• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کیلئے آ

شاعر مِلن سے زیادہ ہجر کا رسیا ہے۔ اس کی آہ و زاری سے دیوان بھرے پڑے ہیں۔ وہ نگاہیں ملنے کی واردات کے سحر میں سرشار رہنے سے زیادہ نگاہیں پھیر لینے کی اذیت میں مبتلا رہتا ہے اور اسی کو رقم کر کر کے اپنے دُکھ تازہ رکھتا ہے۔ وہ دُکھوں کا بیوپاری ہے۔ دُکھ بیچ کر مزید دُکھ خریدنے کا جتن کرتا ہے۔ اس کے درد سے بھرے گیت گا کر ایک دنیا اپنا کتھارسز کرتی ہے۔ ہجر میں رہنا اس کی عادت بھی ہے اور مجبوری بھی اس لئے کہ دنیا میں اس کے تصورات، اس کی روح اور اس کے دل سے ہم آہنگی رکھنے والا دوسرا انسان کم کم وجود رکھتا ہے۔ ویسے تو ہر انسان اپنی پسند ناپسند اور رجحانات کے حوالے سے تنہا ہے مگر تخلیق کاروں کو اس کا زیادہ شدت سے احساس ہوتا ہے کہ جیسے وہ ہیں ویسا کوئی نہیں اس لئے وہ ذات کی انجمن آباد کر لیتے ہیں۔ مسئلہ خیالات، احساسات اور تصورات کا نہیں فریکوئنسی کے لیول کا ہے۔ ہر فرد فریکوئنسی کے ایک خاص لیول پر موجود ہوتا ہے۔ یہ لیول ظاہری عناصر آگ، پانی، مٹی، ہوا کی تال میل اور روح کے اتصال سے بنتا ہے اور یہ بالکل منطقی اصول کی طرح کام کرتا ہے۔ کئی لوگوں سے ہمارے خیالات نہیں ملتے۔ وہ ہماری طرح سوچتے ہیں نہ محسوس کرتے ہیں۔ ان کا زندگی کا چلن بھی ہمارے جیسا نہیں ہوتا مگر وہ پھر بھی ہمیں بھلے لگتے ہیں اس لئے کہ وہ ہماری فریکوئنسی کے ساتھ میل کھاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ جو اچھی شکل و صورت کے بھی ہوتے ہیں اور ان کے کسی عمل سے ہمیں کوئی نقصان بھی نہیں ہوتا مگر وہ ہمیں بالکل اچھے نہیں لگتے۔ یہاں بھی مسئلہ فریکوئنسی میں اختلاف کا ہے، مزاج اور خیالات کے اختلاف کا نہیں۔ یہ کائنات اور انسان کا وجود عجیب ضرور ہیں مگر ایک قاعدے قانون کے مطابق کام کرتے ہیں۔ خدا نے انسان کے اندر کئی بڑی رمز اور اسرار پنہاں رکھے ہیں۔ انہی میں سے ایک رمز فریکوئنسی کاہے جس کی وجہ سے رابطے استوار ہوتے ہیں اور پسند ناپسند کے معیار طے پاتے ہیں۔ جب ایک جیسی فریکوئنسی کے لوگ ملتے ہیں تو ان کے وجود سے نکلنے والی لہریں خوشگوار تاثر کا احساس دلاتی ہیں۔ یہی لہریں دوستی کی طرف بڑھنے والا ہاتھ بن جاتی ہیں۔ اگر فریکوئنسی کے ایک ہی لیول پر موجود افراد ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں تو پھر لیلیٰ مجنوں، سوہنی مہینوال اور امرتا امروز جیسی پریم کی انمٹ داستانیں جنم لیتی ہیں۔ کبھی کبھی وہ ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں مگر زندگی کے اردگرد بُنے مادیت کے جال ہمیں ان چہروں اور آنکھوں میں جھانکنے کی مہلت ہی نہیں دیتے جن میں ہمارے دل کی خوشی اور روح کی بالیدگی کی طرف جانے والے رستوں کے نقشے ابھرے ہوتے ہیں۔
تاہم بات ہو رہی تھی ہجر کی تو شاعر کو ہمیشہ بے وفا محبوب پسند رہا ہے تا کہ اس کی کج ادائی کے تذکروں سے شاعر کا کام چلتا رہے (شاعری کا نوے فیصد حصہ بے وفائی کے تذکروں سے بھرا ہے)۔ وہ محبوب کی بے وفائی کے باوجود اسے آواز دے کر بلاتا اور اپنی اذیت میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ احمد فراز نے کہا تھا:
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
اسی طرح پروین شاکر بھی بار بار بے وفائی کر کے واپس آنے والے ہرجائی صنم کو خوش آمدید کہتی ہے:
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی
تاہم یہ رویہ صرف شاعری تک محدود نہیں زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی کبھی کبھی یہ کلیہ کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح پچھلے دنوں اچانک ایک درجن کے قریب افراد کو ایک دم یہ خیال آیا کہ وہ غلط راستے پر چل رہے ہیں اور جس پارٹی کے ساتھ شب و روز وابستگی کا ورد کرتے رہے وہ تو ان کے سیاسی نظریے سے بالکل میل نہ کھاتی تھی۔ ایک دو ماہ کی بات نہیں تقریباً پانچ سال ایک ہی گاڑی میں سوار رہے، خود پر ظلم ڈھاتے ہوئے صبح و شام وفاداری کا اعلان بھی کرتے رہے، حالات و مفادات کی مجبوریوں کے شور میں ضمیر کی آواز ہی سنائی نہ دی، پھر ایک موڑ پر رفتار ذرا سست کیا ہوئی وہ جلدی آگے جانے والے کسی اور تیز رفتار ڈرائیور کے ہارن پر اُس کے ساتھ ہو لئے۔ کچھ بھی ہو جدائی کا موڑ بہت ظالم ہوتا ہے۔ کسی کو خوش اور کسی کو مضمحل کر دیتا ہے۔ چھوڑ جانے والے پہلے بھی کسی اور جماعت کو خیر باد کہہ کر آئے تھے یا آزاد حیثیت میں انتخاب جیت کر شامل ہوئے تھے اسی لئے پانچ برس ان پر مکمل بھروسہ کرنے اور انہیں اپنانے والے سابق وزیراعظم نے کہا کہ وہ تو ہمارے تھے ہی نہیں اس لئے انہیں تو جانا ہی تھا۔ جب وہ بات کر رہے تھے تو طلال چوہدری ہمیشہ کی طرح ان کے ساتھ کھڑے مسکرا رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں مشکل وقت میں مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر مشرف کے ساتھ جانے والے اکثر ممبران کو خوش آمدید نہیں کہا۔ حالانکہ اس وقت یہ جس کو بھی ٹکٹ دیتے وہ جیت جاتا مگر لوٹا کریسی کی روایت کو مضبوط کیا گیا۔ اگر کوئی پالیسی بنائی جائے تو اس سے سب مستفید ہونے چاہئیں۔ تو کیا ہی اچھا ہوتا مشرف کو بھی شامل کر لیا جاتا یا کم از کم مقدمہ بازی سے ہی گریز کر لیا جاتا حالانکہ مشرف کے قریبی رفقاء کار نے ہر گھڑی میاں صاحب کا حصار کئے رکھا۔
کہتے ہیں جب حالات کی کوئی گرہ ہاتھ نہ آئے تو کچھ دیر کے لئے منظر نامے سے غائب ہو جانا چاہئے اور اگر ممکن ہو تو ذات کی کوٹھڑی میں بند ہو کر اپنا احتساب اور حالات کا تجزیہ کرنا چاہئے۔آزمائشیں اور خطائیں مل کر ایسا طوفان برپا کر دیتی ہیں کہ سب تدبیریں اُلٹی پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں الجھنے کی بجائے معاملات کو خدا پر چھوڑ دینا زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے میاں نواز شریف کو چاہئے کہ وہ تمام اختیارات میاں شہباز شریف کو تفویض کر کے کچھ دن مریم نواز کے ہمراہ کلثوم نواز کی تیمار داری کریں۔ منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ساتھ ساتھ آرام بھی کر لیں تا کہ فضا میں ہم آہنگی کا کوئی ترانہ اچھالا جا سکے۔ روٹھے ہوئوں کو منایا اور ساتھ چلنے والوں کو مشاورت میں شامل کیا جاسکے ورنہ ناموافق حالات میں ان کی تقریریں مزید تلخی کا باعث بنیں گی اور شہباز شریف سے بھی ازالہ ممکن نہ رہے گا۔ آج مائوں کا عالمی دن ہے۔ ماں کی ایک دن کی دیکھ بھال کا بدلہ نہیں دیا جا سکتا صرف خراجِ تحسین پیش کیا جا سکتا ہے۔
جب ماں کا اعتبار مرے ساتھ ساتھ ہے
دونوں جہاں کا پیار مرے ساتھ ساتھ ہے
سنتی ہے صرف وہ مرے احساس کی زبان
یہ وجۂ افتخار مرے ساتھ ساتھ ہے
سب موسموں میں چھائوں کا جو استعارہ ہے
وہ شجرِ سایہ دار مرے ساتھ ساتھ ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین