• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور (ن) لیگ حکومت فارن ایمنسٹی اسکیم کے جرات مندانہ اعلان پر یقیناََ مبارکباد کے مستحق ہیں جس کا بزنس کمیونٹی گزشتہ ایک سال سے مطالبہ کررہی تھی۔ گزشتہ دنوں صدر مملکت ممنون حسین نے اپوزیشن کی مخالفت کی پرواکئے بغیر فارن ایمنسٹی اسکیم کے 4 آرڈیننس کی منظوری دی جو فوری طور پر نافذ العمل ہوں گے اور اِن کا اطلاق 10 اپریل سے 30 جون 2018ء تک ہوگا۔ صدارتی آرڈیننس کے تحت سیاستدان اور اُن کی فیملی ایمنسٹی اسکیم سے مستفید نہیں ہوسکے گی۔ میں گزشتہ ایک سال سے فارن ایمنسٹی اسکیم کا بڑا حامی رہا ہوں جس پر میں نے کئی سیمینارز منعقد کئے اور اِس کی حمایت میںکالمز بھی تحریر کئے۔ گزشتہ سال فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کے نائب صدر کی حیثیت سے میرا بھی حکومت سے مطالبہ تھا کہ ’’ون ٹائم فارن ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا جائے جو وقت کی اشد ضرورت ہے۔‘‘ اس سے قبل کہ میں فارن ایمنسٹی اسکیم پر کچھ تبصرہ کروں، ماضی کے اُن حالات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کے باعث ملک کا بڑا سرمایہ مختلف ادوارِ حکومت میں بیرون ملک منتقلی کا سبب بنا۔
سقوط ڈھاکہ سے قبل پاکستان کا شمار ایشیاکے ترقی پذیر ممالک اور بڑی معیشتوں میں ہوتا تھا مگر سقوط ڈھاکہ کے نتیجے میں پاکستان کے صف اول بزنس ہائوسز شدید متاثر ہوئے اور غیر یقینی صورتحال کے باعث پاکستان کے 20بڑے خاندانوں نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کردیا۔ پاکستان کی معیشت کو دوسرا بڑا دھچکا اُس وقت لگا جب بھٹو کےدور حکومت میں اداروں کو قومیا لیا گیا، نتیجتاً ایسی صورتحال میں سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنا شروع کردیا جبکہ ایٹمی دھماکوں کے بعد فارن ایکسچینج اکائونٹس منجمد ہونے کے نتیجے میں بھی اِس سوچ نے جنم لیا کہ پاکستان میں اثاثے اور سرمایہ محفوظ نہیں، نتیجتاً پاکستان سے خطیر سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوا۔ بعد ازاں گزشتہ تین عشروں میں ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کہ ’’طالبان اسلام آباد تک پہنچ گئے ہیں‘‘ نے غیر یقینی کی صورتحال پیدا کی۔ کراچی میں امن و امان کی بدترین صورتحال، ایک سیاسی جماعت کی جانب سے بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور سانحہ بلدیہ فیکٹری میں 250 سے زائد مزدوروں کے جاں بحق ہونے کے بعد کراچی میں خوف و ہراس کی فضا پھیل گئی جس کے باعث کئی بڑے بزنس مین اپنا گھر اور کاروبار بیچ کر فیملی سمیت دبئی اور دنیا کے دیگر ممالک منتقل ہوگئے۔ ان حالات میں جب ہم سے بھی ایک سیاسی جماعت نے بھتے کی بڑی رقم کا تقاضا کیا اور نہ دینے پر ہماری فیکٹری کو آگ لگانے کی دھمکی دی تو ہم نے کراچی چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہونے کا فیصلہ کیا لیکن والدہ محترمہ کے انکار اور یہ کہنے پر کہ ’’پاکستان کو ہماری ضرورت ہے اور میں اپنا وطن چھوڑ کر کہیں نہیں جائوں گی‘‘ ہمیں اپنا ارادہ بدلنا پڑا۔ ایک اندازے کے مطابق ان بدترین حالات میں صرف کراچی سے 6ارب ڈالر سے زائد دبئی منتقل ہوئے اور دبئی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی گئی۔
درج بالا بیان کی گئیں وہ وجوہات تھیں جن کے باعث پاکستان کا ذہین طبقہ اور اربوں ڈالر بیرون ملک منتقل ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ میں فارن ایمنسٹی اسکیم کا حامی رہا۔ کچھ ماہ قبل مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سے ایک ملاقات میں، میں نے درخواست کی کہ حکومت فارن ایمنسٹی اسکیم کا جلد از جلد اعلان کرے۔ اس موقع پر میں نے میاں صاحب سے یہ بھی کہا کہ گوکہ یہ فیصلہ آسان نہیں مگر آپ جیسا لیڈر ہی یہ جرات مندانہ فیصلہ کرسکتا ہے۔ اسی طرح جب میں نے وفاقی وزیر سعد رفیق کو فیڈریشن ہائوس کراچی مدعو کیا تو ان سے بھی مجھ سمیت فیڈریشن کے دیگر عہدیداروں اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے فارن ایمنسٹی اسکیم کے اعلان کا مطالبہ کیا جس پر سعد رفیق نے کہا کہ ’’فارن ایمنسٹی اسکیم یقیناََ ملکی مفاد میں ہے مگر اپوزیشن جماعتیں اس پر بھی اپنی سیاست چمکائیں گی اور یہ تاثر دیا جائے گا کہ حکومت اپنے فائدے کیلئے یہ سب کچھ کررہی ہے، اس لئے ایف پی سی سی آئی اپوزیشن جماعتوں کو بھی آن بورڈ لے۔‘‘بعد ازاں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو فیڈریشن ہائوس مدعو کیا گیا اور اُنہیں اور ان کی ٹیم جس میں جہانگیر ترین اور اسد عمر بھی شامل تھے، کو فارن ایمنسٹی اسکیم کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’وہ ایسی کوئی بھی اسکیم جس سے پاکستان کو فائدہ ہو، کو سپورٹ کریں گے۔‘‘ عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی فارن ایمنسٹی اسکیم کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا مگر افسوس کہ اسکیم کے اعلان کے بعد پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعتیں اِس پر اپنی سیاست چمکارہی ہیں جس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پیش پیش ہیں جنہوں نے ایمنسٹی اسکیم کو یکسر مسترد کردیا ہے اور سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’تحریک انصاف برسراقتدار آنے کے بعد یہ اسکیم منسوخ کردے گی اور بیرون ملک سے سرمایہ واپس لانے والے ہر شخص سے پیسے کا حساب لیا جائے گا۔‘‘
میں عمران خان سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ خدارا وہ نواز شریف دشمنی میں اتنے اندھے نہ ہوں کہ اس کا نقصان پاکستان کی معیشت کو پہنچے۔ عمران خان کے دھرنوں اور احتجاجی سیاست کے باعث ملکی معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اور آج غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 26 ارب ڈالر کی سطح سے گرکر 12 ارب ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں جبکہ امریکی دبائو میں آئی ایم ایف کے تیور بھی اچھے نظر نہیں آرہے۔ ایسی صورتحال میں فارن ایمنسٹی اسکیم بیرون ملک سے سرمایہ وطن واپس لانے کا سنہرا موقع ہے جسے اگر ضائع کردیا گیا تو ہمیں پچھتانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ایف پی سی سی آئی، پاکستان بزنس کونسل اور ملک کے کئی ممتاز بزنس مین فارن ایمنسٹی اسکیم کے حق میں ہیں۔ ایک معروف بزنس مین نے گزشتہ دنوں ایک ملاقات میں مجھے بتایا کہ گوکہ وہ اکثر حکومت پر تنقید کرتے ہیں لیکن وہ فارن ایمنسٹی اسکیم کے حامی ہیں جس سے نہ صرف خطیر زرمبادلہ وطن واپس آئے گا بلکہ ملکی معیشت بھی ترقی کرے گی۔ پاکستان کے صف اول بزنس ہائوسز کی نمائندہ تنظیم پاکستان بزنس کونسل کے سربراہ احسن ملک بھی ایمنسٹی اسکیم کے حق میں ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کامیابی سے ہمکنار ہو۔
ماضی میں مختلف حکومتیں اپنے ادوار میں لوکل ایمنسٹی اسکیم ضرور متعارف کراتی رہی ہیں لیکن وہ اتنی کامیاب نہیں رہیں مگر یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں فارن ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا گیا ہے۔ پاکستان پہلا ملک نہیں جہاں فارن ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا گیا ہے بلکہ دنیا کے کئی ممالک ایمنسٹی اسکیم سے مستفید ہوچکے ہیں جن میں سرفہرست انڈونیشیا ہے جہاں ایمنسٹی اسکیم کے نتیجے میں حکومت کو 100 ارب ڈالر سے زائد حاصل ہوئے۔ اسی طرح بھارت میں بھی ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے 10ارب ڈالر بیرون ملک سے واپس لائے گئے۔ اس کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک جن میں جنوبی افریقہ، روس اور کچھ یورپی ممالک بھی شامل ہیں، میں ایمنسٹی اسکیمیں انتہائی کامیاب رہی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستانیوں کے 120ارب ڈالر دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہیں جس میں سے 20 ارب ڈالر بینکوں میں کیش کی صورت میں اور 100 ارب ڈالر کی بیرون ملک پراپرٹی میں سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
دنیا میں سخت بینکنگ قوانین اور ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے کے معاہدوں کے باعث پاکستانیوں کیلئے بیرون ملک سرمایہ رکھنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ پاکستانی جو ملک میں دہشت گردی اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرچکے ہیں، سے درخواست ہے کہ وہ فارن ایمنسٹی اسکیم کے سنہرے موقع سے فائدہ اٹھائیں اور بیرون ملک دولت وطن واپس لاکر اپنے اثاثے ڈکلیئر کریں۔ اگر آج ہم اس نادر موقع سے فائدہ نہ اٹھاسکے تو زندگی بھر پچھتائیں گے۔ معیشت کا طالبعلم ہونے کے ناطے میرا پورا یقین ہے کہ فارن ایمنسٹی اسکیم کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوںگے اور اسکیم کے نتیجے میں 6 ارب ڈالر سے زائد وطن واپس آئیں گے جبکہ 25 ارب ڈالر سے زائد اثاثے ڈکلیئر ہونے کی اُمید ہے جو ملکی معیشت کیلئے گیم چینجر ثابت ہوسکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

 

تازہ ترین