• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد اتاترک کی جانب سے تشکیل دی جانے والی ’’ری پبلکن پیپلز پارٹی‘‘ اس وقت دنیا میں واحد اور اکلوتی پارٹی کی حیثیت رکھتی ہے جسے گزشتہ پچاس سالوں سے اقتدار حاصل کرنے کی جستجو ہے اور نہ اس نے اقتدار حاصل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی بلکہ وہ ملک کی حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت ہی بننے پر فخر محسوس کرتی ہے۔ اس جماعت کو اتاترک نے جنگِ نجات کے بعد ملک میں جمہوریت کو فروغ دینے کے لئے 9 ستمبر 1923کو ’’پیپلز پارٹی‘‘ کے نام سے تشکیل دیا اور بعد ازاں 10نومبر 1924میں اس کا نام ’’ری پبلکن پیپلز پارٹی‘‘ رکھ دیا گیا جو 1950ء تک بلا شرکتِ غیرے اقتدار پر قابض رہی۔ اگرچہ1946ء میں کثیر الجماعتی نظام متعارف کروانے کے بعد عام انتخابات میں نئی قائم شدہ ’’ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ کو بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن عصمت انونو جو کہ ری پبلکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین تھے نے اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی کروائی کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جیت کو فوج اور انتظامیہ کے گٹھ جوڑ کے بعد شکست میں تبدیل کردیا گیا اور اسے اقتدار حاصل کرنے کے لیے 1950ء کے عام انتخابات کا انتظار کرنا پڑا اور ڈیمو کریٹ کے برسر اقتدار آنے کے بعد پھر کبھی تنہا ری پبلکن پیپلز پارٹی کو حکومت کا موقع نہ مل سکا۔ عصمت انونو کے بعد بلنت ایجوت کا دور ہی ری پبلکن پیپلز پارٹی کا سنہری دور تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پارٹی کے منشور کی 32 شقوں میں تبدیلی کی اور اس پارٹی کو عوام دوست پارٹی بنانے میں کامیابی حاصل کی اور اسی کے نتیجے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے اقتدار حاصل کیا۔ ملک میں کنعان ایورن کے مارشل لا کے خاتمے کے بعد پرانی سیاسی جماعتوں پر پابندی ختم کردی گئی اور 24دسمبر 1995کو ہونیوالے عام انتخابات میں ری پبلکن نے عام انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے دس فیصد ووٹ حاصل کیے اور پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب رہی لیکن 18 اپریل 1999کو ہونیوالے عام انتخابات میں صرف 8,7 فیصد ووٹ حاصل کرنے کی بنا پر پارلیمنٹ پہنچنے میں ناکام رہی۔2نومبر 2002ء کے عام انتخابات میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کو انیس فیصد ووٹ پڑےجبکہ22جولائی2007ء میں اسے 20فیصد، 2011 میں25فیصد، جون 2015ء میں 24فیصد اور یکم نومبر 2015ء کے عام انتخابات میں 25فیصد ووٹ پڑے اور یوں اس جماعت پر اقتدار کے دروازے کئی سالوں سے بند چلے آرہے ہیں۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں ۔ سب سے بڑی وجہ اس جماعت کا عوام دوست نہ ہونا ہے۔ عصمت انونو کے دور میں ہونے والے ظلم و ستم آج بھی عوام بھولے نہیں۔ اتاترک کی بیماری کے دنوں اور بعد میں عصمت انونو نے جس طریقے سے اتاترک کا نام استعمال کرتے ہوئے ملک میں اپنی مرضی کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ عصمت انونو اور اتاترک کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے اور اتاترک نے انونو کو جماعت کی پالیسی پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے سبکدوش کردیا تھا لیکن اس کے باوجود انونو نے اقتدار سے دور رہ کر سازباز کا سلسلہ جاری رکھا اور ازمیر اقتصادی کنونشن کے دوران اتاترک کو قتل کروانے کی بھی ناکام سازش کروائی جس کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان دشمنی کی فضا پیدا ہوگئی اور اتاترک نے اپنے تحفظ کے لئے سیکورٹی اقدامات میں اضافہ کرلیا تھا اور اپنی بہن مقبولہ خانم کو اپنی بیماری کے دنوں ہی میں کہہ دیا تھا کہ انکی موت کی صورت میں عصمت انونو کو انکے چہرے کا دیدار کرنے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے۔ اتاترک کے بعد عصمت انونو نے فوج کیساتھ سازش کرتے ہوئے ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا جو 1950ء تک جاری رہا۔ انہوں نے ہی ملک کی مساجد پر مقفل لگوانے، قران کریم کی تعلیم پر پابندی اور ا ذان ِ محمدی کو عربی کی جگہ ترک زبان میں دینے کی بدعت شروع کرتے ہوئے ترکوں کے دلوں میں نفرت کی ایک ایسی چنگاری سلگائی جس کو آج تک ٹھنڈا نہیں کیا جاسکا ہے۔ ستر سال گزر جانے کے باوجود بھی عوام کے دلوں میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کیلئے نفرت موجود ہے۔ اگرچہ بلنت ایجوت نے عوام کی حمایت حاصل کرتے ہوئے کچھ عرصے کیلئے ری پبلکن پیپلز پارٹی کو ایک مقبول عوامی جماعت بنادیا تھا لیکن موجودہ دور میں اس جماعت کو ایسی مقبولیت حاصل نہیں جو اس کیلئے اقتدار کے دروازے کھول دے۔ اگرری پبلکن پیپلز پارٹی کو اقتدار حاصل کرنا ہے تو سب سے پہلے اسے اپنی پالیسی اور رہنمائوں کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ اس جماعت کے موجودہ رہنما عوام کے ووٹ حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ اسی طرح ماضی میں کئے گئے مظالم اور سیکولرازم کے نام پر جو مذہب دشمنی کی پالیسی اپنائی رکھی گئی اس پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ترک عوام سے معافی مانگتے ہوئے ایک نیا باب کھولنے کی ضرورت ہے کیونکہ ترک عوام ابھی بھی ری پبلکن کو اسلام دشمن پارٹی سمجھتے ہوئے ووٹ دینے سے کتراتے ہیں۔ یہ جماعت ستر سال گزر جانے کے باوجود25 فیصد سے زائد ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہے اور مستقبل قریب میں بھی ووٹروں کی تعداد بڑھنے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ آئندہ صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اسے اکیاون فیصد ووٹ کی ضرورت ہے۔ جس کیلئے لوگوں کے دلوں سے اس جماعت کی مذہب دشمنی سے متعلق نظریات کو تبدیل کروانا ہوگا کیونکہ ترکی کے نناوے فیصد عوام مسلمان ہیں جو دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں زیادہ پڑھے لکھے اور روشن خیال ہیں لیکن اسکے باوجود وہ کبھی بھی اسلام دشمن جماعت کو ووٹ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ اسی لیے ری پبلکن پیپلز پارٹی کو سب سے پہلے ’’مذہب دشمنی‘‘ کا لیبل ہٹانا ہوگا اور بلنت ایجوت کے دور کی طرح عوام دوست پارٹی کا روپ اختیار کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں ری پبلکن پیپلز پارٹی جو اتاترک سے دل و جان سے محبت کرنے اور ان کے اصولوں پر سختی سے عمل درآمد کرنے کا پرچار کرتی ہے کو اپنی اس پالیسی سے اس لئے بھی باز آنے کی ضرورت ہے کہ ترکی کی تمام ہی سیاسی جماعتیں اتاترک کو ملک کا بانی سمجھتی ہیں اور ان سے اسی طرح محبت کرتی ہیں جیسے ری پبلکن پارٹی کے اراکین کرتے ہیں۔ ری پبلکن اور دیگر جماعتوں میں فرق صرف یہ ہے کہ ری پبلکن اتاترک کا نام استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو بہلاتی ہے اور ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ دیگر تمام سیاسی جماعتیں اتاترک سے محبت کا اظہار ملک میں جمہوری اصولوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے کرتی ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین