• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن کے دوست جب پکپن میں اکھٹے ہوں تو گپ شپ کے دریا کی طغیانی میں مہ و سال بہتے چلے جاتے ہیں، جبے اتر جاتے ہیں ، دستاریں لپیٹ کر رکھ دی جاتی ہیں، سب لڑکے بن جاتے ہیں، ـ یعنی’سال ہا سال اور اک لمحہ، کوئی بھی تو نہ ان میں بل آیا، خود ہی اک در پہ میں نے دستک دی، خود ہی لڑکا سا میں نکل آیاـ‘۔اس قطعے کی بصری تفسیر پچھلے ہفتے دیکھی جب کئی برس بعد ایک چھت تلے ہم سترہ’ لڑکے‘ اکھٹے ہوئے ۔ایک مرتبہ پھر یقین آ گیا کہ Nostalgiaدنیا کی خوبصورت ترین بیماری کا نام ہے۔کودکی کی شرارتیں، عنفوانِ شباب کی حکایتیں، شام گُھلتی چلی گئی۔ آخر میں’ لڑکوں‘ نے شوگر اور بلڈ پریشر کے مجرب نسخوں کا تبادلہ کیا اور امریکی و جرمن Stentsکی کارکردگی کا تقابلی جائزہ بھی لیا ۔
اسی دوران محترم زاہداکرام گینڈا صاحب فرمانے لگے کہ بیماریوں کاتذکرہ چل ہی نکلا ہے تو کچھ بات ملکی سیاست پر بھی ہو جائے۔ باتیں تو بہت سی ہوئیں، لیکن عملی سیاست کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہ تھا جس پر سترہ کے سترہ ’لڑکے‘ متفق ہوتے۔کچھ کا خیال تھا نواز شریف کی نا اہلی اور نیب میں مقدمہ، قانون کی حکمرانی کی طرف پہلا بڑا قدم ہے، کچھ کو یقین تھاکہ میاں صاحب کے ساتھ نہ صرف صریحاً نا انصافی ہو رہی ہے بلکہ نا انصافی ہوتی ہوئی نظر بھی آ رہی ہے، ایک ٹولی نے چیف جسٹس صاحب کی ’صاف پانی مہم‘ کی تائید کی، باقیوں کااصرار تھا کہ انہیں اپنی توجہ التوا کا شکار لگ بھگ تیس لاکھ مقدمات پر مرکوز کرنا چاہیے۔ حتی کہ باجوہ ڈاکٹرائن سے روگردانی پر بھی امت کا اجماع نہ ہو سکا۔مختصراً یہ کہ کوئی ایک سیاسی تصویر بھی ایسی نہ تھی جس پر ہم سترہ کے سترہ ایک متفقہ سرخی جمانے میں کامیاب ہو جاتے۔ تجربہ اور مشاہدہ تصدیق کرتا ہے کہ ہر محفل، ہر مجلس کا یہی معاملہ ہوتا ہے۔ یہی فطرتِ انسانی کا تنوع ہے، اور یہی اختلاف اچھا بھی لگتا ہے۔ بلا شبہ،’ گل ہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن‘۔(یہاں تک کالم لکھا تھا جب خیال آیاکہ ہماری عدالت عظمیٰ کے ججز کی تعداد بھی سترہ ہے۔ کیسا عجیب اتفاق ہے)
چلئے ، ہم امریکہ کی اعلیٰ عدالت کا معائنہ کرتے ہیں۔ ، امریکی سپریم کورٹ کے ججز کی تعدادنو ہے۔چیف جسٹس جان رابرٹس ، جسٹس ٹومس، جسٹس الیٹو اور جسٹس نیل گور سچ قدامت پسند سمجھے جاتے ہیں، ان سب کی تقرریاں ر ی پبلکن صدور نے کی تھیں۔جب کہ جسٹس گنز برگ، جسٹس بریئر،جسٹس سوٹو میئر اور جسٹس کیگن کی تقرریاں ڈیموکریٹ دور میں ہوئیں اور یہ لبرل ججز مانے جاتے ہیں۔ جسٹس کینیڈی ’ریلو کٹے‘ ہیں، یعنی کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر۔ موجودہ امریکی سپریم کورٹ امریکی عوام کی اجتماعی رضاکی عکاس نظر آتی ہے۔کبھی کسی چیف جسٹس نے کسی’مخالف‘ جج کو فارغ کرنے کی کوشش نہیں کی۔بلکہ ہر وہ مقدمہ جو امریکی معاشرت اور سیاست کے اہم و متنازعہ معاملات سے متعلق ہو اس کے لئے چیف جسٹس صاحب فل کورٹ بناتے ہیں۔اپنے معلوم ’مخالفین‘ کو بھی فیصلے میں شامل کرتے ہیںکہ مقصداپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کرنا نہیں، انصاف کرنا ہوتا ہے۔بلا شبہ، ایک دن عدالتوں کو اپنے فیصلوں کی صلیبیں اٹھا کر تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا ہوناپڑتا ہے۔بظاہر کتنی سادہ اور سیدھی بات ہے، لیکن ان سیدھی سادی باتوں پر میرے ہم وطنوں کی آنکھیں حیرت سے اُبلنے لگتی ہیں اور یہ ہے ہندوستان کی سپریم کورٹ، اور اس کے گل ہائے رنگا رنگ، یعنی اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے ججز۔ اس سال کے آغاز میںانڈین سپریم کورٹ کے چار ججز نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں اپنے چیف جسٹس دیپک مشرا پر سنگین الزامات عائد کئے۔ بنیادی الزام یہ تھا کہ چیف جسٹس روسٹر سے متعلق قوانین کو نظر انداز کر تے ہیںاور اہم و متنازعہ قومی مسائل پر اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کے لئے فقط اپنے تابعدارججزپر مشتمل بنچ بناتے ہیں، جس سے ملکی سیاست میں سپریم کورٹ کو جانبدار بنا یا جا رہا ہے، اور اگر سپریم کورٹ غیر جانبدار نہیں رہے گی تو ملک سے جمہوریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ناراض سینئر جج جسٹس چیلا میشورم نے یہ بھی کہا کہ ہم چاروں نے یہ پریس کانفرنس اس لئے کی کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے اپنی روح شیطان کو گروی رکھ دی ہے۔ ہم تاریخ کو جواب دہ ہیں، یہ ہمارے ادارے کے تشخص کا سوال ہے۔ (خُدا جانے Deja Vu کا اُردو ترجمہ کیا ہے)
پاکستانی سپریم کورٹ سترہ فاضل ججوں پر مشتمل ہے، اور ان سب نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ ’اے زوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے‘۔لیکن ہمارے ججز بہت رکھ رکھائو والے ہیں، جب ہی تو نوبت پریس کانفرنسوں تک نہیں پہنچنے دیتے، اپنی Dirty Linenلانڈری میں دھوتے ہیں، سرِ بازار نہیں۔
عیسٰی سے یاد آیاکہ قائد اعظم کے ایک معتمد ساتھی ہوا کرتے تھے، قاضی محمد عیسٰی، بلوچستان مسلم لیگ کے صدر اور تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل۔انکے فرزند قاضی فائز عیسٰی بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں اور آج کل سپریم کورٹ کے معزز جج ہیں۔جسٹس عیسٰی کے خلاف دائرایک درخواست کو ڈھائی سال بعد سماعت کے لئے منظور کیا گیا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج ہیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی، انہیں بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں طلب کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج دوست محمد خان ریٹائر ہوئے تو روایت کے برعکس انہیںفل کورٹ ریفرنس نہیں دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ اس تثلیثِ مطعون میںکیا قدر مشترک ہے ؟ ملک بھر کی بار کونسلزکہہ رہی ہیںکہ ان تینوں اصحاب کا مشترکہ وصف یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنی آزاد رائے رکھتے ہیںبلکہ وقت ضرورت اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔
ملکی ادارے توآپس میں الجھے ہی ہوئے ہیں، بلکہ یہ کہنے میں کیا شرمانا کہ آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ اب اگر اداروں کے اندر بھی خدا نخواستہ یہ سر پھٹول شروع ہو گیاتو؟ڈر لگ رہا ہے۔ پاکستان تو’ ایسی‘ کسی ’پریس کانفرنس‘ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔خدارا، یہ اعلان نہ کیجئے کہ مہا یدھ پڑا تو ہم سیاہ پوشوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا سفید پوشوں کے۔یہ یدھ ضروری تو نہیں ہے، اسے ٹال دیجئے۔اب بھی وقت ہے، مل کر بیٹھئے، آپس میں بات کیجئے، راستہ نکالئے۔اپنی ناک سے آگے دیکھئے۔کچھ ناکیں لمبی ہوتی ہیں، ہمیں اس کا ادراک ہے۔ لیکن بہر حال ناک اور دیوارِ چین میں فرق ہونا چاہیے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین