• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اّم المقدمات‘‘، اُس کی قبر پہ جا کے معافی مانگو!

(گزشتہ سے پیوستہ)
4؍اپریل 2018کے ’’چیلنج‘‘ میں عرض کیا تھا۔ ’’مستقبل کا مورخ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور عالم اسلام کے بطل حریت ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ قتل کو ’’اّم المقدمات‘‘ کا نام دے کر اس کی پھانسی کو بدترین قومی سانحات اور قانون کی ڈکشنری کے خلاف بے دید باغیانہ طرز عمل قرار دے گا۔۔۔۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تختہ دار کو سرفراز کئے جانے سے پانچ روز پہلے اپنے آخری بیان میں سپریم کورٹ کو مخاطب کر کے کہا تھا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ قانون کی عظمت اور شان و شوکت کو اونچا رکھیں گے اور محض مارشل لاء کی آیا بن کے نہیںرہ جائیں گے‘‘ کالم کے اختتامی الفاظ یہ تھے۔ ’’گریٹ ٹریجڈی کے شکار ذوالفقار علی بھٹو ابھی مزید گفتگو کے مستحق ہیں!‘‘
ذوالفقار علی بھٹو برصغیر کی تاریخ میں مخلوق خدا، مسلمانوں اور پھر ان دونوں میں موجود اکثریتی تعداد یعنی غریب، کمزور، بے بس مقہور، مظلوم، بدبختیوں کے شکار انسانوں کے مایوس صحرا میں ان کے لئے صدائے ایمان و یقین، صدائے عزم و جہد، صدائے وقار و احترام بن کے ابھرا، گونجا، تھر تھرایا، لوگوں نے اسے جئے بھٹو کے جنکار آمیز نعروں کی یلغار میں کندھوں پہ اٹھا کے اعلان کیا ’’ہم ذلت کے مارے لوگوں‘‘ کی صف میں سے نکلنے کے لئے تمہارے شانہ بشانہ ہیں، تمہارا بے حد شکریہ، تم نے ہمیں جگایا، حوصلہ دلوایا، آس بندھائی، ہم امید کی اس ڈور کو چھوڑنے کے نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت اس وقت تک انصاف کا قتل شمار ہو گا جب تک پاکستان کے عدالتی نظام کے ریکارڈ میں اس فوجداری مقدمے کو بطور مشکوک اور متنازع حوالے سے خارج نہیں کیا جاتا، انصاف کے قتل کی اصطلاح ختم کرانے کے لہو پسند کرداروں کو پاکستانی عدالتوں کے در و دیوار سے سر ٹکرا ٹکرا کے ایک سوال کا جواب دینا ہو گا، ان عدالتوں میں لگے مقدماتِ قتل میں بھٹو صاحب کے مقدمہ قتل کی نظیر کیوں پیش نہیں کی جاتی؟ ذوالفقار علی بھٹو کے خون کی پیاس میں ڈوبے ہوئے یہ کردار اٹھیں، پاکستان کی عدالتوں کے درودیوار سے سر ہی نہ ٹکرائیں اپنے کنٹرول میں موجود جارح افراد اور تنظیموں کی اندھیر گردیوں اور زور آوریوں کے رتھوں پہ سوار ہو کے پاکستان بھر کے عدالتی مقامات پر جگہ جگہ ایسے اشتہارات چسپاں کروائیں جن پہ لکھا ہو ’’اللہ کے واسطے پاکستانی عدالتوں میں قتل کے جو فوجداری مقدمے چل رہے ہیں ان میں بھٹو کے مقدمے کی بھی نظیر پیش کیا کرو، 39برس گزرنے پر بھی اس نظیر کا حوالہ نہیں دیا جاتا جس سے تاریخ نے ہماری گردنیں احساس جرم کے طوق میں جکڑرکھی ہیں۔‘‘
ذوالفقار علی بھٹو کے ارتقائے انسانی کے اس سفر کی زرخیز زمیں کو ضیاء الحق نے ویران اور بنجر دھرتی میں تبدیل کر دیا، ضیاء الحق کے دور کی تاریخ ظلم و شقاوت سے عبارت ہے، یہ تاریخ انسانی آبادیوں کا لہو پیتی، ان کی آبادیاں اجاڑ دیتی، رونقیں کھا جاتی اور شامیں برباد کر دیا کرتی ہے، انسانی معاشرے کی بے ساختگی نیک جبرکے موت آسا سایوں میں معدوم ہو جاتی ہے، چنانچہ اس غیر معمولی شخصیت کے اس ’’عدالتی قتل‘‘ پر نوحہ خوانی ایک فرد کی موت پر آہ و فغاں نہیں، اسے آپ دنیا بھر کے ان تمام مظلوموں کا سندیسہ سمجھیں جنہیں انصاف نہ مل سکا۔
آج 39برس بیت جانے پر بھی جسٹس صفدر شاہ کا تذکرہ قلمکاروں کے لبوں پہ دعا بن کے آتا ہے۔ عزیزم حامد ولید نے یاد دلایا ’’بی بی سی کے نمائندے اور دیگر دو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے جسٹس صفدر شاہ نے تاثر دیا تھا کہ وہ بھٹو کے وکلاء کے دلائل قبول کر سکتے ہیں۔۔۔۔ اس صورتحال میں جنرل ضیاء کے مشیروں کی ٹیم نے فوری طور پر ایف آئی اے کو جسٹس صفدر شاہ کے خلاف انکوائری کے لئے سرگرم کر دیا اور پھر ان سے بات بات پر ایسی وضاحتیں طلب کی جانے لگیں جن کا مقصد ان کی ہتک کے سوا کچھ نہ تھا‘‘
