غیر جانبدار انتخابی عمل پر سوالات اٹھنے لگے ہیں، ایک جماعت کے خلاف کڑا احتساب کا شور اور باقیوں کو بچانے کا زور ہے۔ انتخابی عمل جیسے تیسے مکمل کر بھی لیا گیا تو انتخابی نتائج کون تسلیم کرے گا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف اپنی نااہلی کو قبل ازوقت دھاندلی اور اپنی جماعت کو اقتدار سے محرومی کے بعد آئندہ انتخابی عمل سے بھی نکال باہر کرنے کی شکایت کررہے ہیں، وہ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب اگر بروقت انتخابات کی بات کرتے ہیں تو اس پر عمل بھی ہونا چاہئے جس میں سب کو برابری کی بنیاد پر موقع ملنا چاہئے۔ ان کے خیال میں جو بات تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کہتی ہیں وہی بات جناب چیف جسٹس بھی کررہے ہیں۔
سیاسی میدان کھلا تو ہے لیکن اس میں آنے اور کھیلنے کی راہ اتنی ہموار نہیں۔2013 کے عام انتخابات کے بعد تمام بڑی جماعتیں اقتدار میں آگئیں اور تقریباً پانچ سال اپنے اپنے صوبے میں خوب ’’کارکردگی‘‘ دکھائی۔ لیکن 2018 سال کی انتخابی سیاست کا ماحول اور منظر بدل رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے سیاسی قلعے میں جاکر پھنکار رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ساتھ پاکستان میں اقتدار کی باگ ڈور کا فیصلہ بھی پنجاب ہی کرتا ہے اسی لئے تو شہباز شریف ایک دہائی تک اقتدار میں رہنے کے بعد ترقی کا بیانیہ لے کر میدان میں ہیں، پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین سندھ کی محرومیوں کو ختم کرنے کی بات کے بجائے پنجاب فتح کرنے کا اعلان کررہے ہیں، خان صاحب خیبرپختون خوا میں اپنی کارکردگی کا جواب دینے کے بجائے پیپلزپارٹی کو سندھ اور ن لیگ کو پنجاب میں چیلنج کررہے ہیں۔ کاش ایک دوسرے کے گھر میں نقب لگانے سے پہلے یہ سب اپنے گریبان میں جھانکنے کا بھی تکلف کرلیں۔ شاید کل عوام کے جذبات کا جواب دینے میں ان کو آسانی ہوسکے۔
بلاشبہ عوام کے مسائل کا حقیقی حل سیاسی وجمہوری نظام اور اسکی ڈیلیورنس میں ہے، اس نظام کی فعالیت اور مضبوطی بھی عوام کے اعتماد کی مرہون منت ہے، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی رسائی نےعوام میں شعور وآگاہی میں اضافہ اور موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی بھی کی ہے تاہم امر توجہ طلب ہے کہ تنقید کا ہدف اور جوابدہی کا عمل محض سیاسی اور جمہوری اداروں تک ہی محدود ہے۔ شاید اس کی وجہ شخصی وسیاسی آزادیوں کے بلند بانگ دعوے کرنیوالوں کا نامعلوم طاقتوں کے ہاتھوں بے بس و بےاماں ہونا ہے۔ ماضی میں ن لیگ طاقتوروں کی شفقت سے فیض یاب ہوکر اقتداریاب ہوئی جبکہ موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ جمہوری جدوجہد کا نشان پیپلزپارٹی اس کا عملی نمونہ بنی ہوئی، اور تحریک انصاف تو ہے ہی ’’انصاف‘‘ کیساتھ، پس اس مرتبہ امپائر نے ساتھ دیا تو تبدیلی ضرور آجائے گی، جس کی قوی امید کی جارہی ہے۔ عوام کی بجائے ’’خواص‘‘ سے گہرے لگائو نے ملک کو ہمیشہ عوامی راج سے محروم رکھا، یہی طرز سیاست اب بھی جمہوریت کے بنیادی عنصر جمہور کی محرومی کا سبب رہے گا۔
کہا جاتا ہے کہ اصول پسندی، معاملہ فہمی اور حب الوطنی ریاست اور قوم کی قسمت بدل دیتے ہیں تاہم ہمارے ہاں ذاتی و خاندانی مقدر سنوارنے کی پریشانی سب سے بڑی ہے لہٰذا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے اس قومی خدمت میں پیش پیش ہیں یہی لوگ سیاسی جماعت سے وابستگی کےوقت مخصوص نظریئے، سوچ اور منشور پر یقین کا اظہار اورعمل کے لئے عہدوپیمان کرتے ہیں پھر ذاتی مفادات قومی مفاد پر غالب آتے ہیں، سوچ ترجیحات اور نظریات میں تبدیلی آتی ہے اور پھر پارٹی بدل جاتی ہے۔ اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد آئندہ کے اقتدار کی فکر انہیں اپنے ’’عظیم مقصد‘‘ سے غافل نہیں ہونے دیتی۔ آئندہ انتخابات سے قبل سیاسی موسم بدل رہا ہے، پرندے اڑان بھر چکے ہیں، نئے گھونسلوں کی تلاش میں، اب ان کا نیا ٹھکانہ کہاں ہے اس کا پتہ ان بیچاروں کو بھی آخر وقت تک نہیں۔ پاکستان میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کی تاریخ پرانی اور توانا ہے۔ نامور خاندان قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگ کے بجائے کانگریس کا ساتھ دیتے ہیں، قیام پاکستان کا یقین ہو جانے کے بعد بابائے قوم کے ساتھ آکھڑے ہوتے ہیں۔ فوجی آمر کا ساتھ دینے کے لئے قائد کی بہن کے ساتھ غداری کرتے ہیں اور توہین آمیز مہم چلاتے ہیں۔ ڈکٹیٹر کو پہلے ڈیڈی کہتے ہیں اور پھر عوام کی محبت میں اس کے سامنے کھڑا ہوجاتے ہیں۔ اپنے علاقے کے مقتدر الیکٹبلز کبھی مذہب کے نام پر شب خون مارنے والے کا ساتھ دیتے ہیں، کبھی دہشت گردی کی عفریت میں ڈبونے والے آمر کو کندھا دیتے ہیں۔ یہ تان اب بھی نہیں ٹوٹی اب تو چھوٹے بڑے خاندان کی تمیز بھی ختم ہوگئی ہے، عوام کے مفاد اور نظام کی تبدیلی کے نام پر نئی سیاسی صف بندیوں میں انہی یک رکنی جماعتوں کے تنہا کردار اہمیت حاصل کر گئے ہیں، اسی لئے ان کی قیمت بھی کچھ زیادہ ہے۔
میاں صاحب کے تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کا امکان پیدا ہوا تو یہی قومی رہنما ڈکٹیٹر کی گود سے اتر کر سیدھے میاں صاحب کی محبت میں قربان ہوگئے، خوب اچھا وقت گزارنے کے بعد یہی وفادار اب نئی محبت کی تلاش میں ہیں کچھ تومنزل پاچکے ہیں کچھ سفر میں ہیں۔ خان صاحب ذاتی وسیاسی کردار کے حوالے سے بے داغ ہونے کا دعویٰ کر کے میدان میں آئے تو نظام بدلنے کے لئے نئے اور قابل چہروں کو متعارف کرانے کا عہد کیا۔ الیکٹبلز کی سیاست نہ کرنے اور کٹی پتنگوں کو اپنی چھت فراہم نہ کرنے کی قسمیں بھی کھائی تھیں۔ عوام نے دیکھا، وہی بڑے متروک سیاسی خاندان، ہارے ہوئے پرانے کھلاڑی اور شاطرانہ چالوں کے ماہر کردار جوق درجوق پارٹی کا حصہ بن کر شناخت بن گئے ہیں۔2018 ء کے انتخابات ہونے سے پہلے ابھی کئی اہم مرحلے باقی ہیں، بڑےمیاں صاحب کو احتساب کا نشانہ بنانے کے پراسیس میں پارٹی کو توڑنے میں ناکامی بڑا داغ بن رہا ہے لہٰذا انتخابی عمل سے پہلے جنوبی پنجاب کے بڑے وفاداروں کا عہد وفا تبدیل کردیا جائے گا۔ پنجاب کے دیگر اہم اضلاع میں بھی کام ہو رہا ہے اور انتخابی عمل سے پہلے ن لیگ کو بڑا دھچکا پہنچایا جائے گا۔ کچھ پیپلزپارٹی اور کچھ انصاف کے پرچم میں لپیٹ دئیے جائیں گے اسی کا اثر وفاق پر پڑے گا اور بچ جانے والے وفادار لیگی اپوزیشن میں چلے جائیں گے۔ عالمی سطح پر دبائو کی کیفیت، خطے کے حالات اور اندرونی معاملات 2018کے عام انتخابات پر اثرانداز نہ بھی ہوں تو پاکستان کی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ ضرور ثابت ہوں گے۔ کوششیں اور دعوے اپنی جگہ مگر بے اصولی و بے وفائی کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستانی عوام پہلے سے زیادہ باشعور ہوچکے ہیں، 60فی صد نوجوان اپنے ووٹ کے استعمال کا درست فیصلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں، وہ یہ پتلی تماشہ بھی دیکھ رہے ہیں۔ محض اقتدار کی خاطر کسی بھی قسم کی وضاحتیں اور دعوے ہضم کرنا بہت مشکل نظر آتا ہے، سیاست میں قائم و دائم اور مقبول وہی رہتا ہے جو اپنے نظریات اور قومی و عوامی نصب العین کو ترجیح بناکر قیادت کے ساتھ مخلص اور اپنی اصل شناخت برقرار رکھتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین