• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جان مال عزت کچھ بھی تو محفوظ نہیں!
اگر جان، مال اور عزت اپنی نہیں تو لوٹ لو، یہ ہے وہ جانی، مالی، جنسی دہشتگردی جس کی خبریں ہمیں روزانہ کی بنیادوں پر دیکھنے، سننے کو ملتی ہیں، حکومت کا تو کام ہے ہی کہ تحفظ دے وارداتوں کی تحقیقات کرائے سزائیں دیں مگر کیا من حیث القوم ہماری اخلاق باختگی کا کوئی ٹھکانہ ہے؟ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے، ہم سب خود غرضی اور ماحول سے غفلت کا شکار نہ ہوتے تو رٹ آف گورنمنٹ بھی ہوتی، حکومت عوامی تعاون کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتی پوری دنیا میں افراد خود برائی کو پنپنے نہیں دیتے، اگر آج ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں مکھی مچھر نہیں تو یہ ان کی حکومتوں کا کمال نہیں معاشرہ صفائی پسند ہے، صفائی کے حکومتی انتظامات کو کامیاب بناتا ہے، اسی طرح ہر روز کسی بچے بچی کے ساتھ زیادتی اور قتل کے المیئے اسلئے رونما ہوتے ہیں کہ معاشرہ خود سو رہا ہے، اسے دیکھ کر قانون کے محافظ بھی سو جاتے ہیں، دہشتگردوں کا تو صفایا ہو چکا اب لگتا ہے وہی جو دہشت گرد بھیجتے تھے اب جنسی درندے بھیج رہے ہیں آخر اس قدر کثرت اور تسلسل کے ساتھ قتل بعد از زیادتی کے واقعات کا ہونا صرف انفرادی جرم نہیں اس کی تحقیق کی جائے، یہ درندے کسی شیطانی قوت کے کارندے ہیں جو دولت اور لذت پانے کے لئے ایسے نادیدنی حرکات کر سکتے ہیں ہمیں تمام امکانات کو سامنے رکھ کر یہ سوچنا ہو گا کہ یہ اچانک جنسی زیادتی کے جرائم اتنے عام کیسے ہو گئے، حکومت کیلئے بھی یہ ایک کھلا چیلنج ہے، اس نوع کے جرائم کے مقدمات میں تاخیر اور سزا کا سرعام فوری طور نہ ملنا ایک بڑا سبب اور ایسے درندوں کے لئے بڑی شہہ ہے، جس کے باعث وہ بے خوف ہو کر ایسا کرتے ہیں، چین نے حال ہی میں سزائے موت سرعام دینے کا سلسلہ آخر کیوں شروع کر دیا ہے، کیونکہ عبرت اور سزا کا خوف پیدا کرنا ضروری ہے، اگر ایسا نہ ہو تو پھر صلائے عام ہے مجرمان ملک و قوم کے لئے۔ حکومت اپنے حصے کا اور قوم اپنے حصے کا کام بلاتاخیر انجام دے تو جان، مال، عزت محفوظ ہو۔
٭٭٭٭
چلو، دیر آید درست آید
عدالتی اصلاحات پر کام شروع، چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے قوانین بوسیدہ ہو چکے، جدید تقاضوں کے مطابق بنانیوالوں کے پاس وقت نہیں، ججوں کی کمی، التواء اور ہڑتالیں تاخیر کی وجہ ہیں، کام تو بہت اچھا اگر انجام کو پہنچے، 70سال ہم نے بوسیدہ ازکار رفتہ 1908ء کے بوسیدہ سول پروسیجر کوڈ کے ہاتھوں جانیں گنوائیں، عزتیں لٹوائیں، مال و زر کھویا، اب ہوش آیا، چیف جسٹس نے جو کہا وہ ہمارے درد کی مختصر مگر جامع روداد ہے، یہ اب تک کیوں نہ بدلا گیا یہ کوئی بھول چوک نہ تھی، اس میں طالع آزمائوں اور جلب منفعت کرنیوالوں کیلئے ان کی جنت پوشیدہ تھی، اگر یہی کام بہت پہلے کر لیا جاتا تو آج گلی گلی جرم عام نہ ہوتا، قصور کی زینب کی عزت اور جان کا قاتل اب بھی زندہ ہے حالانکہ سزا طے پا چکی ہے مگر یہ بوسیدہ قوانین ہیں جو واقعہ بھول جانے کے بعد بھی شاید سزا نہیں دے پاتا اور اگر سزا ملتی ہے تو سات پردوں میں نہاں ہو کر، جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا کے مترادف تین افراد کے سامنے بند کمرے میں پھانسی دی جاتی ہے تو اس وقت سزا کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے، لوگوں کو اب یہ مان لینا چاہئے کہ آدمی سب ہوتے ہیں انسان کوئی کوئی، اور قانون سزا کا ہو یا جزا کا اکثریت کیلئے بنایا جاتا ہے، مہذب گنتی کے انسان تو وہ جرائم کرتے ہی نہیں جن کی خبر سن کر انسان لرز جاتا ہے آدمی کو کچھ فرق نہیں پڑتا، آج ساری دنیا نے Speedy Justiceکا چلن اپنا لیا ہے، یہ کہنا کہ سرعام پھانسی دینے سے خوف ہراس پھیلے گا جرم بڑھے گا محض جرم کیلئے راہ ہموار اور آسان بنانا ہے، جب مجرم، ہولناک جرم کرتا ہے اور اسکی تفصیلات مہینوں لوگ دیکھتے سنتے ہیں تب کوئی خوف و ہراس نہیں پھیلتا؟ ہمیں اسلام کے قوانین اور سزائوں کو بھی نئے قوانین بناتے وقت پیش نظر رکھنا چاہئے، چیف جسٹس نے واضح طور پر کہہ دیا کہ قانون سازی عدالتوں کا کام نہیں جنکا ہے وہ مصروف ہیں۔
٭٭٭٭
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے آپ اپنی وضع نہ بدلیں
عمران خان:فضل الرحمان کے کردار کی وجہ سے کئی ملک انہیں ویزا نہیں دیتے فضل الرحمان: سیاسی چھچھورے کا نام نہ لیں، ملک اس گند سے پاک کرنا ہے۔ عمران خان ہر اچھے آدمی کو کیا لگتے ہیں یہ سارے اچھے لوگ خوب جانتے ہیں، ہمیں مولانا اس لئے بھی اچھے لگتے ہیں کہ وہ صحیح اردو بولتے ہیں، اور صحیح اردو میں صحیح باتیں کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں، مگر موجودہ مذکورہ بیان کو دیکھ کر ہمیں یوں لگا کہ؎
عمران تو عمران تھے ہی مگر
کیا فضل الرحمان بھی عمران ہو گئے؟
مولانا! آپ اپنا بیانیہ پہلے جیسا رکھیں کیونکہ آپ واحد سیاستدان ہیں جو صحیح نستعلیق اور کوثر و تسنیم میں دھلی زبان بولتے ہیں، آپ کی اردو کمال ہوتی ہے، ایک پشتو اسپیکنگ پٹھان دلی کی ٹکسالی زبان بولے تو یہ بڑے کمال کی بات ہے، اور ایک پنجابی اسپیکنگ پٹھان تو پٹھان ہی نہیں ہوتا آپ کے مقابل اسے لائیں تو کیسے؟ بہرحال آپ نے عمرانی زبان میں بات سچی کی ہے، اور عمران نے اپنی زبان میں بھی وہ بولا جسے کبھی نہ تولا، بس کہہ ڈالا، فضل الرحمان منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، عمران خان کہنہ مشق نادان ہیں، ’’ببین تفاوت راہ از کجا است نا بکجا‘‘ (فرق دیکھیں کہاں سے کہاں تک ہے) رہی یہ بات کہ مولانا کو بعض ممالک ویزا نہیں دیتے تو بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں لوگ مسجد میں جانے سے روکتے ہیں صنم خانے میں دھکیلتے ہیں، ایسا تو ہوتا ہے اس طرح کی سیاست میں، مولانا کو اگر کوئی ملک ویزا نہیں دیتا تو سمجھ لیں کہ ایسے ملک میں جانا روا نہیں، جائز ہوتا تو مولانا کو کیوں روکتا۔
٭٭٭٭
نیا عشق پرانا بیٹ
....Oٹرمپ کے وکیل کے دفتر پر چھاپا، امریکی صدر نے ملک پر حملہ قرار دے دیا،
خدانخواستہ امریکہ پر حملہ ہو گیا تو وہ اسے اپنے وکیل کے دفتر پر حملہ تصور کریں گےحساب برابر،
....Oڈاکٹر عاصم:چوہدری نثار جیسا خطرناک آدمی پورے پاکستان میں نہیں۔
آپ جیسا بے ضرر آدمی پوری دنیا میں نہیں
....Oخورشید شاہ:نواز شریف کو بات چیت کے ذریعے اقتدار ملا۔
آپ کریں تو ٹھیک وہ کریں تو پاپ۔
....Oپرویز رشید:انتخابات سے پہلے پنچھی درخت بدلتے رہتے ہیں،
پنچھی اور ن لیگی میں بڑا فرق ہے، اسی طرح درخت اور انسان میں بھی بڑا فرق ہے، پنچھی تبدیلی چاہتا ہے انسان تبدیلی چاہتا ہے لاتا نہیں۔
....Oنواز شریف:پارٹی چھوڑنے والے کبھی ہمارے تھے ہی نہیں،
گویاوہ پارٹی جوائن کرتے وقت ہی ن لیگ کے نہیں تھے۔
....O عمران خان:’’چھوٹے بھائی‘‘ کو فوج سے نیا عشق ہو گیا،
نیا عشق ہو جانا صرف آپ ہی کے لئے تو روا نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین