• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں انتہائی فعال و متحرک عدلیہ اور بااختیار الیکشن کمیشن کی موجودگی کے باعث لوگ بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات ہماری قومی تاریخ میں سب سے منصفانہ اور مثالی ہوں گے لیکن قومی سیاست کی بساط پر مسلسل جس قسم کے واقعات رونما ہورہے ہیں، تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعداد ان کے پیش نظر شفاف انتخابات کے حوالے سے سنگین خدشات کا اظہار کررہی ہے۔ بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی اور پھر سینیٹ کے انتخابات میں مبینہ طور پر جتنے بڑے پیمانے پر ضمیروں کی خریدو فروخت کا کاروبار ہوا کسی بھی انصاف پسند شخص کے لیے اس سے انکار آسان نہیں۔ گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے دس ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے جس طرح پارٹی چھوڑنے ، جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام سے اتحاد بنانے اور عام انتخابات آزاد حیثیت میں لڑنے کا اعلان کیا ، اس سے اس شبہ کو تقویت ملی ہے کہ ماضی کے بیشتر انتخابات کی طرح آئندہ الیکشن بھی انجینئرڈ ہوں گے ۔یہ امر خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ منظر عام پر موجود ریکارڈ کے مطابق ان ارکان نے ماضی میں کبھی جنوبی پنجاب صوبے کے لیے کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی۔اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ نون لیگ کے مزید کئی ارکان جلد ہی ان کے کارواں میں شامل ہوجائیں گے۔پاکستان میں مقبول سیاسی جماعتوںمیں مخصوص مقاصد کے لیے غیرمرئی نقب زنی کوئی نئی بات نہیں اور بظاہر ایک بار پھر ویسی ہی کارروائیاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔سیاسی اور صحافتی حلقوں میں اس منصوبے کی باز گشت متواتر سنائی دے رہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں آزاد امیدواروں کو بڑی تعداد میں کامیاب بنانے کی کوشش کی جائے گی اور ان کے ذریعے وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کو حکومت بنانے سے روکا جائے گا ۔ تواتر کے ساتھ جو واقعات سامنے آرہے ہیں ان سے اس نوع کی بعض قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے۔کروڑوں پاکستانی اس صورت حال پر حیران ہیں کہ کرپشن کے خلاف سرگرم آزاد و خودمختار عدلیہ کی توجہ بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی اور سینیٹ کے انتخابات کے عجیب و غریب واقعات کی طرف کیوں نہیں گئی جبکہ یہ طریق کار ضمیر فروش اور بدعنوان عناصر کی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی یقینی بنانے کے مترادف ہے۔ وفاق اور پنجاب میں حکمراں اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کو شکایت ہے کہ قوم کو کرپشن سے نجات دلانے کے لیے جس عدالتی احتساب کے عمل سے سیاستدانوں ، اعلیٰ سول اور ملٹری حکام،جنرلوں ، ججوں، صنعت کاروں ، میڈیا اور قومی زندگی کے دوسرے تمام شعبوں کے نمایاں وابستگان کو گزارا جانا چاہیے تھا، اس کا شکنجہ عملاً صرف ایک سیاسی خاندان کے گرد کسا جارہا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے،جو عدالتی فیصلے کی رو سے پارلیمنٹ کی رکنیت اور تمام حکومتی مناصب کے لیے نااہل قرار پاچکے ہیں،گزشتہ روز احتساب عدالت سے باہر میڈیا سے بات چیت میں عام انتخابات کے حوالے سے اپنے خدشات کا بڑے دوٹوک انداز میں اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ’’ الیکشن لڑنے کیلئے سب کو یکساں مواقع ملنے چاہئیں لیکن کچھ کیلئے کھلا میدان تو کسی کو بند گلی میں دھکیلا جارہا ہے، یہ قبل از انتخابات دھاندلی ہے، ہم غیر شفاف الیکشن کی طرف جارہے ہیں جن کے نتائج کو کوئی قبول نہیں کریگا، جو ہوچکا ہے اور جو ہونے والا ہے اگر یہی کچھ ہوگا تو آپ صاف شفاف الیکشن کو بھول جائیں۔‘‘ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ مضبوط جماعتی سیاسی نظام ہی جمہوریت کے فروغ و استحکام کا باعث بنتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو شکست و ریخت کا ہدف بنائے جانے کا تاثر ملنا قومی یکجہتی کے لئے سخت نقصان دہ اور ملک میں انارکی پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔منصفانہ اور شفاف انتخابات ہی قوم کو حقیقی عوامی قیادت اور اعتماد و یقین عطا کرسکتے ہیں لہٰذا ایسی ہر کوشش سے اجتناب حب الوطنی کا لازمی تقاضا ہے جو منصفانہ انتخابات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہو۔

تازہ ترین