ذوالفقار علی بھٹو نے اس مقدمہ قتل کے تناظر میں کہا تھا:’’یہ داستان اتنی طویل اور المناک ہے کہ اس پٹیشن میں نہیں لکھی جا سکتی، نکتہ یہ ہے کہ اس منظر کو تلاش کیا جائے کہ کیا دھوکہ دہی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ کیا صرف ایک شخص سے خدا کی طرف سے ودیعت کردہ اور عوام کی طرف سے تفویض کی گئی عزت اور صلاحیتوں کو چھیننے کے لئے جھوٹ کا پیغمبر، دھوکہ بازی کا معمار، دغا بازی کا استاد، شر کا سوداگر بننا اور گمراہی کا لبادہ اوڑھ لینا ضروری ہے؟ اور یہ کہ :’’سازشیوں نے افلاطون کے فلسفی بادشاہ‘‘ کو ہٹا دیا، اس ٹولے نے ارسطو کے سیاسی حیوان کو مٹایا، شکاری کتوں نے کار لائل کے ’’ہیرو‘‘ کو ہٹایا، انہوں نے حضرت علیؓ کی تلوار کو ہٹایا اور اسٹیج کو مسخروں اور بھانڈوں سے بھر دیا اور ابھی تک وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان کی سلامتی کا ذکر کر رہے ہیں؟
امریکہ کے اٹارنی جنرل رمز ے کلارک کا بیان ریکارڈ پر ہے۔ کیا اس نے اس وقت کے چیف جسٹس انوار الحق جو بھٹو صاحب کے مقدمہ قتل میں بنچ کے سربراہ تھے، پر انٹرنیشنل کورٹ میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ نہیں کیا تھا؟ رمزے کلارک کو ایک طرف رکھ کے آج کے رہنما وکیل حامد خان صاحب کی مثال دیتے ہیں، انہوں نے "Constitutional and Political History Of Pakistan" سے ایک کتاب لکھی ہے، ان کی رائے میں ’’دو چیف جسٹس انوار الحق اور مولوی مشتاق، دونوں سمجھتے تھے وہ ضیاء الحق گروہ کے Benefactorsہیں اور کچھ بھی کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔‘‘
ذوالفقار علی بھٹو کے الفاظ تاریخ کا ناگزیر حصہ رہیں گے جب انہوں نے عدالت سے مخاطب ہو کر کہا:’’مائی لارڈ! انتہائی تکلیف دہ اشتعال انگیزیوں کے باوجود میں نے ہمیشہ عدالت کے وقار کا خیال رکھا، میں نے ہمیشہ عدالت کے احترام کا شدید اظہار کیا جبکہ مجھے نام کا مسلمان کہہ کر پکارا گیا، مجھے عادی جھوٹا کہا گیا، راتوں رات میرے لئے ایک کٹہرا بنایا تاکہ مجھے اس کے پیچھے کھڑا کیا جائے، جب میں نے اس پر احتجاج کیا تو کہا گیا کہ میں ایک آرام دہ کرسی کا طلبگار ہوں‘‘
اور اس ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بھی کہا تھا ’’میرا خدا جانتا ہے میں نے اس آدمی کا خون نہیں کیا، اگر میں نے اس کا ارتکاب کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا اقبال کر لیتا، یہ اقبال جرم اس وحشیانہ مقدمے کی کارروائی سے کہیں کم اذیت دہ اور بے عزتی کا باعث ہوتا، میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان کی تقدیر کا فیصلہ قادر مطلق کے ہاتھ میں ہوتا ہے، میں صاف ضمیر کے ساتھ اس کے حضور پیش ہو سکتا ہوں اور اس سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس کی مملکت اسلامیہ پاکستان کو راکھ کے ڈھیر سے دوبارہ ایک باعزت قوم میں تعمیر کر دیا ہے۔ میں آج کوٹ لکھپت کے اس ’’بلیک ہول‘‘ میں اپنے ضمیر کے ساتھ پُر سکون ہوں۔ ‘‘
تم آج ’’بھٹو یاد آتا ہے‘‘ لکھ کر بھی یہ ضرور کہتے ہو! بھٹو کو لوگوں نے ایک دیوتا بنا ڈالا مگر اس کا اثر بادلوں میں رہا، ہم زمین والوں تک نہ آ سکا‘‘، سوال یہ ہے کیا تم ابن عربی ہو جس کے کسی قول کی تردید کے لئے علم کا سمندر درکار ہے؟ کیا تم مجدد الف ثانی ہو جس کی عبادت گزاری کے احترام میں کسی بات کو جھٹلانے سے ڈر لگتا ہے؟ یا کیا تم اس صدی کے شاعر مشرق علامہ اقبال جیسے کوئی عبقری ہو جس کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال کو خواب میں ذوالفقار علی بھٹو نے یاد دلایا تھا ’’دیکھو ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا کیا؟‘‘ آج جب میں یہ سب لکھ رہا ہوں،10؍ اپریل 2018ہے اور یہ وہ 10؍ اپریل ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں 1973کا قومی دستور پاس کیا گیا۔ جس کا وجود پاکستان کی دھرتی کا محافظ و نگران ہے، تم کہتے ہو ذوالفقار علی بھٹو کا اثر ’’ہم زمین والوں تک نہ آ سکا‘‘ کیا اس دھرتی کے کروڑوں لوگوں میں عزت نفس کا شعور کہیں آسمانی پر مقیم باشندوں میں پیدا ہوا تھا؟ زبان دانی کی ضرورت نہیں صرف اس کی قبر پہ جا کے معافی مانگو اور تخلیقی دانشور وجاہت مسعود کے نقطوں کی اس ابدیت کو کبھی نہ بھولنا، ’’اسلام آباد کی مسجد میں بھی ایک مقبرہ موجود ہے دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین