• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ چھ اگست، سالء 1945اور پیر کا دن، ایک نئے دن کا آغاز ہوچکا تھا، طالب علم اسکولوں کیلئے گھروں سے نکل رہے تھے تو بڑے ملازمت و کاروبار کیلئے جارہے تھے، خواتین گھروں کے کام کاج میں مصروف تھیں، ملک میں جنگ ضرور جاری تھی لیکن عام شہریوں کو اخبارات اور ریڈیوں کی خبروں سے صرف اتنا ہی معلوم تھا کہ دنیا کی دوسری عالمی جنگ ہورہی ہے جس میں جاپان تیزی سے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، ان خبروں میں شاید اتنی حقیقت نہ ہو لیکن زمانہ جنگ میں دنیا کے ہر ملک میں یہی ہوتا ہے کہ آخری وقت تک اپنی فتوحات کا ہی ذکر کیا جاتا ہے اور جاپانی عوام بھی یہی سن کر خوش ہورہے تھے کہ جاپانی افواج بہادری سے لڑ رہی ہیں اور عنقریب دنیا بھر میں جاپان کا ہی راج ہونے والا ہے۔ تاہم دوسری جانب جاپان چاروں طرف دشمن ممالک سے نبر دآزما تھا۔ امریکہ، برطانیہ، روس، چین اور کوریا سب مخالف تھے۔ جنگ میں بڑھتے ہوئے نقصانات کے سبب جاپان نے ایک اندازے کے مطابق دس ملین نوجوانوں کو فوج میں جبری بھرتی کیا جس میں ہزاروں نوجوان جنگ کی بھینٹ چڑھتے ہوئے ہلاک ہوچکے تھے۔ اسی جنگ میں جاپانی پائلٹوں نے امریکی بحری اڈے پرل ہاربر پر خود کش حملے کیے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے امریکہ کو شدید نقصان پہنچایا، لیکن یہی حملہ جاپان پر امریکہ کے تاریخی حملے کا سبب بنا۔ جاپانی عوام اور نہ ہی جاپانی حکومت و افواج اس بات سے آگاہ تھے کہ امریکہ نے خطرناک ایٹم بم تیار کرلیا ہے اور اسے سب سے پہلے جاپان پر ہی گرائے گا اور پھر چھ اگست انیس سو پینتالیس بروز پیر صبح آٹھ بج کر سولہ منٹ پر امریکہ کے بی باون بمبار جہاز کے ذریعے لٹل بوائے نامی ایٹم بم ہیروشیما کے معصوم شہریوں پر گرادیا گیا، جس نے پلک جھپکتے ہی پورے شہر کو جلا کر راکھ کردیا۔ حملے سے قبل ہیروشیما انتہائی جدید اور ترقی یافتہ شہر تھا جہاں بہترین سڑکیں، خوبصورت گاڑیوں، جدید ریلوے اور ٹرامز نے شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیئے تھے، پورے شہر میں بجلی کے تاروں کا جال بچھا تھا، جگہ جگہ موجود کارخانے شہر کی معاشی ترقی کا فسانہ سناتے نظر آتے تھے، ایٹم بم نے سب تباہ کردیا۔ پہلے ہی دن ستر ہزار افراد ایٹم بم کا نشانہ بنے اور ہزاروں زخمی ہوگئے۔ خطرناک دھماکے کی آواز سن کر دور دراز سے لوگ مدد کو پہنچے تو وہ بھی ایٹمی تابکاری کا نشانہ بنے۔ صرف دو دنوں میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے یعنی ہیروشیما جس کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اس حملے کے نتیجے میں شہر کی چالیس فیصد آبادی صفحہ ہستی سے مٹ گئی، لاکھوں زخمی ہوگئے۔ ایٹمی حملے سے قبل ہیروشیما میں نو ہزار آٹھ سو خوبصورت عمارتیں تھیں جن میں ستر فیصد عمارتیں کھنڈر بن گئیں اور صرف اٹھائیس سو عمارتیں باقی بچیں۔ ہیروشیما کے مرکز میں واقع اسکول میں چار سو بچے کلاسوں میں جانے سے قبل ورزش میں مصروف تھے تمام کے تمام ہلاک ہوگئے، جبکہ زخمیوں کی حالت مرنے والوں سے زیادہ خطرناک تھی۔ زخمی افراد ایٹم بم کی گرمی سے بری طرح جل گئے تھے لیکن وہ زندہ تھے اور مردوں سے بدتر تھے۔ ڈاکٹروں کو معلوم نہ تھا کہ ان کا کس طرح علاج کیا جائے، غرض افراتفری کا عالم تھا لو گ مررہے تھے لیکن کوئی مسیحا ان کو بچانے کے قابل نہ تھا، ہیروشیما تباہ ہوچکا تھا لیکن ٹوکیو جاپان کے دارالحکومت میں بیٹھے حکومتی اور فوجی حکام اس خطرناک حملے سے لاعلم تھے کیونکہ ہیروشیما کا دارالحکومت سے رابطہ بالکل منقطع ہوچکا تھا۔ ایٹم بم سے ہونے والی ہلاکتوں کا اندازہ صرف امریکہ کو تھا یا اس شہر کے رہائشیوں کو۔ یہی وجہ تھی کہ ایٹم بم حملے کے بعد امریکہ نے جاپانی حکومت وافواج سے فوری طور پر بلاکسی شرط کے ہتھیار ڈالنے کو کہا بصورت دیگر مزید ایٹمی حملے کی دھمکی بھی دی تاہم جاپانی حکومت ابھی تک صورتحال کو سمجھ نہ سکی تھی لہٰذا ہتھیار ڈالنے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ تین دن تک انتظار کے بعد امریکہ نے جاپان کے ایک اور شہر ناگاساکی پر ایٹمی حملہ کردیا جس سے ایک بار پھر جاپان کے لاکھوں شہری لقمہ اجل بن گئے تاہم اس وقت تک جاپانی حکومت اور افواج کو ہیروشیما کے ایٹمی حملے اور اسکے نتیجے میں شہر کی تباہی اور ایک لاکھ چالیس ہزار ہلاکتوں کا علم ہوچکا تھا اور یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ اگر جاپان نے فوری طور پر ہتھیار نہ ڈالے تو امریکہ دارالحکومت ٹوکیو کو بھی ایٹمی حملے کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکے گا۔ اسلئے جاپان نے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور ملک کو امریکہ کے حوالے کردیا۔
آج میں اس بدقسمت شہر ہیروشیما میں ایٹم بم حملے کی یادگار پر موجود تھا، ہیروشیما پیس میموریل پارک کے ساتھ ہی ہیروشیما ڈوم موجود ہے، یہ اس وقت کے ہیروشیما کی خوبصورت ترین عمارت تھی جسے ایک غیر ملکی ماہر تعمیرات نے 1915ء میں تعمیر کیا تھا اسے ہیروشیما انڈسٹریل پروموشن ہال بھی کہا جاتا تھا۔ ایٹم بم حملے کے بعد بھی اسے زیادہ نقصان نہیں پہنچا تھا۔ عمارت آج بھی اسی حالت میں محفوظ ہے تاکہ دنیا کو ایٹم بم حملے کے وقت کی یادگار کے طور پر دکھایا جاسکے، یہیں پر ہیروشیما میوزیم بھی ہے، جہاں ایٹمی حملے سے پہلے اور بعد کے ہیروشیما کی تصاویر موجود ہیں۔ ایٹمی حملے کے وقت اسکول جانے والے بچوں سے لیکر، بڑوں کی مصروفیات اور خواتین کی مصروفیات کو بھی حقیقی تصاویر میں دکھایا گیا ہے، ایٹمی حملے سے زخمی بچوں، بڑوں اور خواتین کی تصویر کشی کی گئی ہے، اسپتالوں کی حالت زار دکھائی گئی ہے، بچوں کے اسکول کے جلے ہوئے یونیفارم، ان کی سائیکلیں، کھیلوں کا سامان اسی حالت میں موجود ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں سیاح ہیروشیما کے اس تاریخی میوزیم میں دنیا کی خطرناک تاریخ کو دیکھنے آتے ہیں اور جب ان مناظر کو دیکھ کر باہر نکلتے ہیں تو اکثر کی آنکھوں میں آنسو واضح نظر آتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کو ٹی وی پر ہیروشیما پر ہونے والے ایٹمی حملے کے حوالے سے ڈاکیومنٹری اپنی زبانوں میں دکھانا چاہیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو ایٹم بم ہوتا کیا ہے اس سے کس قدر نقصان ہوتا ہے۔ ہیروشیما میں گرائے گئے ایٹم بم میں وہ طاقت نہیں تھی جس قدر طاقت ور اور جدید ایٹم بم آج کی دنیا نے بنا رکھے ہیں اور آج کی دنیا کے پاس ہزاروں کی تعداد میں صرف ایٹم بم ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں خطرناک بم موجود ہیں جن سے پوری دنیا کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود کوئی بھی ملک ایٹم بم جیسے خطرناک ہتھیاروں کو ختم کرنے کو تیار نہیں ہے تاہم جاپان اور اس جیسے ایٹم بم مخالف ممالک کو اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ شاید ان کی کوششوں سے دنیا کو آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ مقام بنایا جاسکے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین