• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کی مسلم تنظیموں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کی ہے کہ وہ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کے زکوٰۃ کی شکل میں دوسروں کی امداد اور خدمت خلق کے حق کو بحال کریں اور اس تعلق سے سابق امریکی صدر جارج بش نے جو مسلمانوں میں خوف وہراس پھیلا رکھا ہے اس کا ازالہ کریں مسلمان اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ اگر وہ زکوٰۃ کی بنیاد پر افراد یاجماعت میں سے کسی کی مدد کریں گے تو انہیں دہشت گردی کے لئے سرمایہ فراہم کرنے کے جرم میں پکڑ لیا جائے گا یا پریشان کیا جائے گا۔ امریکہ کی دواسلامی تنظیموں ’’امپینک‘‘ اور ’’احسنا‘‘ نے ایک خط لکھ کر ٹرمپ کی توجہ اس طرف مبذول کروائی ہے کہ امریکی اسلامی تنظیموں کی کونسل نے جو نفع حاصل کرنے کی بنیاد پر کام نہیں کرتی تھیں کواس الہام کی بنیاد پر بند کردیاگیا تھا کہ انتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو مالی مدد فراہم کرتی ہیں اسلامی تنظیموں نے اپنے طور پر بھرپور کوشش کی ہے وہ امریکی وزیر خزانہ کو اپنے بے ضرر عمل کی یقین دہانی کراسکیں کہ لگ بھگ سات تنظیموں کو اسی الزام پر بند کردیا گیاتھا کہ وہ زکوٰۃ کی آڑ میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کو مالی طور پر مدد دیتی ہیں۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنا اسلام میں فرض ہے اور انکی اس عبادت کے حق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، شہری حقوق کیلئے کام کرنیوالی تنظیموں کا کہنا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کو مدد فراہم کرنے کا امریکی قانون اتنا غیر واضح اور پیچیدہ ہے کہ اسکی وجہ سے افراد اور تنظیمیں اپنی مالی امداد کے استعمال کا ریکارڈ رکھنے کا ناممکن کام سرانجام نہیں دے سکتیں اور ان تنظیموں کے بقول اسکا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے امریکی مسلمان دیگر مسلمان ملکوں میں خیرات کے طور پر بھی رقم بھیجنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک امریکی تنظیم ’’کراماہ‘‘ سے وابستہ وکیل ابوسی کا کہنا ہے کہ کراماہ افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول کی مدد کرناچاہتی تھی لیکن ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہوسکا کہ اس اسکول کی مدد کرنا قانونی طور پر صحیح ہے یا نہیں؟ اس قانونی پیچیدگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اس منصوبے پر سرے سے عمل ہی نہ کرسکے اور اسکول کیلئے اشیا افغانستان نہ بھیج سکے۔ امریکہ کے مالیاتی قوانین بلکہ خود امریکی آئین کے مطابق حکومت امریکہ کو یا امریکہ کے کسی بھی ادارے کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ امریکی شہریوں سے انکے مذہبی تشخص کی بنیاد پر غیر مساوی سلوک کرے اور مذہب کی بنیاد پر ان پر پابندیاں عائد کرے یا انکی آمدنی کے ذرائع ووسائل معلوم کرے۔ پھر کیا سبب ہے کہ امریکہ کے لگ بھگ آٹھ لاکھ مسلمانوں کیساتھ حکومت کے مالیاتی ادارے، سیکورٹی ادارے اور دوسرے سرکاری وغیر سرکاری ادارے مذہبی بنیاد پر غیر مساوی سلوک کررہے ہیں؟ اسکا واضح جواب میری نظر میں یہ ہے کہ 9/11کے بعد ہر مسلمان وہاں مشکوک ہوگیا ہے یہی سبب ہے کہ امریکہ میں آج محمد، احمد، علی خان اور اسی جیسے دوسرے اسلامی ناموں والے افراد سے غیر معمولی احتیاط برتی جاتی ہے اور ہر موقع پر انکو اپنی شناخت کی تصدیق کرانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ امریکی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم کونسل آف امریکن مسلم ریلشنز نے رقم کی ترسیل کا کاروبار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ’’ویسٹرن یونین‘‘ پر الزام لگایا ہے کہ وہ بلاوجہ مسلمان گاہکوں کو ہراساں اور انکی رقوم ضبط کررہی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اسے کچھ عرصہ سے مسلمان شہریوں کی طرف سے انکی رقوم کو ناجائز ذریعے آمدن کا کہہ کر ضبط کیے جانے کی شکایات موصول ہورہی ہیں اور یہ بھی کہ ویسٹرن یونین نے محمد، احمد، علی اور خان جیسے ناموں کے حامل افراد سے انکے مذہب رہائش، کاروبار، ذریعہ آمدن اور قومی شناخت کے بارے میں پوچھ تاچھ کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ تنظیم نے اسے ’’مذہبی پروفائلنگ‘‘ کانام دیا ہے۔ یاد رہے کہ ویسٹرن یونین کا اربوں ڈالر کا کاروبار دنیا کےسو سے زائد ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ویسٹرن یونین کی ترجمان وینڈی ہر برٹ نے بی بی سی کے نمائندے کو بتایا کہ محمد، علی، احمد اور خان نام کےافراد کی رقم ضبط کئے جانے کا عمل امریکی قوانین اور قواعد کے مطابق ہے، جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا ان قوانین وقواعد کا اطلاق صرف محمد، احمد، علی اور خان نامی لوگوں پر ہوتا ہے تواس نے کہا کہ ویسٹرن یونین رقوم کی ترسیل کا کاروبار ووزارت خزانہ سے جاری کی گئی ہدایات کے مطابق کرتی ہے تاہم اس نے اعتراف کیا کہ اسکے پاس حکومت کی طرف سے دی گئی ایک ’’واچ لسٹ‘‘ موجود ہے، ترجمان نے بتایا کہ جب کمپیوٹر سسٹم کسی گاہک کے واچ لسٹ میں درج نام کی شناخت کرتا ہے تو قانون کے مطابق ان پر لازم ہے کہ وہ اس گاہک کی رقم ضبط کرلیں۔ ترجمان وینڈی ہربرٹ نے مزید بتایا کہ ویسٹرن یونین پیڑیاٹ ایکٹ کے نفاذ سے پہلے بھی رقم بھیجنے والے افراد کی چھان بین کرتی تھی نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکی کانگریس نے جب پیٹر یاٹ ایکٹ پاس کیا تو ہمیں حکم دیا گیا کہ رقوم بھیجنے والی کمپنیوں پر لازم ہے کہ حکومت کی ’’واچ لسٹ‘‘ کو اپنے کمپیوٹر سسٹم میں شامل کریں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکہ میں لگ بھگ آٹھ لاکھ مسلمان آباد ہیں ان میں سے دوتہائی مسلمان بیرون ملک پیدا ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کونسل آف امریکن مسلم ریلشنز کے ارکان ویسٹرن یونین سے ایسے واقعات کی وضاحت طلب کررہے ہیں اور ان ناخوشگوار واقعات کی روک تھام پر زور دے رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں جب نجی طور پر کام کرنے والے مالیاتی اداروں اور کمپنیوں کو امریکی حکومت نے ’’مسلم شناخت والے افراد‘‘ کی سخت جانچ پڑتال کی ہدایت کررکھی ہے اور ان کو ایسے ناموں کی لسٹ بھی فراہم کررکھی ہے تو خود حکومت کے سرکاری محکموں اور اداروں میں کیا ہورہا ہوگا۔ سابق امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے گزشتہ دنوں سن فرانسسکو میں مسلم ایڈوکیٹس نامی تنظیم سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں متعلقہ عرب امریکیوں کی جانب سے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے خلاف شکایت موصول ہوئی ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہیں۔ آخر میں میرے لئے یہ بتانا بے حد ضروری ہے کہ اوباما نے آخری دور میں اپنی قاہرہ میں کی گئی تقریرمیں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ زکوۃ ادا کرنے کے معاملے میں امریکہ میں مقیم مسلمانوں کے ساتھ تعاون کریں گے۔ کب؟ یہ انہوں نے نہیں بتایا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین