• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حوا کی بیٹی کو درندوں سے کون بچائے گا؟

اسلام آباد پولیس سے تعلق رکھنے والی کچھ خواتین پولیس ملازمین کی طرف سے ایک خط چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھا گیا جس کے متعلق آج (بروز بدھ) اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں۔ اس خط کی نقل وزیر داخلہ کے علاوہ چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو بھی بھیجی گئیں جس میں یہ خواتین شکایت کرتی ہیں کہ لاکھوں مجبوریوں کے باعث پولیس کے محکمہ میں نوکری لی جس کے لیے اپنا گھر چھوڑا، اپنے ماں باپ بہن بھائیوں سے دوری اختیار کی۔ یہ خواتین پولیس اہلکار لکھتی ہیں کہ ایسے حالات میں اُن کی عزت کا خیال رکھنا اُن کے سینئیرز کی ذمہ داری ہے لیکن اُن کے ساتھ اس کا الٹ ہو رہا ہے۔ اُن کے ساتھ جو ہو رہا ہے اُس کا حوالہ دیتے ہوئے وہ یہ تک لکھنے پر مجبورہو گئیں: ’’ہمیں روزانہ کی بنیاد پر کئی کتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ۔۔۔۔۔ جب کوئی پیشی ہو تو ریڈر اور آپریٹر ہمیں ایک مخصوص جگہ بتاتے ہیں کہ یہاں آ جائو ہم آپ کا کام بغیر پیشی کے کروا دیں گے‘‘۔ اسی خط میں انہوںنے یہ بھی بتایا کہ کس طرح اُن کی عزت سے کھیلا جاتا ہے۔ ان خواتین پولیس اہلکاروں کے مطابق چند ایک لڑکیوں کے ساتھ جس طرح اُن کے سینئیرز نے کیا اُس کی تو تصاویری اور وڈیو شہادت بھی موجود ہیں جو کہ صرف چیف جسٹس کو ہی دکھائی جا سکتی ہے۔ان خواتین نے اپنے نام صرف چیف جسٹس صاحب کو ہی ارسال کیے۔ انہوں نے کہا کہ اُن کے اس اقدام کا مقصدمستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ہے اور تجویز پیش کی کہ لیڈیز پولیس کے لیے لیڈیز افسر اور لیڈیز ریڈر کو ہی تعینات کیا جائے تاکہ مرد پولیس افسران کے ہاتھوں اُنہیں اس طرح بلیک میل نہ ہونا پڑے۔ یہ حال اسلام آباد پولیس کا ہے۔ مغرب زدہ حقوق نسواں اور لبرلزم کے چیمپیئنزکے پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر ہمارے حکمرانوں نے عورتوں کو ـبرابری کا سبق پڑھا کر گھر سے نکال کر ہر شعبہ زندگی میں کام کرنے کے لیے راستہ تو ہموار کر دیا ہے لیکن جب عورت باہر نکلے تو اُس کی عزت اور احترام کی کیسے حفاظت کی جائے اُس کی کسی کو فکر نہیں۔ اپنے خط میں ان خواتین پولیس اہلکاروں نے لکھا کہ ہمیں روزانہ کی بنیاد پر کئی کتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت پوچھیں تو ایسے ’’کتے‘‘ ہر شعبہ زندگی میں موجود ہیں جو خواتین کی مجبوری کا استحصال کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے۔ لیکن میرا گلہ حکمرانوں، پالیسی سازوں، پارلیمنٹ، عدلیہ ، سیاستدانوں اور میڈیا سے ہے کہ اگر آپ مغرب کی نقالی میں ہر خاتون کو گھر سے نکال کر اُسے ہر حال میں نوکری کرنے (چاہے ضرورت ہو یا نہ ہو) کی ترغیب دے رہے ہیں تو پھر خواتین ورکرزکو Workplace میں ایسا ماحول بھی فراہم کریں جہاں اُن کا مرد ملازمین اور افسران سے ڈائریکٹ رابطہ نہ ہو یا کم سے کم ہو۔ اسی طرح ہر سرکاری ونجی ادارے کو سختی سے اس عمل سے روکا جائے جہاں خواتین ملازمین کو کاروبار بڑھانے اور مال بیچنے کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل مجھے ایک ببنک کی خاتون افسر نے بتایا کہ بینک انتظامیہ خواتین کو مارکیٹنگ کا کام دیتے ہیں اور انہیں اکثر ایسے clients ملتے ہیں جو انہیں کبھی کھانے پر ہوٹل میں بلاتے ہیں اور کبھی اکیلے ملنے کا کہتے ہیں۔ یہاں تو سرکاری محکموں میں بچاری خواتین کو جنسی طور پر حراساں کرنے کا عام رواج ہے۔ میڈیا سمیت شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو گا جہاں عورت کو ایک ایسا ماحول میسر ہو جہاں وہ اپنے آپ کو مکمل محفوظ تصور کرے۔ حکمرانوں اور پالیسی میکرز میں خواتین کو ہر شعبہ اور ہر محکمہ میں بھرتی کرنے کا جو بھوت سوار ہے اُسے بھی ترک کرنا چاہیے۔ خواتین اور مرد ملازمین کہیں بھی اکھٹے کام کریں گے تو اُس سے خرابیاں پیدا ہوں گی اور اسی لیے مغرب میں بھی خواتین کو جنسی حراساں کرنے کے واقعات عام ہیں۔ خواتین کو استحصال سے بچانے کے لیے ہمیں مغرب کی بجائے اسلامی شعائر اور دینی تعلیمات کے مطابق اپنا ماحول ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرہ کوتربیت کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ جو بگاڑ ہمارے معاشرہ میں پیدا ہو چکا اُس کو ختم کرنے کے لیے اسلامی اخلاقیات اور اصولوں کی بنیاد پر ایک ایسی قومی تحریک کی اشد ضرورت ہے جس میں تعلیمی اداروں سے لے کر میڈیا تک سب شامل ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو حالات دن بدن بگڑتے رہیں گے اور درندگی اور غیر انسانی واقعات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ قصور میں سات معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا واقعہ سامنے آیا تو پوری قوم سکتے میں آ گئی۔ امید تھی کہ دنوں اور ہفتوں میں مجرم کو قرار واقعی سزا دی جائے گی لیکن سفاک مجرم کو سرعام پھانسی دے کر نشان عبرت بنانے پر ہماری عدلیہ اور حکومت ہی راضی نہیں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ کتنے عرصہ میں عدالتیں اس کیس کو نمٹاتی ہے۔ جب تک ایسے مجرموں کو نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا اور جب تک معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے کے لیے نہ معاشرہ کی تربیت پر کسی کی توجہ ہو گی اور نہ ہی بے شرمی، بے ہودگی اور فحاشی کا سدباب ہو گا تو پھر ایسے واقعات میں مزید اضافہ ہو گا ۔ اسلام کے نام پر قائم آج کے پاکستان میں حوا کی بیٹی غیر محفوظ ہے جبکہ سفاک درندے ہر طرف پھیل چکے ہیں۔ قوم ابھی قصور سانحہ کا غم ہلکا نہیں کر پائی کہ کئی اور معصوم بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ ہر روز میڈیا کے ذریعے درندگی کے نئے نئے واقعات سننے کو ملتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف ایسے ہی گھناونے جرائم ہو رہے ہیں۔آج کے ہی ایک انگریزی اخبار میں کراچی کے حوالے سے خبر پڑھنے کو ملی کہ کراچی پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کیا جس نے پانچ کم عمر بچیوں سے زیادتی کی۔ آج ہی کی ایک اور خبر کے مطابق چیچاوطنی میں ایک کم عمر بچی کو اغوا کر کے اُس کی بے حرمتی کے بعد اُسے آگ لگا دی گئی جس سے اُس معصوم کی موت واقع ہو گئی۔ اس واقعہ پر علاقہ کے لوگ سخت احتجاج کر رہے ہیں۔ مردان کی چار سالہ عاصمہ، جڑانوالہ کی سات سالہ مبشرہ اور نجانے کتنی اور حوا کی بیٹیوں کے ساتھ درندگی کے یہ واقعات ہوتے رہنگے۔ انہی دنوں میں جڑانوالہ کی بیس سالہ عابدہ کو بھی اغوا کر کے اُس کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔ کچھ واقعات میں ملوث ملزمان پکڑے جاتے ہیں جبکہ کئی واقعات کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ یہ تمام واقعات معاشرہ کے اُس سنگین بگاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا شکار حوا کی بیٹی ہے لیکن اُسے اس ظلم سے بچانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو رہی جو ہمارے لیے بہت بڑا المیہ ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین