• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ناکام ریاست بن جائیں۔ مسئلہ کشمیر پانی سے اور پانی کا مسئلہ ہمارے قیمتی اثاثوں سے منسلک نہ کر دیا جائے۔ ہم اِدھر کے رہیں نہ اُدھر کے۔ خدانخواستہ اگر ایسا کچھ ہوگیا تو ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم خود ہوں گے۔ حالات کا گھیرا جوں جوں ہمارے گرد تنگ کیا جارہا ہے توں توں ہم بکھرتے جارہے ہیں۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ دن نہ آجائے جہاں ہم گھٹنوں کے بل گریں اور کوئی ہماری مدد کو نہ آئے۔ ہم ناکام ہوئے تو مجموعی طورپر ناکام ہوںگے اور قصوروار بھی ہم خود ہی ہوں گے آخر! آخر کب تک ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھے رہیں گے۔ اوپر سے نیچے، دائیں سے بائیں نظر دوڑائیں، ماضی کی لکیریں پیٹتے پیٹتے2018ء کا انتخاب آگیا۔ کوئی ایک بھی سیاسی جماعت بتائیں جس کا ہوم ورک مکمل ہو۔ منشور تو درکنار کسی سیاسی جماعت نے ابھی تک عوام کو نیا سبز باغ دکھانا بھی گوارا نہیں کیا۔ آسیب زدہ محلوں کے مکین فرشتوں کی آمد کے منتظر بیٹھے ہیں۔ کوئی ہمارے لیڈر صاحبان کو سمجھائے کہ اب ایسا نہیں چلے گا۔ انہیں بتانا پڑے گا کہ 2018ء کے بعد کا پاکستان کیسا ہوگا؟ کیا ہمارے خشک ہوتے دریائوں میں پانی کے بجائے دودھ، شہد کی نہریں بہیں گی یاہم بدستور بھارتی آبی دہشت گردی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ کوئی یقین دلائے کہ اس بھارتی آبی دہشت گردی کا مقابلہ کون اور کس طرح کرے گا۔ کیا کسی میں ہمت ہے کہ وہ بتائے پہاڑوں سے بہنے والا قیمتی پانی کیسے محفوظ ہوگا؟ کوئی ہمیں بھی سمجھائے کہ سبز پاسپورٹ کی دنیا میں عزت کیسے بحال ہوگی؟ کسی کے پاس وہ فارمولا ہے کہ ہم اقوام عالم میں فخر سے سر اٹھا کے چلیں۔ کرپشن سے پاک پاکستان کا خواب ہم سب دیکھتے ہیں لیکن جب بات اپنے گریبانوں تک پہنچتی ہے تو سب بیک زبان چیختے ہیں کیا اس چیخ و پکار کا تدارک ممکن بھی ہی یا نہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں سے تخت لاہور کے مالک ہمیں بتا سکتے ہیں کہ کیا ان کے دور میں بہو، بیٹیوں کی عزتیں محفوظ ہوگئیں یا ننھے معصوم بچوں کو جنسی درندگی کے بعد قتل کی وارداتیں رک گئیں اور ملزم کیفرکردار تک پہنچ گئے۔ سوال لاڑکانہ کے گدی نشینوں سے بھی یہی ہے کہ کیا سندھ میں غریب ہاریوں کا جو معاشی استحصال ہو رہا ہے کیا جاگیرداری نظام کے خلاف بھٹو کے جانشین اس فریب سے باہرنکل آئے یا سندھ کے وڈیروں کی سیاسی اجارہ داری جوں کی توں جاری ہے۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی حالت ابتری اور بے بسی کی کھلی تصویر ہے جس کا ہر نقش بُری طرح مسخ ہے۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کا احتساب کے نام پر فراڈ سب کے سامنے ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کا زوال ان کی ناقص کارکردگی سے زیادہ سیاست دانوں کی بدنیتی اور لوٹ مار کی خصلتوں کا نتیجہ ہے۔ خرابی کی پہلی وجہ ہی منشور میں قول و فعل کا تضاد ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کا منشور تعمیر و ترقی، خوش حالی اور فلاح و بہبود کے بجائے بد وضع چہرے پر غازے کی وہ دبیز تہہ ہے جسے ووٹروں کا دل لبھانے کے لئے سجایاجاتا ہے۔ کوئی دینی سیاسی جماعت ہو یا سیکولرازم کی حامی جماعت اس معاملے میں سب ایک ہی صف میں کھڑی ہیں۔ ملکی و عوامی بدحالی کی دو بنیادی وجوہات ہیں، ایک تو جھوٹے وعدوں اور نعروں کی چادر اوڑھے سیاسی جماعتوں کے منشور اور دوسرا ایک ہی سوراخ سے ہمارا باربار ڈسے جانا۔ کیا بحیثیت مجموعی ہماری عقل گھاس چرنے گئی ہے کہ ہم انہی لوگوں کو باربار ووٹ دیتے ہیں جو طے شدہ اور ثابت شدہ کھوٹے سکے ہیں جنہوں نے اس ملک کی معیشت کو نچوڑنے کی قسم اٹھا رکھی ہے جو ایسی جونکیں ہیں جن کا پیٹ نہیں بھرتا۔
اس ملک میں عوامی فلاح کی سب سے بڑی دعویدار اور عوام کو طاقت کا سر چشمہ کہنے والی پیپلز پارٹی اپنے سب سے بڑے سیاسی نعرے روٹی کپڑا اور مکان کی آبیاری تو نہ کرسکی البتہ اس کے قائدین اور رہنما دودھوں پھول رہے ہیں۔ یہ جماعت چار بار اقتدار میں آئی مگر اپنے منشور کے مطابق نہ ہی غریبوں کو چھت اورکھانا مہیا کر سکی اور نہ ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مزدوروں کو نمائندگی دلا سکی۔ تعلیم، معیشت اور صحت کے معاملے میں تو پیپلز پارٹی نے جو گل کھلائے ہیں وہ آج کانٹے بن چکے ہیں۔ اس کے آخری دور میں ملکی معیشت کی جڑیں بری طرح مسخ کر دی گئیں اور توانائی کے شدید بحران نے سر اٹھایا۔ ملک پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کے حجم میں مزید اضافہ ہوا اور غیرترقیاتی اخراجات کی بھرمار ہوگئی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے آخری دور اقتدار سے قبل اس کے منشور میں کوئی غیرمعمولی ہدف یا پروگرام شامل نہیں تھا جس سے یہ توقع کی جاتی کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آگئی تو پاکستانی معیشت میں انقلاب لے آئے گی۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کا بھی یہی وطیرہ رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی عوام کو توانائی، مضبوط معیشت، تعلیمی اصلاحات، فوری انصاف، روزگار کے مواقع، زرعی ترقی ، جدید انفراسٹرکچر، منصفانہ احتساب، زرعی برآمدات، امن و امان، ہم آہنگی اور گڈ گورننس کاخوبصورت لالی پاپ دیا نتیجہ یہ ہے کہ توانائی کے بحران کا شیر پانچ سال گزرنے کے بعد بھی لوڈشیڈنگ کی دھاڑیں مار رہا ہے، مسلم لیگ(ن) منصفانہ احتساب کا قدم تو نہ اٹھا سکی البتہ خود احتساب کے شکنجے میں کسی گئی۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ، برآمدات میں افسوس ناک کمی اور ناقص خارجہ پالیسی بھی مسلم لیگ ن کی دین ہے۔ جس کے حتمی نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔ رہی بات پاکستان تحریک انصاف کی تو خیبرپختونخوا میں پانچ برس اقتدارمیں رہ کر اس نے اپنے بہت سے بھرموں کا پول کھول دیاہے۔ آزاد احتساب بیورو انصافیوں کے منصفانہ منشور کا حصہ تھا مگر احتساب آزاد ہوا نہ ہی بیورو۔ خیبرپختونخوا میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جو عوام حتیٰ کہ وہاں کے مقامی میڈیا کی نظروں سے بھی اوجھل ہیں۔ پانامہ اور اقامہ کے شور تلے پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی بہت سی خامیاں دب چکی ہیں۔ اکابرین تحریک انصاف کا یہ دعویٰ کہ ’’ہم ایک ایسی تحریک کے داعی ہیں جس کا مقصد انصا ف پر مبنی آزاد معاشرہ ہو۔‘‘ ایک خوبصورت فریب ہے۔
جن سیاسی جماعتوں کے قائدین کی روش بدعنوانی، نالائقی و نااہلی، بددیانتی، ذاتی منفعت اور اغیار کی کاسہ لیسی پر مبنی ہو ان سے یہ توقع رکھنا بھی عبث ہے کہ وہ اپنے منشور پر عمل درآمد کرنے کی اوقات اور بساط رکھتے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ جب فیصلے کی گھڑی آتی ہے تو ہم ووٹ کا غلط استعمال کر کے ہر مرتبہ انہی لیڈروں کو سر پر بٹھا لیتے ہیں اور انتخابات کے روز بیلٹ باکس میں اپنے ہی خلاف پرچی ڈال آتے ہیں۔ اس سیاسی خودکشی کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ میں مبالغے میں ہوں کہ ہم ڈیڑھ سیانے ہیں یا پھردیوانے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین